تحریر۔۔۔ ڈاکٹر عظمی فیاض
ان روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں بوربور
آٹا نہیں کہ چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور
اس دور کے علاوہ ہر دور کی ایک تلخ حقیقت روٹی ہے دنیا کی ہر شے کی ضرورت روٹی ہے روٹی ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے باباآدم علیہ السلام کو اتنی سخت مشکلات سے گزرنا پڑاآج بھی اسی کی وجہ سے ہم سب ایک دوسرے کے دشمن بھی اسی روٹی کی وجہ سے ہیں روٹی ایک ایسی چیز ہے جو امیر اور غریب کی بنیادی ضرورت ہے دنیا کی چاہے جتنی چیزیں بھی کھا لیں لیکن روٹی کے بغیر زندگی ادھوری لگتی ہے میڈیکل ریسرچ کے مطابق روٹی یعنی آٹا غزائیت سے بھرپور ہوتا ہے اسی وجہ سے روٹی ایک مکمل غذا ہے جب روٹی پیٹ میں داخل ہوتی ہے تو ہمارے بدن میں ایک حرکت ظاہر ہوتی ہے یعنی ہمارے چودہ تبق روشن ہو جاتے ہیں لوگ دنیا میں امیر بننے کے خواب دیکھتے ہیں اور اس کے لئے ہر وہ کام کرتے ہیں جو جائز یا ناجائز کے زمرے میں آتا ہے اتنی دولت ہونے کے باوجود بھی وہ بھی روٹی ہی کھاتے ہیں جو ایک غریب مزدور کھاتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں کے انداز مختلف ہیں ایک بھوک مٹانے کے لئے کھاتا ہے جبکہ امیر پیٹ بھرنے کے لئے کھاتا ہے یعنی دونوں صورتوں میں پیٹ کی آگ بجھائی جاتی ہے آجکل پر انے زمانے کی طرح روٹی کو حاصل کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے مغلوں کے دور میں بھی جب انگریزوں نے سارے راستے بند کر دئیے تب بھی روٹی کی وجہ سے مسائل تھے لیکن آج ایک آزاد ریاست ہونے کے باوجود بھی روٹی کے مسائل سے ہم دوچار ہیں
جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے
اس روٹی کے حصول کے لئے لوگوں نے کئی کئی روپ دھارے ہوئے ہیں ایک کنجری بھی رقص کرکے لوگوں کے دل بہلاتی ہے تو اس کا مقصد بھی روٹی ہے جبکہ لوگ اس کے رقص سے لطف اندوز ہوتے ہیں اسی طرح کوئی کارپینٹر ہے اور کوئی ڈاکٹر لیکن سب کا مقصد روٹی ہے ہم سب ایک ہی چیز کے پیچھے تڑپ رہے ہیں کوئی اس کے حصول کے لئے چولہے کی آگ کی مانند گرمی میں کھتیوں میں کام کرتا ہے اورکوئی ایئرکنڈیشنر گاڑیوں میں کھومتاہے کوئی روٹی کے ایک نوالے کے لئے ترستاہے اور کوئی ہوٹلوںمیںکئی روٹیاں ضائع کردیتاہے طلب سب کی ایک ہے لیکن رس زمانے کے اعتبارسے تبدیل ہوجاتی ہے اسی روٹی کے حصول کے لئے کوئی ڈاکو بن جاتا ہے اور کوئی ڈاکٹر بھی ۔ایک روٹی حاصل کرنے کے لئے مارنے پر تیار ہوجاتاہے اور دوسراا سی روٹی کوحاصل کر نے کے لئے لوگوں کی جان بچاتا ہے روٹی کو حاصل کر نے کے لئے لوگوں نے مختلف قسم کے روپ اپنائے ہوتے ہے انسان کی بنیادی ضروریات زندگی کی مین چیزیں ہیں روٹی کپڑے مکان اگریہ تینوں چیزیں انسان کومیسر آجائیں تو کو ئی غریب نہیں رہے گا ہمارے پیارے مذہب کی رو سے بھی ہر انسا ن کا فرض ہے کہ وہ اپنے ساتھ دوسرے انسانوںکا بھی خیال رکھے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد پر تو جہ دے تاکہ خدا وند کی نظر میں اس کا مقام اعلیٰ ہو لیکن ہم حقوق العباد کی پر واہ نہیں کرتے اور حقوق اللہ کے پیچھے دوڑتے ہیں خدا وند کریم کا ارشاد ہے کہ میں اس شخص سے پیار کرتا ہوں جو میرے بندوں سے پیار کرتا ہے اس لئے ہمیں اپنے ساتھ رہنے والوں کا خیال رکھنا چاہیے اگر کوئی ایک بھوکے انسان کو کھانا کھلاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں ایک گھر مل جاتا ہے مگر افسوس ہمیں جنت کے گھر کی پرواہ نہیں ہے ہم تو اس دنیا میں اونچے گھر بنانے میں مشغول عمل ہیں اور وہ بھی غریبوں کی خون پسینے کی کمائی سے ۔ خدا کے واسطے اپنے اندر سے یہ زیادہ کھانے کے لالچ میں ایسے کام نہ کریں جو خدا وند کریم کے بندوں کے لئے بے سکونی کا باعث بنتے ہیں اپنے اعمال سے دوسروں کو فائدہ پہنچائیں تو زندگی آسان ہو جائے گی اور خدا وند کریم کی نظر میں بھی ایک درد مند انسان کی شکل میں سامنے آئیں کوشش کریں کہ غریبوں کی مدد کریں اور ان کے حصول رزق میں ان کی مدد کریں جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکیں اور اپنے آپ کو سکون دے سکیں آج کا انسان اتنا خطرناک انسان ہے جو آخرت کو بھول گیا ہے اور بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا ہے احساس نام کی کوئی چیز نہیں ہے بس ہمیں اپنی ذات کو تابندہ ستارہ بنانے کی فکر لاحق ہے اور ایسے کام کر جاتے ہیں جو ہماری سوچ سے بھی بلاتر ہوتے ہیں ہم اپنوں کونیچا دیکھانے کے لئے ہر وہ کام کرجاتے ہیں جو ہماری ذات کی عکاسی نہیں کرتے مگر ہم پھر بھی کر جاتے ہیںبس اتنا خیال کریں کہ یہ دنیا فانی ہے اور گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔