تاریخ کے پنے پر

Published on July 19, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 455)      1 Comment

تحریر :نزیہ نزی
انسان اپنے اندر کی بات کہنے کے لیے ہمیشہ سے لکھنے کا سہارا لیتا رہا ہے۔اور حیرت کی بات ہے کہ جب لکھاری صفحہ قرطاس پر اپنے دل کا بیان منتقل کرتا ہے۔تو یقین مانیے کہ اس کوایسا قلبی اطمینان ملتا ہے کہ جیسے سارا بوجھ اور تناﺅ اس کے ذہن سے ہٹ گیا ہو۔ذریعہ اظہار کے مختلف طریقے ہر دور میں رائج رہے ،کبھی مصوری کے ذریعے کبھی مجسمہ سازی کے ذریعے کبھی سنگ تراشی کے ذریعے ، یعنی انسان ہر حال میں اپنے احساسات کوبیان کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
ہماری تاریخ ادب کے حوالے سے بہت زرخیز ہے۔یہ ہماری بہت بڑی خوش نصیبی ہے ، کہ ہمیں اتنے اچھے لکھنے والے میسر ہیں۔میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہم ان کو پڑھ لیں تو آدھے لکھاری تو بن ہی جائیں گے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جتنا اچھا اور معیاری ، پرانے ادوار میں لکھا گیا ہے۔موجودہ دور میں تحریر میں ویسا انداز بیاں ، ویسی چاشنی ، ویسا سبق ، ویسا رعب اور دبدبہ ملنا مشکل ہے۔ ہم جب دینی کتب پڑھتے ہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی مصنف رعب دبدبے والی شخصیت ہے۔اور میں اکثر سوچتی ہوں کہ اتنی فصاحت اور بلاغت ان لوگوں میں کیسے در آئی ہے ؟ اور ان کی لکھنے کی صلاحیت کا لیول جانے کون سے درجے کا تھا کہ اگر اس کو احاطہ تحریر میں لایا جائے تو لفظ کم پڑ جائیں۔جہاں درشت لہجہ ہے وہاں اس لہجے کی درشتی صاف محسوس ہوتی ہے۔ جہاں متانت ہے تو وہ بھی صاف محسوس ہوتی ہے ، جہاں دھیما پن ہے تو وہ بھی الگ سے محسوس ہوتا ہے ، یہ پختگی کے انتہائی درجے اللہ کی ودیعت کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان ہی لفظوں کے سحر میں انسان ڈوب جاتا ہے اور حیرانی کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے ۔
آج کل میں سیرت مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جلد سوم پڑ ھ رہی ہوں جو حضرت العلامہ مولانا محمد ادریس صاحب کاندھوی رح کی ہے میری عقل ان کی شان کتابت و خطابت اور ان کی ریاضت پر حیران ہے۔آج کل کے لکھاریوں کو اگراپنی تحریروں میں پختگی لانی ہے تو وہ ان کتب کا مطالعہ ضرور کریں جو سہل ہونے کے باوجود پختگی اور روانی سے لبریز ہیں۔یہ کتب لفظوں کی بناوٹ اور رعنائی خیال نکھارنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ کتابیں ہی ہیں کہ جن سے ہماری علمی استطاعت پنپتی ہے۔
توبتہ النصوح یا ڈپٹی نذیر احمد کو ہی اگر پڑھ لیا جائے تو انسان پر عجیب اصرار منکشف ہوتے ہیں۔ ”پلاٹ“ کا خیال رکھا گیا ہے۔ انھوں نے ”کردار نگاری“ کا خوبصورت انداز پیش کیا ہے۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ”خاکہ نگاری“ ان کے ہاں نمو پاتی ہے۔اور پھر ”اسم بامسمی“ ہونا ایک الگ نمایاں خصوصیت ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ اس کتاب کانام ”توبتہ النصوح“ ہونے کے ساتھ ” اسم بامسمی“ ہے ، اسی طرح تمام کردار بھی ” اسم بامسمی“ ہیں۔جو لکھاری کے اسلوب کو انفرادیت بخشتے ہیں۔

میں جب کسی محقق ، کسی مجدد ، کسی بڑے مترجم ، م?لف ، یا مفسر کی کتاب پڑھتی ہوں تو میری عقل اپنی عقل کی کم یابی پر ماتم کرتی رہتی ہے۔کتنی وسعت تھی پہلے کے مصنفین کے انداز بیاں میں۔اور تو اور م?رخین کی کتب پڑھی جائیں تو انسان ورطہئ حیرت میں ڈوب جائے کہ کیا کچھ ہے ان کی تحاریر میں کہ انسان کو نہ چاہتے ہوئے بھی کتاب کی چاٹ پڑ جاتی ہے۔
اور مزے کی بات بتا?ں تجربے سے ایک بات اور بھی سامنے آئی ہے کہ جہاں آپ ان کتب کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں تو وہاں مختلف کتب کے مطالعے کرنے سے آپ پر انکشاف ہوتا ہے کہ کچھ ایسے لکھاری بھی ہیں کہ جن کو پڑھ کر لگتا ہے کہ انکے پاس بہت علم ہے ،تجربہ بھی ہے ، مگر ان کا انداز تحریر زیادہ علم ہونے کے باوجود واضح نہیں ہو پاتا۔ اور جو انھوں نے اصلاح اور رہنمائی کی غرض سے پیش کیا ہوتا ہے ،تو وہ کسی جزیرے کا ٹکڑا محسوس ہوتا ہے۔ اب قطرہ سمندر کے اندر حل پزیر ہو جائے توتب ہی وہ سمندر کہلائے گا نا۔ میں سمجھتی ہوں ، جو بات بتانی ہو اس کو ایسا کہا جائے کہ وہ قاری کو باآسانی سمجھ بھی آ جائے ، یا پھر کم از کم ایسا ضرور لگے کہ جس نے لکھی ہے وہ خود سمجھ کے لکھ رہا ہے ورنہ لکھاری کا الجھا? اس کے لکھنے میں بھی ظاہر ہوگا۔ ہم ہر طرح کے مطالعے سے فیض یاب ہو سکتے ہیں اگر ہمیں مطالعے کی عادت ہے تو۔ ہر تحریر کا کچھ نہ کچھ مثبت اثر ضرور ہوتا ہے۔ تبھی تو عرصہ دراز سے لوگوں کا کتاب سے ناطہ جڑا ہوا ہے۔
??

Readers Comments (1)
  1. نجم says:
    ماشاءاللہ بھترين




WordPress Blog

WordPress主题