گٹکا، سپاری، پان کے شوقین نتائج سے بے خبر

Published on November 24, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 413)      No Comments

تحریر۔۔۔ علی رضا رانا 
ویسے تو ہماری عوام رونے دھونے میں کافی مشہور ہے کہ کاروبار نہیں، نوکری نہیں ملتی، کام بند ہوگیا ہے، کارخانہ ٹھپ ہوگیا ہے۔ بچہ پرائیویٹ اسکول میں پڑھ رہا ہے، فیس کہاں سے دونگا؟، چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھ کر حکومت کو گالیاں دینے میں بھی ہمارے عام آدمی سے کوئی جیت نہیں سکتا، اور جب بات بیماری کی آئے تو ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں اور کوسنے اور بد دعائیں دینا تک ان سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ مگر جناب اگر بات مین پوری اور گٹکے کی آئے تو کراچی کا نام سرِ فہرست نظر آتا ہے جہاں پر ہر تین میں سے دو افراد مین پوری اور گٹکے کے شوقین نظر آتے ہیں، باپ گٹکا کھانے والا ہوتا ہے تو اولاد بھی کھانے لگ جاتی ہے اور ماں باپ اس کو اس لیے نہیں روک پاتے کہ میں تو خود کھاتا ہوں اب اپنی اولاد کو کس منہ سے روکوں۔ مگر گزشتہ کچھ سالوں میں کراچی کے اثرات حیدر آباد اور اندرونِ سندھ والوں کو بھی اپنے رنگ میں شامل کرچکے ہیں اس وقت تو پابند ہے مگر توجہ سے سن لیں ، کہ پابند ی کے دوران بھی مین پوری 10,20روپے کے بجائے 50روپے سے80روپے میں فروخت کی جاری ہے اور گٹکا 15روپے سے بڑھ کر30سے 40روپے میں فروخت کیا جارہا ہے اور یہی نہیں اور بھی سن لیں کہ بنانے والے اور بیچنے والے پولیس اور دیگر مقامی اداروں کو بھی ہفتہ یا جس کو آپ بھتے کے نام سے اچھے سے سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ مگر مین پوری ، گٹکا ، سگریٹ اور دیگر چیزیں صرف عام آدمی ہی نہیں کھاتے بلکہ دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے حضرات اور نوجوان اور طالب علم بھی کھاتے ہیں جن میں بڑی تعداد دیگر عام پیشوں سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ باقی ٹیچرز، طالب علم، مذہبی جماعت کے کارکن، اور دیگر شام ہیں۔ مگر ان حضرات کو سوچنا ہوگا کہ اس قسم کی چیزیں ان کو موت کی جانب لے جارہی ہیں اور بڑا مسئلہ منہ اور جگر کے کینسر کا ہے۔ گردے کی پتھری اور اپینڈکس سمیت دیگر خطرناک امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ منہ کا کینسر ایک ایسی بیماری ہے جو ہمارے معاشرے میں عام ہے، یہ کینسر دنیا بھر میں پھیل رہا ہے لیکن اس سے بچاؤ بھی ممکن ہے۔ یہ کینسر ہر طبقے کے فرد میں موجود ہے چاہے وہ امیر ہو یا بھر غریب، زبان، گال، مسوڑئے ، دانت اور زبان کے نچلے حصلے کے کینسر کو منہ کا کینسر کہا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں زبان کا کینسر عام ہے جبکہ ہمارے ہاں گال کا کینسر سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ غیر مسلم ممالک میں زبان کے کینسر کے عام ہونے کی وجہ شراب اور تمباکو نوشی کا کثرت سے استعمال ہے اور یہ دونوں چیزیں مل کر ہی منہ کے کینسر کا سبب بنتی ہیں ۔ ہمارے ہاں تمباکو نوشی ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں اس میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سگریٹ کے اشتہارات پر لگائی جانے والی پابندی ہے لیکن بد قسمتی سے اس کی جگہ پاکستان میں دوسرے متعدد بری اقسام کی اشیاء تیزی سے پھیل رہی ہیں ان اشیاء میں 249چھالیہ، 249گٹکا، 249مین پوری اور چبانے والے تمباکو شامل ہیں جن کا استعمال زیادہ ہوگیا ہے۔ سادہ پان کھانا یا سونف الائچی والا پان کھانا وہ بھی کبھی کبھی زیادہ مضر صحت نہیں ہے البتہ تمباکو والا پان تمباکو کی دیگر اشکال جن میں نکوٹین کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے انتہائی نقصان دہ ہے۔ پاکستان میں تمباکو کئی ایسی شکلوں میں دستیاب ہے جن کے کھانے سے منہ لال نہیں ہوتا اور نہ ہی دیکھنے والے کو برا محسوس ہوتا ہے لیکن یہ انتہائی زہریلا بھی ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں گٹکا بھی بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور دیگر ملغوب اشیاء کو شامل کرکے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سگریٹ کے مقابلے میں سستا ہونے کی وجہ سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ جتنا سستاہے اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ بھی ہوتا ہے۔ چھالیہ میں ایک خاص قسم کی پھپوندی لگ جاتی ہے جو کہ جگر اور منہ کے کینسر کا باعث بنتی ہے پہلے منہ کا کینسر صرف بوڑھے افراد میں پایا جاتا تھا لیکن اب یہ بچوں اور نوجوانوں میں بھی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ غذا کی کمی کی وجہ سے ہماری قوت مدافعت بھی کم ہوجاتا ہے اور یوں ہم آہستہ آہستہ خود چل کر کینسر کی جانب قدم بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اگر چہ چھالیہ کھانے والوں میں منہ کا کینسر کم ہی پایا جاتا ہے لیکن ان میں منہ کی دوسری بیماریاں جن میں منہ کا کم کھلنا یا کسی چیز کا ذائقہ محسوس نہ ہونا عام بات ہے۔ 
منہ کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ پان، چھالیہ ، نسوار اور گٹکے کا بے دریغ استعمال ہے ۔ چھالیہ ، پان اور گٹکے میں جو مٹھاس اور رنگوں کا استعمال ہوتا ہے اس کی وجہ سے فنگس نظر نہیں آتی۔ اس زہریلی فنگس کے صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں جن سے منہ کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ منہ کے خطرناک کینسر کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ چھالیہ میں پائے جانے والے فنگس سے زہریلے مواد کا اخراج ہوتا ہے جو کینسر کا سبب بنتا ہے۔ ایسے میں ان لوگوں کی جنہیں چھالیہ چبانے کی عادت ہوتی ہے منہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے ۔ گٹکے ، پان اور چھالیہ سمیت میٹھی سپاری کے نام سے رنگین چمکتی تھیلیوں میں بکنے والی چھالیہ کے متواتر استعمال سے بھی کینسر جیسے موذیمرض پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر سے اس وقت150اقسام کی میٹھی چھالیہ فروخت کی جارہی ہے ۔ جسے اسکول جانے والے بچے زیادہ شوق سے خریدتے ہیں۔نوجوان اور خواتین میں بھی اس کا استعمال عام ہے ۔ شربت جیسا مزہ رکھنے والی رنگ و کیمیکل سے بھری ان میٹھی سپاریوں کو “میٹھا زہر”کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کینسر کی علامات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کینسر کس عضو میں ہے۔ عام طور پر کینسر کی علامات میں جسم میں کسی بھی قسم کے خلیات کا تیزی سے بڑھنا جو کہ رسولی کی شکل میں ممودار ہوتا ہے اس کے علاوہ کینسر کی علامات میں بغیر کسی ظاہری وجہ کے وزن کا گھٹنا اور بخار کا رہنا، قے اور فضلے میں خون کا آنا جسم کے کسی بھی حصے میں غدود کا بڑھنا وغیرہ شامل ہیں۔ عموماً منہ کے اندر ایک زخم بن جاتا ہے جو کہ درد نہیں کرتا ۔ اس کے آس پاس گوشت سخت ہونے لگتا ہے اور انگلی یا زبان سے اس کی سختی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات زخم نہیں ہوتا لیکن کوئی گلٹی منہ سے نکل آتی ہے جو رفتہ رفتہ سخت ہونے لگتی ہے۔ کینسر عموماً درد نہیں کرتا صرف اس وقت درد شروع ہوتا ہے جب کینسر کسی اعصاب کو اپنی گرفت میں لے لے۔ کینسر جب بڑھنے لگتا ہے تو نگلنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ اسکے نتیجے میں لعاب منہ سے بے اختیا ربہنے لگتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ باتیں کرنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ تاہم سب سے تکلیف دہ صورتحال یہ ہوتی ہے کہ منہ کے ناسور سے نہایت خراب بدبو نکلتی ہے او رمتعدی بیماری میں مبتلا مریض کی طرح کوئی اسکے پاس نہیں بیٹھ سکتا ۔ جب کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے تو کمزوری بڑھ جاتی ہے اور اس طرح سے رفتہ رفتہ مریض موت کی جانب بڑھتا ہے۔ 
کینسر کے مرض کی شروعات کے دیگر حصوں میں بن جانے والے زخم ہیں جس کے باعث منہ پوری طرح کھلتا نہیں ہے یہ زخم گٹکا، تمباکو، پان، چھالیہ اور مین پوری کے کھانے سے منہ کے اندرونی حصوں خصوصاً حلق میں بن جاتے ہیں۔ اگر ان زخموں اور چھالوں کا باقاعدگی سے علاج نہ ہو تو ان چھالیہ کا استعمال ترک نہ کیا جائے تو یہ کینسر کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ کینسر زدہ حصے کو آپریشن کی مدد سے منہ کے متاثرہ حصوں سے کاٹ دیا جاتا ہے اگر منہ کا کینسر بڑھ جائے تو مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔ منہ کا کینسر کافی خطرناک ہوتا ہے۔ اگر وہ صرف دو سینٹی میٹر سے کم ہو تو دوسرے اسٹیج میں اس کا سائز دو اور چار سینٹی میٹر کے درمیان ہوتا ہے۔ تیسرے اور چوتھے اسٹیج میں یہ سرطان بہت آگے نکل جاتاہے جب ناسور ہڈی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اس وقت کی سرجری ، تابکاری شعاعیں اور کیمو تھراپی زیادہ سے زیادہ چند ماہ کی زندگی دے سکتی ہے یا اس سے منسلک بدبو سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ ایسی تمام اشیاء جو منہ کے کینسر اور دیگر مرض کے کینسر کا سبب بن رہی ہیں ان سے بچاؤ کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ ان کا استعمال ترک کردیں۔ یہ عمل انتہائی مشکل ہے لیکن اپنے دماغ کو کھلا رکھ کر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اسے ترک کرنے کا فیصلہ ضرور کریں کیونکہ ہم تھوڑی دیر کے سکون کے لیے ان چیزوں کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن بعد میں ہمیں ان کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے ۔ کینسر سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اصول فطری، متوازن اور سادہ زندگی گزارنا ہے اور غیر فطری طرز زندگی سے بچنا ہے اور آنے والی نسلوں کو اچھی سوچ اور بہترین ماحول دینا ہے۔ 
؂

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes