دیہاتوں سے شہروں تک کا سفر

Published on October 16, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 221)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
یوں تو دنیاکے بیشترممالک بے شمار مسائل کا شکار ہیں لیکن بے روز گاری کی بڑھتی ہوئی شرح ، کرپشن ، آبادی میں روز بروز اضافہ ، نا خواندگی ، سیاسی کشمکش ، تخریب کاری و دہشت گردی اور بیرونی قرضوں کے بے تحاشا بوجھ ایسے مسائل ہیں جو ان ممالک کی جمہوری حکومتوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں ۔ بے روزگاری اصل میں وسائل کی کمی اور ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے صنعتوں کی تنصیب کے وقت سائٹ سلیکشن خام مال کی فراہمی اور لیبر و ٹرانسپورٹیشن جیسے اہم عوامل کا خیال نہیں رکھا جاتا بعض اوقات سیاسی مصلحتوں کے تحت ایسے علاقوں میں بھی صنعتیں لگائی جاتی ہیں جہاں خام مال کی کوئی پیداوار نہیں ہوتی دوسرا یہ کہ بعض اوقات سلیکشن کرنے والی اتھارٹی کے چکر میں غلظ جگہ کا انتخاب کرپاتی ہیں جس کے سبب یہ صنعتیں آخر کار دم توڑ جاتی ہیں اور پھر ان کو اونے پونے بھاﺅ فروخت کر دیا جاتا ہے ۔ فروخت کرتے وقت بھی متعلقہ اتھارٹی اپنی جیب گرم کر لیتی ہے اس سے نہ صرف ملکی سرمایہ ضائع ہوتا ہے بلکہ بے روزگاری بھی پیدا ہوتی ہے ۔ آبادی میں روزبروز اضافہ بھی حقیقتاً غلط منصوبہ بندیوں کا ہی نتیجہ ہے یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ آبادی میں اضافہ وسائل میں کمی اور مسائل میں اضافہ کا موجب بنتا ہے ۔ آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کرنے کے لئے تیسری دنےا کے بیشتر ممالک نے یورپ سے فیملی پلاننگ پروگرام در آمد کیا لیکن اس پروگرام سے اصل مقاصد حاصل ہونے کی بجائے فحاشی میں اضافہ ہوا اس کی اصل وجہ افراد کی برھتی ہوئی ناخواندگی کی شرح ہے ناخواندگی کے باعث لوگ فیملی پلاننگ کی افادیت و اہمیت سے آگاہی نہ کرپائے اور نہ ہی آبادی میں اضافے کے نقصانات و خطرات کو محسوس کر سکے جس کی وجہ سے یہ پروگرام ناکارہ ہو کر رہ گیا اگر تیسری دنیا کے ممالک کے افراد کو یہ حقیقت معلوم ہوجاتی کہ شرح پیدائش میں اضافے کے سبب ان کے مسائل اس قدر بڑھ جائیں گے کہ سانس لینا بھی دشوار ہ گا اور کئی کئی روز فاقہ کشی تک نوبت ہوگی تو یہ لوگ رضاکارانہ طور پر اس پروگرام پر عمل درآمد کرتے اور آج تیسری دنیا کے ممالک کی حالت قدرے بہتر ہوتی ۔ بہر حال ابھی وقت ہے کہ ایسے پروگرام اور منصوبوں پر عمل درآمد کریں اور کرائیں اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کے میڈیا کو ماضی کی نسبت زیادہ اور بہتر طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی ۔ تیسرا بڑا مسئلہ جو اس وقت تیسری دنیا کے ممالک کو در پیش ہے وہ ہے افراد کی دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی اور جس میں دن بہ دن تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اس مسئلے سے نہ صرف تیسری دنیا کے ممالک ہی دو چار ہیں بلکہ بعض ترقی یافتہ ممالک بھی دو چارہیں ان ممالک کا المیہ ہے جہاں کھیتی باڑی کے لئے رقبہ کم ہے یا پھر جدید زرعی آلات نے دیہی مزدوروں کو بے روزگار کر کے رکھ دیا ہے ۔ یہ طبقہ چونکہ عموماً نا خواندہ ہوتا ہے اس لئے روزگار کی خاطر شہروں کا رُخ کرتا ہے جس سے نہ صرف جگہ تنگ ہوتی ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی اور مہنگائی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں ۔ جس رفتار سے یہ عمل جاری و ساری ہے اگر اس کو روکنے کے لئے کوئی مربوط پروگرام وضع نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ اگلے چند عشروں میں شہروں میں رہنے والوں کے لئے سانس لینا دو بھرہوجائے ۔ اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق اس وقت دنیا کی چالیس فیصد آبادی جو تقریباً چھ ارب دس کروڑ افراد پر مشتمل ہے شہروں میں آباد ہے اور ان کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے ان کی خوراک ، صحت ، رہائش ، تعلیم ، گندے پانی کا نکاس ، سڑکوں کی تعمیر ذرائع آمدورفت کے علاوہ دوسرے لا تعداد مسائل ہیں جن کے حل کے کے لئے حکو متیں منصوبہ بندی میں مصروف ہیں ۔ علاوہ ازیں سب سے بڑا مسئلہ جو اس وقت خاص کر تیسری دنیا کے غریب ترین ممالک کو در پیش ہے ۔ یہ وہ ہیں جو غیر ملکی قرضوں کا بے تحاشا بوجھ جس سے نجات حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے بد نصیبی یہ کہ اگر ان کے پاس قدرتی وسائل موجود بھی ہوں تو ان کو حاصل کرنے ، ان کو کام میں لانے کے لئے ان کے پاس فنی مہارت موجود نہیں ہے دوسری بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ان ممالک کو قرضے فراہم کرتے وقت ایسی کڑی شرائط لگاتے ہیں کہ اصل رقم تو بڑی دور کی بات سود کی شرح کی ادائیگی بھی بعض اوقات نا ممکن ہوجاتی ہے یورپ کے بعض ممالک نے تیسری دنیا کے مظلوم ممالک کو رہن بنا کر رکھ دیا ہے وہ قرضوں کے اس چکر میں اس قدر جکڑے جاچکے ہیں کہ اقتصادی طور پر ان کے غلام بن کر رہ گئے ہیں جس سے یہ ممالک ان کی مضبوریوں سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں اور بعض اوقات سیاسی حمایت بھی حاصل کرتے ہیں جس سے ان مظلوم ممالک کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے ۔ جہا ں خود غرض حکومتیں ہیں وہاں کچھ ایسی حکومتیں بھی اس دنیا میں اب بھی موجود ہیں جو تیسری دنیا کے اس دکھ درد کا مداوا کرنے کی تڑپ رکھتی ہیں ۔ اس ضمن میں وفاقی جمہوریہ جرمنی کی حکومت پیش پیش ہے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress主题