بہت ڈھونڈا کوئی صاحب ایماں نہ ملا

Published on September 9, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 223)      No Comments

تحریر:۔ چوہدری ناصر گجر
میری ناقص رائے میں پاکستان میں بھوک افلاس ، بے روزگاری، مہنگائی ، سماجی اور اقتصادی بے انصافی ، امیر اور غریب کے درمیان حد سے زیادہ تفاوت اور لاقانونیت کی وجہ سے حالات اگر انقلاب کی طرف نہیں جا رہے تو کم از کم سول وار یعنی خانہ جنگی کی طرف ضرور جا رہے ہیں ۔ اب تو غریب بھی آپس میں دست و گریبان ہیں مگر وہ وقت دور نہیں جب مہنگائی بے روزگاری اور لاقانونیت کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کی توپ کا منہ امراء اور صاحب ثروت لوگوں کی طرف ہو جائے گا ۔اس قسم کے حالات پنڈی اور اسلام آباد میں نہیں ہو تے البتہ! ملک کے دوسرے شہروں کی حالت اس سے زیادہ خطر ناک ہے ۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر پولیس کی تعداد اور ان کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا جائے تو پولیس کی استعداد کار اور جرائم میں کمی آئے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایک لاکھ آبادی کیلئے 222 پولیس اہل کاروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان جس کے وسائل تھوڑے ہیں اس کے باوجود پولیس اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ آبادی کیلئے تین سو سے زائد ہے۔برطانیہ کے ایک سکالر کہتے ہیں کہ برطانیہ میں اقتصادی مشکلات ، بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بے روزگاری اور دیگر مسائل کے علاوہ جرائم میں کمی ہوئی اور یہ پولیس کی بہتر کارکردگی اور تربیت کی بدولت ہوا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباََ تین لاکھ پولیس افسران و اہلکار مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق 2013 سے 2017 کے دوران کانسٹیبل سے ڈی ایس پی سطح کے دو لاکھ 98 ہزار 482 پولیس افسران و اہلکار جرائم میں ملوث نکلے ہیں ۔ پنجاب پولیس کی ڈسپلن برانچ کی پانچ سالہ رپورٹ کے مطابق 494 ڈی ایس پی، نو ہزار تین سو پندرہ انسپکٹرز اور 54 ہزار تین سو تیرہ انسپکٹرز نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا۔ جبکہ 53ہزار645 اسسٹنٹ سب انسپکٹرز اور ایک لاکھ 76 ہزار 850 ہیڈ کانسٹیبلز اور کانسٹیبلز نے جرائم کئے ۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 76 پولیس افسر اور اہلکار غیر قانونی تشدد میں ملوث پائے گئے اور کانسٹیبل سے ڈی ایس پی تک 3904 ملازمین کرپشن میں ملوث نکلے ۔ رپورٹ کے مطابق 9759 ملازمین نے نوکری میں غفلت اور لاپرواہی برتی جبکہ 3217 نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ۔ 2013 سے 17 کے درمیان پولیس اہلکاروں کے خلاف سنگین نوعیت کے چار ہزار تیرہ مقدمات درج کئے گئے۔ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پنجاب پولیس نے 238 عام شہریوں کو غیر قانونی قید میں رکھا اور داد رسی کیلئے آنے والے 645 سائلین کے ساتھ ناروا سلوک کیا۔پولیس اہلکاروں نے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ملی بھگت سے 1381 ملزمان کو حراست سے فرار کرایا اور 495 افراد کو حراست کے دوران موت کے گھاٹ اتارا۔ یہ رپورٹ ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور کیس درج کروائے لیکن میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس سے چار گناہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف بااثر پولیس اہلکاروں کی دھونس و طاقت کے ڈر کی وجہ سے کیس درج کروانے سے گریزاں رہتے ہیں اور زندگی کا یہ زہریلا گھونٹ بھی حلق سے نیچے اتار لیتے ہیں ۔زیادہ تر دیہی اور پسماندہ اضلاع میں اس طرح کے پولیس اہلکاروں کی تعیناتیاں ہوتیں ہیں جن کے پیچھے با اثر وڈیروں ، جاگیر داروں ، سیاسی اور اشراف طبقے کا اثر رسوخ ہوتا ہے جو اپنی نام نہاد وڈیرہ شاہی کو قائم رکھنے کیلئے اپنے منظور نظر پولیس اہلکاروں کو تھانوں چوکیوں میں تعینات کرواتے ہیں ، انہیں اکچھ لے دے کر اپنی مرضی کے مطابق ان سے کام لیتے ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ پسماندہ اضلاع میں ایس ایچ او علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی اگر غنڈے کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ اس کے علاقے میں کی جانے ڈیوٹی کو بخوبی ادا کر ے گا۔ویسے تو میں نے پولیس سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی لیکن اپنے اردگرد کے ماحول اور مختلف لوگوں کی داستانیں سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ دنوں میں پولیس سے بڑھ کر بدمعاش اور جرائم پیشہ کوئی نہیں ہو گا۔حالیہ چند لوگوں کے واقعات جو سننے کو ملے ان میں سے عید الاضحی کے پہلے دن ایک کم عمر بچہ جب دوپتنگیں خرید کر لے جا رہا تھا تو تھانہ کوتوالی کے ایس ایچ او نے پکڑ کر اس پر ایف آئی آر دے دی جبکہ تھانے کے قریب گلی میں سر عام پتنگیں فروخت کرنے والے کی طرف پولیس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ۔کہیں پتنگ فروشوں کو پکڑ کر بھاری رقم بٹور کر چھوڑ دیا جاتا کہیں تھانیدار یا ایس ایچ او اپنی گرل فرینڈ کو خوش کرنے کیلئے لوگوں کو پکڑ کر 9-c کے پرچے دے دیتا ہے ۔ اپنے پاس سے کلو ، کلو چرس ڈال کر اپنی کارکردگی دکھانا جھنگ پولیس کی روایت ہے ۔اگر شرجیل میمن کی شراب کی بوتلیں جھنگ پولیس نے برآمد کی ہوتیں تو یا تو سودا کروڑوں میں ہوتا یا ان میں شراب کی جگہ جھنگ پولیس ہیروئن برآمد کرتی ۔نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والے وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ پنجاب پولیس کے ان ہتھکنڈوں کو روکنے کیلئے ان کا احتسابی عمل کے آغاز کیلئے جلد از جلد اقدامات کرے ، یہ عمل پسماندہ اضلاع کے افسران سے شروع کرے ، سیاسی دباؤ ختم کروانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر فیصلے کرے ۔پنجاب پولیس کو بھی عوامی ادارہ بنایا جائے۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress Blog