غلام مرتضیٰ باجوہ
دنیا بھر میں بسنے والے تمام مذاہب کی بنیاد انسانیت کے درس سے شروع ہوتی ہے اور سینکڑوں ادارے انسانیت کی بھلائی کے لئے اپنی اپنی بساط کے مطابق کرداراداکررہے ہیں اسی طرح ان تمام اداروں کو تمام ممالک میں ٹیکس اور دیگر حکومتی چارجز سے استثنیٰ حاصل ہوتی ہے اگر ہم بات کر یں ان اداروں کی تو ان میں مختلف قسم کے ادارے آپ کو ملیں گے کچھ بھوک اور افلاس کو مٹانے کے لئے کوشاں ہیں چندنے نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔
سینکڑوں اقسام کے تعلیمی ادارے، سرکاری غیر سرکاری، انگلش میڈیم، اردو میڈیم، مشنری سکولز، کالج، کمیونٹی سکولز اور کالجز، دینی مدارس، کیڈٹ سکولز اور کالجز موجود ہیں۔ جب ہم نظام تعلیم کے موجودہ ڈھانچے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ بات واضح طور پر موجود ہونی چاہئے کہ یہ ڈھانچہ استعماری دور حکومت میں لارڈ میکالے کی تیار کردہ تعلیمی پالیسی کی بنیادوں پر استوار کیا گیا تھا۔ اس کے بنیادی مقاصد یہ تھے کہ انتظامی مشینری کیلئے کلرکوں سے لے کر آئی سی ایس (موجودہ سی ایس ایس) افسروں تک تاج برطانیہ کے وفادار اور سستے ملازمین کی کھیپ تیار کرنا۔ مغربی تہذیب اور افکار و نظریات کا غلبہ بپا کرنا۔ معاشرتی زندگی کا مربوط ڈھانچہ توڑ کر اس کی متحدہ قوت کو پارہ پارہ کرنا۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے تعلیمی نظام کا پورا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دینی مدارس مخصوص حالات میں ایک خاص مقصد کیلئے معرض وجود میں آئے۔ اسے سمجھنے کیلئے تاریخی پس منظر کو جاننا بہت ضروری ہے۔ برصغیر کی تاریخ کا یہ افسوسناک باب ہے کہ1857کے انقلاب کی ناکامی کے بعد جب انگریزوں کا تسلط قائم ہوگیا تو علماء کی ایک بڑی تعداد کو حکومت وقت نے قتل کر دیا، بعض کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور جو بچ گئے انہیں گرفتار کرکے کالا پانی مالٹا اور جزیرہ انڈمان بھیج دیا گیا۔ دہلی اور آس پاس کے معزز خاندان تباہ ہو گئے۔
بات کی جائے موجودہ صورتحال کی تو اگر ضروریات زندگی کا جائزہ لیا جائے توان میں سب سے زیادہ اہمیت کی حاصل تعلیم ہے اور دنیا بھر کی طرح وطن عزیز میں بھی تعلیم ایک بہترین کاروبار ہے جبکہ اس شعبہ میں بھی بہت سے ادارے اپنا کرداراداکررہے ہیں اور بچوں کی مفت تعلیم کے لئے مخیر حضرات سے معاشی قوت اکٹھی کرکے غریب اور ناداربچوں کا مستقبل روشن کرنے کے لئے اپنے حصہ کادیا جلارہے ہیں یہاں میں آپ کی توجہ ایک ایسے ادارے کی جانب کروانا ضروری جانتے ہوئے بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا بھر کی طرح ملک پاکستان میں مسیحی اقلیت سے تعلق رکھنے والے مشنری ادارے جن کی بنیاد بھی مخیر حضرات کی جانب سے رکھی گئی اور ان کے سربراہان بھی ایسے لوگوں کو مقررکیاگیا جن کا دنیاداری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ان اداروں کے قیام کا مقصد مخص غریب مسیحی بچوں کے لئے بہتر اور مفت تعلیم فراہم کرنا تھا لیکن یہاں ایک بات افسوس کے ساتھ آپ کے ساتھ گوش گزار کررتا چلوں تاکہ میری تحریر کی وجہ قارئین کو باآسانی سمجھ میں آسکے۔
چند سال قبل میری ملاقات ایک خوددارمسیحی بھائی سے ہوئی جو کہ راولپنڈی کا کرایہ دار رہائشی ہے اور پیشہ کے اعتبارہے ٹیکسی ڈرائیورہے اس کا نام یہاں لکھنا ضروری سمجھتا ہوں تو جناب لوگ اسے آصف برنارڈ کے نام سے جانتے ہیں سوشل میڈ یا پر انہوں نے ایک فیس بک پیج بنارکھا ہے جو کہ پیرنٹس ویلفیئر ایجوکیشن سوسائٹی کے نام سے ہے اس سماجی رابطے کے صفحہ کو دیکھنے کے بعد جب میں نے آصف برنارڈ سے رابطہ کیا اور اس پرکی گئی پوسٹوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ملنے کی خواہش کی تو وہ جلد راضی ہوگیا اور اگلے ہی روز ملنے کا وعدہ کردیا اس شخص نے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنے صحافتی اندازمیں سوال کیا کہ آپ اتنی سخت باتیں اپنے مذہبی رہنماؤں کے بارے میں کیوں لکھتے ہیں تو اس شخص نے بارعب انداز میں کہا کہ سزااور جزامالک قدرت کے ہاتھ میں ہے میں اپنے بچوں کے لئے رزق کمانے کے لئے محنت کرتاہوں اور کسی مذہبی رہنما ء کے عیبوں پرپردہ ڈالناگناہ کبیرہ سمجھتاہوں جب میں ن ے بڑھتے ہوئے تجسس کے ساتھ مشنری سکولوں کے بارے میں سوال کیا تواس نے جواب دیا کہ ہمارے آباد اجدادنے ان اداروں کی بنیاد غریب عوام کی فلاح وبہبود کی خاطر رکھی اور دنیا سے لاتعلق مذہبی رہنماؤں کو سربراہ مقررکیا تاکہ غریب بچے بھی علم کے نور سے مستقبل کو روشن کرسکیں لیکن پچھلے کئی سالوں سے گنگا الٹی بہہ رہی ہے مشنری سکولوں میں غریب مسیحی کا بچہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتا جب وہ فیس لیکر نہیں جاتا تو اسے کلاس میں کھڑاکرکے غریب اور بے بس ہونے کا احساس دلایا جاتاہے اگر پھر بھی بچہ فیس جمع نہ کرواسکے تو اسے کلاس روم سے نکال دیا جاتا ہے یہی نہیں اگر بچے کے ماں باپ جاکر التجا کریں تو بد تمیزی کی جاتی ہے بعدازاں آخر حربہ استعمال کرتے ہوئے بچے کوسالانہ امتحانات میں بیٹھے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے جس سے بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور بے راہ روی کا شکارہوجاتے ہیں جب اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آصف برنارڈ کی آنکھیں نم ہوئیں تو میں نے دلاسہ دینے کی کوشش کی لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی ایک کسکپائی آوازمیں اس نے کہا کہ علم کے حصول سے محروم ہونے کی وجہ میری قوم کے بچوں کے ہاتھ میں صرف جھاڑودیا جاتاہے میں نے اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کی غرض سے پوچھا کے بتائیں میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں تو اس نے دوبارہ مضبوط آواز میں جواب دیا کہ اگر آپ میری مددکرنا چاہئے ہیں تو اس طرح کے بے حس اداروں کی انتظامیہ کے خلاف میری آواز بلند کریں کیوں کہ جہاں پر بھی مذہب کے نام پر لوٹ مار کی جائے گی میں کے خلاف محاذ میں آپ کو اگلی صفحوں میں ملوں گا۔
بات یہاں پر ختم نہیں ہوجاتی نہ جاننے کتنے آصف برنارڈ اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والے خیراتی اداروں کی جانب سے ظلم کا دکھ لئے زندگی بسر کررہے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ انصاف کے نعرے پر قائم ہونے والی تحریک انصاف کی یہ حکومت ایسے تعلیمی ادارے جو کہ خودکو فلاحی ادارے ظاہر کرکے لاکھوں روپے ٹیکس کی مدمیں بچارہے ہیں ان کی جانب بھی احتساب کی چھلنی کو چلاکر نیک عمل شروع کیا جائے تاکہ غریب اور نادارلوگوں کے نام پر عوام اور حکومت کو چونا لگانے والوں کی دوکانداری بند کی جائے اور آصف برنارڈ جیسے لوگوں کی دادرسی ہوسکے