تحریر۔۔۔ خالدہ سحر ایڈووکیٹ
بارہ فروری کا تاریخی دن پاکستانی عورتوں کے لیے عزمِ عالیہ کی سی حیثیت رکھتا ہے عام طور پر ہماری عورتیں اس دن کی اہمیت سے ناواقف ہیں جبکہ اس کے پیچھے کی تاریخ اک حوصلہ ہے عورتوں کا رقم کیا ہوا جرأت کا باب ہے اک داستان جس نے عورت کے وجود کو اک نئی جستجو دی اک نئی راہ کی اور گامزن کیا 1983ء یہ وہ سال ہے جب شریعت کے نام پر عورتوں کے لیے ظلم کا نیا باب رقم کیا گیا تھا ۔ جب اسے جبرن پردے کا پابند بنانے کی کوشش کی گئی گھر سے باہر پردہ کیے بغیر نہیں نکلنے کے احکام جاری کیے گئے تعلیمی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں نصاب میں امتیاز ہم نصابی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی عورتوں کا کھیلوں میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا کوڑوں کی سزائیں جاری کی گئیں زنا باالجبر جیسی زیادتی پر عورتوں سے چار گواہان کی طلبی لازمی قرار دی گئی پسند کی شادی کو غلط قرار دے دیا گیا اور یہ سبھی احکامات فقط عورت پر لاگو ہوتے تھے جن سے براہ راست عورت ہی متاثر ہو رہی تھی اس کی نجی اور پروفیشنل زندگی اجیرن ہو چکی تھی انھی دنوں ایک عورت نے اپنی پسند کی شادی کی تو اسے 100کوڑوں کی سزا سنائی گئی جس پر باشعور عورتوں نے احتجاج کیا کہ یہ غلط ہے تو ان عورتوں کی آواز کو بھی دبانے کی کوشش کی گئی مگر حق اور ناحق کی جنگ میں جیت دیر سے ہی سہی پر ہوتی حق کی ہی ہے ۔اسی حق کی راہ پر چلتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر اور پھر کوڑوں جیسی سزا کو کچھ باشعور عورتوں نے عدالت میں چیلنج کیا انھی دنوں ایک واقعہ جس نے اس جدوجہد کو باقاعدہ طور پر انقلاب کی صورت دے دی جب ایک نابینا عورت سے زنا باالجبر کے کیس میں چار گواہوں کو پیش کرنے کے لیے کہا گیا جسے یہ تک معلوم نہ تھا کہ اس کے گنہگار کون ہیں کہ وہ نابینا تھی تو وہ چار گواہ کہاں سے لاتی؟؟ مگر ظلم بربریت اور ناانصافی کی انتہا ہوگئی جب اس عورت کی طرف سے خود کی صفائی پیش نہ کرنے پر اسے حدود آرڈیننس کے تحت سزا سنائی گئی جس کے بعد ہر احساس مند باشعور عورت کی آنکھ نم ہوگئی تھی اس زیادتی اور روح دہلادینے والے بے انصافی کو دیکھ کر ہر عورت خود کواک خوف کے دائرے میں محسوس کرنے لگی تھی ہر طرف عدم تحفظ کی فضا چھانے لگی تھی اس ماحول میں عورتوں کا دم گھٹنے لگا تھا وہ خود کو کسی زندان میں قید محسوس کرنے لگیں تھیں ہر شہر، گلی، رستہ حتٰی کہ اسے اپنا گھر بھی انہیں اک بن دکھائی دینے لگا تھا جہاں خونخوار جانور اسے کھا جانے اور اس کے وجود کو مٹانے پر تل گئے تھے ظالموں کے اور وحشیوں کے حوصلے بلند تر ہوتے چلے گئے ایسی بے انصافی کے بعد کون عورت اپنے ساتھ پیش آنے والی زیادتیوں کے خلاف عدالت کا رخ کرتی؟؟ کون خود کو اور کیسے بے گناہ ثابت کرتی؟؟ کیسے یقین دلاتی کہ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی جبرن ہوئی ہے وہ مظلوم ہے اس کے ساتھ انصاف کیا جائے اس کے گنہگار کو سخت سے سخت سزا دی جائے ایسے ماحول میں ظاہر ہے کوئی عورت بھی نہیں جاتی انصاف نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور اس وقت عورتوں پر ایک کے بعد دوسرا جبر دوسرے کے بعد تیسرا جبر ہوتا رہا اور باالآخر وہ ناانصافیاں دیکھ دیکھ کر ہر طرح کا جبر سہہ سہہ کر تھک گئی اس کی ہمت جواب دے گئی اس کے اندر بغاوت ابھرنے لگی بغاوت ان مسخ شدہ رسم و رواج کے خلاف جو فقط اس کے لیے بنائے گئے تھے جو اس کے دامن کو جلانے کے لیے تھے جس میں ہر طرح کی برائی کا ذمیدار اسی کو ٹھرایا جا رہا تھا جس میں وہ انسان نہیں فقط اک جسم کے طور پر پیش کی جانے لگی تھی پس اس نے ٹھان لیا تھا کہ اب بس بہت ہو چکا۔۔۔وہ گھر سے نکلی اور ایسی نکلی کہ تاریخ کے صفحے انقلاب سے بھرتے چلے گئے وہ دن تاریخ کا ایسا دن تھا جسے یاد کرکے ایک طرف تو ان عورتوں کو سلام پیش کر کے خراج تحسین پیش کرنے کو من کرتا ہے تو دوسری اور چشم پرنم بھی ہوجاتی ہے 12 فروری 1983 ء کا وہ دن جب 100 یا 200 کے لگ بھگ عورتیں جو مختلف شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والی تھیں اور کچھ سوشل ایکٹیوسٹ اس وقت کے اقتدار اور آمریت کے خلاف سراپا احتجاج بن کر باہر نکلی تھیں جس کے نتیجے میں ان پر بد ترین لاٹھی چارج کی گئی آنسوں گیس کا بے دریغ استعمال کیا گیا ان عورتوں پر تشدد کرکے انہیں کھینچ کر لے جایا گیا اور انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیاتھا ان عورتوں کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک پر امن ریلی کی صورت میں لاہور کے مال روڈ سے ہوتے ہوئے کورٹ کی جانب رواں تھیں جو قانونِ شہادت اور حدود آرڈیننس کے خلاف درخواست جمع کروانے جا رہی تھیں جس کی انہیں اتنی بھیانک سزا دی گئی لاہور کی تاریخ اس دن کے آنکھوں دیکھے احوال کی گواہ ہے وہ دن جو اک جدوجہد کے سرخرو ہونے کا دن ہے وہ دن جس نے پاکستانی عورت کے حوصلے اور ہمت کی اک نئیں تاریخ رقم کردی وہ دن جو آج کی عورت کا حوصلہ ہے جو اس کے عزم کو بلند کرتا ہے جو اسے اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے کو کہتا ہے وہ دن جو اسے خاموشی کو توڑنے کے لیے کہتا ہے جو اسے یاد دلاتا ہے کہ وہ بھی اک انسان ہے اور وہ کوئی زباں بریدہ کوئی جانور نہیں ایذا رسانی پر اسے بھی تکلیف ہوتی ہے اذیت محسوس ہوتی ہے اس کی بھی آنکھ نم ہوتی ہے اسے بھی درد ہوتا ہے وہ دن جو آج بھی ان عورتوں کو سلام پیش کرتا ہے اور آگے چلتے اس دن یعنی 12 فروری کو پاکستانی عورتوں کا قومی دن قرار دیا گیا تھا جسے پاکستانی عورتیں بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہوئے ان عورتوں کے حوصلوں کو سراہتی ہیں اس دن کی تاریخ کے ورق پلٹتی ہیں ۔۔۔۔ جس میں اس دن کی نم دیدہ روداد کا نقشہ کھنچا ہوا ہے ۔