قصور رپورٹ کارڈ 

Published on September 24, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 441)      1 Comment

حصہ دوم
تحریر۔۔۔ مہر سلطان محمود
ضلع قصور کے مسائل پر رپورٹ کارڈ کے نام سے لکھنے کا مرحلہ وار سلسلہ شروع کیا گیا ہے پہلا حصہ قارئین پڑھ چکے ہیں دوسرا حاضر ہے سب پہلے محرم الحرام کے موقع پر امن و امان کے بہترین انتظامات پر انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ہی ضلع بھر میں ہونیوالی متفرق وارداتوں پر کنٹرول بدقسمتی کیساتھ کپتان قصور پولیس کی بہترین صلاحیتوں کے باوجود نہیں ہوسکا ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے پرانے ایس ایچ اوز کی واپسی پر شاید اب حالات بہتر ہوسکیں ضلع بھر میں پولیس رضا کاروں کو ان کا معاوضہ تقریبا نہ ملنے کے برابر ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف ناکوں پر کھڑے ہوکر عوام کی جیبوں کو خالی کرتے ہیں یہ صورتحال ضلع بھر میں ہے مستقل پولیس ملازمین وٹریفک پولیس اہلکاران بھی اس مہم میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں چند روپے لیکر ناکوں سے گاڑیوں کو گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے چاہے ان کی گاڑی میں جو مرضی ہو ٹریفک پولیس اہلکاران سول ٹاوٹ کے زریعے پیسے اکٹھے کرتے ہیں خدشہ ہے کہ جعلی چالان بکس استعمال ہوتی ہیں ٹریفک پولیس اہلکاران کا رشوت لینے کا کسی صورت جواز نہیں بنتا ہے مگر ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق مختلف سرکاری محکموں کے اہلکاران کو سرکاری امور کی تکمیل کیلئے اپنے اپنے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں ہدیہ بطور تبرک دینا پڑتا ہے تمام اداروں کے نام لکھنے سے طوالت تحریر ہوگی سمجھداروں کیلئے اتنا ہی کافی ہے اس لیئے اکثریتی محکموں کے اہلکاران سرکاری ملازمین کی سروس و دفتری ریکارڈ کی تکمیل میں دیا جانے والا ہدیہ ظاہری بات ہے اپنی جیب سے نہیں دیتے بلکہ وہ متعلقہ ملازمین و سائلین سے وصول کرتے ہیں ساتھ میں اپنا حصہ الگ سے اکٹھا کرتے ہیںیہ ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کا حکومتی سطح پر تدارک کرنے کی کوششیں کرنے کا ہوم ورک سٹارٹ ہوچکاہے مگر بدقسمتی کیساتھ یہ ہدیہ ٹائپ رشوت ہماری قوم کی رگ رگ میں خون کی طرح سرائیت کرچکی ہے دفتری سٹیشنری و پٹرول کی مد میں بجٹ جب افسران بالا خود ہی ہضم کرجاتے ہیں تب عوام کواپنے بابوؤں سے ایمانداری کی امید نہیں رکھنی چاہیے کسی زمانے میں عوام کی نظر میں محکمہ پولیس کو کرپشن کا گڑھ گردانا جاتا تھا مگر ایک فل وقتی تحقیق کے مطابق پولیس صرف بدنام ہے باقی محکمے اس کارخیر میں عوامی سوچ سے ذیادہ سپیڈ لگا چکے ہیں محکمہ ہیلتھ ،محکمہ ایجوکیشن،محکمہ ہائی وے ،محکمہ لوکل گورنمنٹ ،محکمہ پبلک ہیلتھ اور محکمہ مال (ریونیو)شامل ہیں محکمہ ہیلتھ والے ہدیہ تبرک کھانے کی مد میں انسانی جانوں سے کھیلنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں لیبارٹری والے ،میڈیسن سٹور کے ڈسپنسر ،فارماسسٹ اور ایم ایس صاحبان اور ضلعی دفاتر میں موجود سربراہان ایک خاتون سربراہ کے خلاف متعدد اخبارات و نیوز چینلز پر سرکاری گاڑی کے ناجائزاستعمال وکرپشن کرنے پر مصدقہ خبروں کی اشاعت ہوئی مگر مجال ہے کسی بھی انتظامی سربراہ نے ایکشن لیکر وقت ضائع کرنا گوارا کیا ہو کچھ زرائع کے مطابق لمبے چوڑے نذرانے و سفارشیں اپنا جادوئی اثر دکھاتی ہیں بوگس بلنگ شاید تمام ریکارڈ توڑچکی ہے متعدد محکموں میں! 
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہاہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو
ایک گھر میں ہے منڈی جھوٹوں کی
مکان کے دروازے پہ لکھا ہے سچ بولو!
محکمہ ایجوکیشن میں کرپشن و جعلی ڈگریوں کی انکوائریوں کو ردو بدو کرنے میں ماسوائے چند ایک کے سبھی چھوٹے بڑے شامل ہیں ڈی ایم او آفس کے چند لوگ کرپشن کے خلاف آنیوالی درخواستوں کو غائب کرنے میں ماہر ہیں محکمہ لوکل گورنمنٹ و پبلک ہیلتھ کے زیرنگرانی ہونیوالے ترقیاتی کام شاید ہی رول ماڈل ہوں ضلع بھر میں ہر طرف ناقص تعمیراتی کاموں کی شکایات کے باوجود افسران کے چہتے ہیں ماضی میں منتخب عوامی نمائندوں اور افسران کی ملی بھگت سے سرکار کو اربوں کا ٹیکہ لگ چکا ہے اگر نیب ایک دفعہ قصور کا رخ کرلے تو کسی بھی یونیورسٹی کے سب کیمپس کی تعمیر کے پیسے سیاستدانوں وافسران سے نکل آئیں گے ان سیاستدانوں کے سیاست میں آنے سے پہلے اور افسران کے ان سیٹوں پر تعینات ہونے سے پہلے کا ریکارڈ لیکر موجودہ سٹیٹس کا موازنہ کیا جائے تو انسانی سوچ کا دھارا ہی بدل جاتا ہے کئی ملازمین کے بقول ہم سب افسران کو حصہ برابر تقسم کرکے پہنچا دیتے ہیں اس کے بعد اینٹی کرپشن اوردیگر انسداد کرپشن اداروں کے منہ بند کرتے ہیں اس کے بعد باری آتی ہے محکمہ مال کی تو اس کا سوال ہی نہ کریں کیا کرتا ہے کیوں کہ یہ سب کرتا ہے مال بھی لیتا زمین بھی چھینتا ہے اور آخر پر اگلے جہان بھی پہنچا کر دم لیتا ہے ضلع قصور میں قصور شہر وموضع راجہ جنگ کا اشتعمال تین نسلوں تک نہیں ہوسکا ہے اس کی وجہ سے متعدد سرکاری زمینوں کی فراڈ و قبضہ مافیاء نے خرید کرلی ہے ساتھ میں عوام کی زمینوں پر بھی ہیرا پھیری کرکے قبضہ کرلیا ہے ان بدنام زمانہ پٹواریوں کو متعدد سیاستدانوں اور افسران کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے اشتعمال نہ ہونے کی وجہ سے پٹواری حضرات کروڑ پتی بن چکے ہیں ان کے بقول لاہور تک حصہ پہنچاتے ہیں سیاستدان ہمارے ساتھ ہیں ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے سیاستدانوں کی اکثریت اس گنگا میں ہاتھ دھوتی ہے کوئی صوم وصلاۃ کا سہارا لیکر تو کوئی اس کے بغیر کچھ سیاستدان ٹھیکوں میں کمیشن و نوکریوں کے پیسے لیکربدنام ہونے کی بجائے زمینوں پر قبضے کرکے اپنی جائیدادوں میں نان سٹاپ اضافہ کرتے ہیں معہ یوٹرن کے اس میں قصور میں ماضی و حال میں تعینات افسران بھی شامل ہیں اسٹام فروشی کے لائسنس تک جاری نہیں ہوتے ہیں ہدیہ تبرک کے بغیر ان سب کاموں کے باوجود ایمانداری کا چرچا عروج پر ہے جو پٹواری جتنا بڑا کرپٹ ہو بس وہ بادشاہ سلامت کے گھر کی یاترا کرلے وہ پاک پویتر ہوجاتا ہے ۔
مسائل جوں کے توں عوام کا منہ چڑاتے ہیں تجاوزات وہ اندرون شہر ہوں یا بیرون شہر اور مختلف سڑکوں پر انتظامی افسران ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں ٹرانسپورٹ اتھارٹی شاید عملہ نہ ہونے کی وجہ سے بے بس نظرآتی ہے ٹرانسپورٹرز بد مست ہاتھی کیطرح قابو سے باہر ہیں بس سٹینڈز خالی اور سڑکیں گاڑیوں سے بھری پڑی ہیں جگہ جگہ جگا ٹیکس لیا جاتا ہے کوٹ رادھاکشن سے پتوکی روڈ پر چھانگا مانگا بس سٹاپ پر سرعام جگا لیا جاتا ہے اسی طرض ضلع بھر میں سلسلہ جاری وساری ہے متعدد خبروں کی اشاعت کے باوجود اداروں کی نااہلی ہر وقت جگمگاتی رہتی ہے الہ آباد میں چوک کنگن پورروڈ متعدد آپریشنز کے باوجود جوں کا توں ہے کارکردگی کس سمندر میں ڈوب رہی ہے اس کا جواب شاید جن ہی دے سکتے ہیں صفائی ستھرائی اور پینے کا صاف پانی سرے سے ناپید ہے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز مریضوں کی تعداد سے کہیں کم ہیں مگر ہیلتھ اتھارٹی کو فوٹو سیشن سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے عطائی حضرات کا جن بے قابو ہے ڈرگ انسپکٹرز کی کارکردگی انتہائی خراب ہے مگر مجال ہے کوئی پوچھنے والا ہو ،فوڈ اتھارٹی والے فرضی کاروائیاں کرکے سب اچھا کی رپورٹس بھیج کر چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں یہاں تک کہ اسسٹنٹ کمشنرز کی فون کالز کو اہمیت دینا توہین سمجھتے ہیں آخر پر محکمہ بلڈنگ کی کارکردگی دس پرسنٹ پر سب اچھا ہوجاتی ہے عملی تصویر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کوٹ رادھاکشن کی بلڈنگ ہے عرصہ دراز سے اداروں کی کارکردگی افسوس ناک حد تک خراب ہے مگر کوئی فیصلہ کن ایکشن دوربین سے بھی دیکھنے کو نہیں ملا ہے تحصیل قصور کے نواحی گاؤں مہالم کلاں میں سڑک کی پل ٹوٹ جانے کی وجہ سے جوھڑ کا پانی سڑک پر ہے راہگیروں و سکول کے بچوں کو جانے کیلئے ا سی گندے پانی سے گزرنا پڑتاہے یہ بہت اچھی کارکردگی ہے منتخب عوامی نمایئندوں اور افسران کی ،پرائیوٹ ہسپتالوں میں جاہل و ان پڑھ عملہ انسانی جانوں سے کھیل رہا ہے ۔

Readers Comments (1)
  1. Jahangir Ahmad says:

    Issues pointed out that’s good.. but should have given their solutions as well





Weboy

Free WordPress Theme