پولیس رضاکار

Published on April 17, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 253)      No Comments

تحریر:مہرسلطان محمود
پولیس ڈیپارٹمنٹ میں افرادی قوت کی کمی کوپورا کرنے کیلئے رضاکاروں کا سہارا لیا جاتاہے پرانے زمانے میں پولیس رضاکار کی عزت بھی اتنی ہی تھی جتنی کہ ایک مستقل پولیس اہلکارکی ۔مگرآج کل کچھ اور ہی نظرآتاہے علاقائی رپورٹرز ان رضاکاروں کے لتے لیتے نظرآتے ہیں وجہ بہت ہی عام فہم ہے کہ ان سے کام ذیادہ لیا جاتاہے اور تنخواہ نہ ہونے کے برابر ہے اس لیئے باامر مجبوری پھر وہ کم نفری کے باعث جب روڈز پر پولیس ملازمین کے ہمراہ چیکنگ کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تب وہیں سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں ۔ان کے ہمراہ ڈیوٹی کرنے والے پولیس ملازمین بھی اپنا حصہ بقدر جثہ وصولی کرتے ہیں اس کے بعد چوکی یا تھانے کے منشی صاحبان بھی ان سے تھانے و چوکی کے اخراجات کی مد میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں یہ کام زبان زد عام ہے کوئی اٹامک انرجی کا فارمولہ نہیں ہے جس کا رپورٹرز یا افسران بالاکوپتہ نہ ہو ۔پھر بھی ان کی شامت آتی ہے کہ روڈز پر کھڑے ہوکر پولیس پیسے لیتی ہے کہنے والے بھی سچے ہیں اور لینے والے بھی سچے ہیں قصور وار افسران ہیں جن کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے یہ سارا سسٹم چلتارہتاہے ۔نیچے تمام تر تفصیلات بیان کی گئی ہیں آخر کیو ں افسران اس ظالمانہ سسٹم کو نہیں بدلتے ہیں کیا یہ رضاکار انسان نہیں ہیں کیا ان کے گھریلیواخراجات نہیں ہیں کیوں آخر روڈ پر کھڑے کرکے ان کو بھکاری بنادیا ہے آپ لوگوں نے ۔۔۔۔ پولیس ویلفیئر فنڈسے رضاکاروں کو تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ یہی فنڈ پولیس ملازمین کی فلاح و بہبود پر بھی خرچ کیا جاتاہے جس سے رضاکاروں کی تنخواہ کیلئے پیسے نہیں بچتے ہیں ۔مارچ 2020 سے لیکر فروری 2021 صرف تین ماہ کامعاوضہ رضاکاروں کو ادا کیا گیاہے اس معاوضے کی ادائیگی کا فارمولہ بھی بہت عجیب سا ہے 02 سو روپے روزانہ آئی جی آفس کی طرف سے طے شدہ ہے لیکن ادائیگی کے وقت تیس دن کی ڈیوٹی کرنے پر ان کو صرف 10 دن کی تنخواہ ملتی ہے اور اگر بیس روز ڈیوٹی کریں تب صرف آٹھ دن کی ۔خادم اعلیٰ کے دور حکومت میں آئی جی پنجاب کو حکم دیا گیا تھا کہ 50 روپے دیہاڑی کو بڑھاکر 200 روپے روزانہ کے حساب سے ادائیگی کی جائے جو کہ 6000 روپے ماہانہ بنتاہے لیکن آئی جی آفس نے من مانی کرتے ہوئے اوپر درج کردہ ظالمانہ فارمولا طے کرکے ان غریب رضاکاروں کا خون چوس رکھا ہے ان رضاکاروں کی ڈیوٹی شام 06 بجے سے لیکر رات 11 بجے تک گشت ہے لیکن پولیس ان کو 24 گھنٹے استعمال کرتی ہے جو کہ سراسر ذیادتی ہے دوسری جانب اسی ڈیوٹی کو کرنے کا معاوضہ پولیس اہلکاروں کاماہانہ تقریبا 60 ہزارروپے ہے ۔ان رضاکاروں کے سڑکوں پر کھڑے ہوکر ہر آتے جاتے کو روک کر کاغذات وچیکنگ کے بہانے موٹرسائیکل سواروں سمیت بڑی گاڑیوں والوں سے پچاس روپے سے لیکر جہاں تک ممکن ہوسکے وصولی کرکے ہر قسم کے سامان کو لیجانے کی اجازت کا پروانہ تھما دیتے ہیں جو ذیادہ اکڑ فوں کریں ان کو تھانے بھی منتقل کردیتے ہیں جن کے پاس کچھ نہ کچھ نکل آتاہے بعض اوقات منشیات فروش اور ناجائز اسلحے والے پکڑے بھی جاتے ہیں جن میں کچھ کو ہدیہ ملنے پر مع سفارش چھوڑ بھی دیاجاتاہے اور کچھ پر مقدمات بھی درج کردیئے جاتے ہیں یہ رضاکار کھڑے ہونے سے بعض اوقات اناڑی چور وارداتیں کرنے سے گریز کرتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ رضاکاروں کی تو مجبوری سہی ہزاروں روپے تنخواہیں لینے مستقل ملازمین کیوں پیسے وصولی کرتے ہیں عوام بھی سچی ہے وہ پولیس کو ہی موروالزام سہی ٹھہراتی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب کو فورا اس معاملے پر ایکشن لیتے ہوئے ان رضاکاروں کی مناسب مالی امداد کرنے کا مستقل طریقہ کار طے کرنا چاہیے آخر یہ بھی انسان ہیں جناب کا ڈیپارٹمنٹ ان سے فل ڈیوٹی لیتاہے مگر دیت کچھ بھی نہیں ان کی اوپر درج بالا تنخواہ بھی بروقت ادا نہیں کی جاتی ہے ظاہری سی بات ہے تنخواہ کے بلز پاس کروانے کیلئے بھی وہ جگاٹیکس دیتے ہوں گے ۔یہ انتہائی بھیانک مذاق ہے ان رضاکاروں کیساتھ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون ساافسر اس ماہ مبارک کے مہینے میں ان پر ترس کھاتاہے اور ان کیلئے قانون سازی کرتاہے مستقل ملازمین کو آئے روز حسن کارکردگی پر نقد رقم سمیت دیگر انعام دیئے جاتے ہیں ان رضاکاروں میں موجود فرض شناس اہلکاروں کو آج تک آپ نے کیا دیا ہے کیا کبھی ان کو بھی پھول دیئے ہیں کیا کبھی ان کے بچے بچیوں کی شادیوں کے موقع پر ان کے سر شفقت کا ہاتھ رکھاہے کیا کبھی بیمار ہونے کی صورت مین ان کو مالی امداد سے نوازاگیا ہے ان سارے سوالا ت کا جواب میری تحقیقات کے مطابق مکمل نفی میں ہے چونکہ جن کو تنخواہیں دینے میں اتنی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جاتاہے اتنی کم اجرت کا بھیانک مذاق کیاجارہاہے ان کیساتھ ان کے مقدر میں یہ ساری نوازشیں کہاں کچھ تو خوف خداہونا چاہیے ان کے بچوں کے زہنوں میں کیا سوچ پنپتی ہوگی ہمارا باپ حرام کماکے لاتاہے یا پھر ہم تھرڈ کلاس شہری ہیں کیونکہ عام عوام ان رضاکاروں کو اسی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ان پر فقرے کسے جاتے ہیں خدارا ان کی حالت زار پر رحم کریں یوم حساب ذیادہ دور نہیں ہے ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Premium WordPress Themes