تحریر۔۔۔ چوہدری ناصر گجر
سال 2017 میں عمران خان نے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ مجھے وزیر اعظم بننے کا شوق نہیں ہے بلکہ میں آصف علی زرداری، شریف برادران اور ملک لوٹنے والوں کو اڈیالہ میں بند کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اکیس سال جد و جہد کی ہے اور مجھے جب بھی موقع ملے گا میں ان پر کیس بناؤں گا اور ان سے پیسہ نکلواؤں گا۔ پاناما کیس نے ملکی سیاست میں بھونچال بپا کر دیا ۔ بہت خوبصورت معقولہ یاد آ رہا ہے !’’گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کو دوڑتا ہے‘‘۔ میاں محمد نواز شریف پانامہ سے گرے اور اقامہ میں لٹکے اور اقامہ سے گرے تو اڈیالہ ان کا مقدر بنی ہے ۔ آصف علی زرداری ایان علی کو بچاتے بچاتے فریال تالپور سمیت اڈیالہ جانے کو تیار ہیں ۔ العزیزیہ ریفرنس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 24 دسمبر کو فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی گئی تھی اور اسی دن آصف علی زرداری کی قسمت کا فیصلہ بھی آنا تھا لیکن انہیں 31 تک کا وقت دے دیا گیا ۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کیلئے گھنٹی بج چکی ہے اور جو شواہد سامنے آئے ہیں ان سے یہی واضح ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری اور ان کے کئی قریبی ساتھیوں کا بچنا محال ہے ۔ اگرچہ آصف علی زرداری کیلئے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے تو شریف فیملی بھی مشکلات کے گرداب میں ہے۔شہباز شریف پہلے ہی جیل میں ہیں اور العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت سے سزا پانے کے بعد نواز شریف سات سال کیلئے جیل جا چکے ہیں ۔ اس ریفرنس میں نواز شریف کو ساڑھے تین ارب جرمانہ اور دس سال کیلئے کسی بھی عوامی عہدے کیلئے نااہل قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کے بری ہونے کے فیصلے کے خلاف نیب اپیل کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔یہ سال جہاں نواز شریف اور شہباز شریف کیلئے بھاری ثابت ہوا ہے وہیں حمزہ شہباز کے گرد بھی نیب لاہور گھیرا تنگ کرتی جا رہی ہے ۔اسحاق ڈار پہلے ہی سے عدالتی مفرور قرار دیئے جا چکے ہیں اور حسن و حسین نواز کے بھی دائمی وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے ہیں ۔ اگر مریم بی بی میدان میں نکل آئیں اور سینئر لیگی راہ نماؤں نے انہیں بطور قائد تسلیم کر لیا تو وہ نا صرف اپنے کارکنوں اور معاونت کرنے والوں کو متحرک کر پائیں گی بلکہ عمران حکومت کیلئے کافی مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔پنجاب میں ن لیگ ابھی بھی مضبوط پوزیشن رکھتی ہے۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ مریم صفدر اگر کوئی تحریک چلاتی ہیں تو اپنے سپورٹرز اور کارکنوں کو لے کر اس تحریک میں کس قدر روح پھونک سکیں گی؟۔ دوسری جانب آصف علی زرداری ، فریال تالپور سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر راہ نما بھی پکڑ میں ہیں۔ اور ان کو سزا ہونا بھی یقینی طے پا چکا ہے، لیکن ان کے پیچھے ان کا فرزند بلاول بھٹو زرداری پارٹی کو سنبھالنے کیلئے تیار ہے ۔ اس کے علاوہ نوجوانوں میں وہ کافی حد تک مقبولیت حاصل کر چکا ہے ۔ لیکن اگر ہم حالیہ ضمنی انتخابات کا مبہم سا جائزہ لیں تو لیاری والوں نے بلاول بھٹو کو قبول نہیں کیا تھا ، اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کہا تھا کہ جس دن پیپلز پارٹی لیاری سے ہارے گی سمجھو پیپلز پارٹی ختم ہو گئی۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی دانش مندی پر اعتماد کر لیں تو اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ زرداری کے پکڑے جانے کے بعد کوئی حل چل متوقع نہیں ہے اور نہ ہی بلاول بھٹو ا س طرح کی سیاست پر یقین کریں گے ۔ اور اگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دعوے کو محض ایک سیاسی بیان سمجھا جائے تو بلاول ایسی حماقت ضرور کرے گا ۔ اس طرح بلاول کی سیاست مریم نواز کی طرح کوئی قابل تعریف نہیں رہ جائے گی اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر بصیرت رکھنے والے طبقے کی توجہ بھی ان سے ہٹ جائے گی۔عمران خان یقیناََ اطمینان میں ہوں گے کہ ان کے دو بڑے سیاسی حریف سخت مشکلات میں ہیں مگر وہ یہ ہرگز نہ بھولیں کہ اگر ان کی حکومت کی یہی کارکردگی رہی جس پر بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں تو یقیناًان کی حکومت غیر مستحکم ہو سکتی ہے ۔اور ملک مڈٹرم الیکشن کی جانب بڑھ سکتا ہے۔عمران خان بھی اس کا عندیہ دے چکے ہیں ، ہو سکتا ہے کہ عمران خان ملک میں صدارتی نظام چاہتے ہوں کیوں کہ وہ اس نظام سے منتخب ہونے سے پہلے بھی بغاوت کا اظہار اپنے کئی بیانوں میں کر چکے ہیں۔لیکن نظام کوئی بھی ہو، ہمیں پاکستان کی سالمیت ، استحکام ، ترقی و خوشحالی سے غرض ہے ۔ کرپشن کے خلاف اعلان جنگ اور احتساب کا عمل معاشرے میں امید ہے کہ مثبت تبدیلی لائے گا لیکن ساتھ ساتھ عدم برداشت کو بھی کافی حد تک فروغ ملا ہے جسے ختم کرنے کیلئے بنیادی سہولیات کی فراہمی از حد ضروری ہو چکی ہے۔