نیم حکیم خطرہ جان نیم ملا ں خطرہ ایمان

Published on August 17, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 334)      No Comments


تحریر : محمد ریاض
یکم محرم الحرام کو بسلسلہ یوم شہادت امیر المومنین جناب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سوشل میڈیا پر درج ذیل پوسٹ کو وائرل ہوتے دیکھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ (” فرمایا اُٹھو بلالؓ! کعبہ کی چھت پہ چڑھ کے آذان دو۔یہ نہیں ہوسکتا عمرؓ اسلام لے آئے اور نمازچھپ کر ہو”)۔ تھوڑی سی تحقیق کے بعد پتا چلا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے منسوب اس عبارت کو بغیر تحقیق کئے ہی پوسٹ کیا جارہا ہے اور تمام دوست احباب اس پوسٹ کے جواب میں ماشاءاللہ، سبحان اللہ، اللہ اکبر لکھ کر اپنے اپنے کمنٹس کررہے ہیں۔ وائرل ہونے والی پوسٹ کی عبارت کو اگر غور سے پڑھا جائے تو یہ عبارت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے قبول اسلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے، جب مسلمان چھپ چھپ کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ یاد رہے نمازوں کی فرضیت واقعہ معراج کے موقع پر ہوئی جو ہجرت سے کم و بیش ڈیڑھ سال پہلے ہوا۔ اورمشرکین مکہ کی شرارتوں سے بچنے کے لئے مسلمان سرعام نماز پڑھنے کی بجائے درارقم میں پوشیدہ طور پر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ مگر ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی تو نمازیوں کو اکٹھا کرنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحاب وبارک وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے مشورہ سے آذان دینے کا حکم جاری فرمایا یعنی یہ بات تو طے شدہ ہے کہ مذہب اسلام میں نماز سے پہلے آذان دینے کا عمل مدینہ منورہ میں شروع ہوا اور جناب حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو اسلام کے پہلے موؤذن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اب آتے ہیں وائرل ہونے والی پوسٹ کے دوسرے حصہ یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا قبول اسلام کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر آذان دینے کا کہنا۔ سیدھی سی بات کہ جب مذہب اسلام میں نماز کے لئے آذان دینے کا حکم مدینہ شریف کے اندر طے پایا تو حضرت عمر ؓنے کس طرح حضرت بلال ؓ عنہ کو کعبہ کی چھت پر آذان دینے کا کہا ہوگا؟ جبکہ عمر بن خطاب ؓ کا قبول اسلام کا واقعہ ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں ہوا تھا۔ اب آتے ہیں حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے واقعہ پر: عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما“، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر ؓکی یہ حدیث حسن صحیح ہے(ترمذی حدیث نمبر 3681)۔ پہلی بات کہ حضرت عمر بن خطاب ؓکے قبولیت اسلام کا واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے، دوسری بات نماز سے پہلے آذان کا حکم نبی کریم ﷺ کی مدینہ ہجرت کرنے کے بعد کا ہے۔روایات میں یہ بات ضرور ملتی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے قبول اسلام کے فورا بعد نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو سرعام مسجد الحرام میں نماز پڑھنے کے لئے عرض کی اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ چھپ چھپ کر نماز پڑھنے والے مسلمان حضرت عمر ؓکے قبول اسلام کے بعد سرعام خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کے لئے گئے۔بہرحال سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ کے بارے میں سوفیصد یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس پوسٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یاد رہے حضرت عمر فاروق ؓ کا شمار عشرہ مبشرہ صحابہ کرام ؓ میں ہوتا ہے یعنی جنکو جنت کی بشارت بذبان رسول اللہ ﷺ سے ملی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پوسٹ کرنے والے عاشقان صحابہ جذبہ ایمانی اور جذبہ حب صحابہ کرام ؓسے لبریز ہو کرذوق در ذوق وائرل ہونے والی پوسٹ کے الفاظ کو اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر کاپی پیسٹ کرکے شئیر کررہے تھے۔مگر افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ہم بغیر تحقیق کئے کسی بھی پوسٹ کو شئیر کردیتے ہیں۔آجکل یہ افسوسناک روایت چل نکلی ہے کہ ہم میں سے بہت سے مسلما ن محبت اور عشق میں مبتلا ہوکر بغیر تحقیق کئے کسی بھی پوسٹ کو شئیر کرنا شاید ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔صحابہ کرام ؓ کی ذات مبارکہ خصوصا حضرت عمر فاروق ؓکی ذات ہم جیسے گناہ گاہوں کی من گھڑت پوسٹوں اور بیانات کی محتاج نہیں ہے۔ ان حضرات صحابہ ؓ کے کیا ہی کہنے، سبحان اللہ۔ کیونکہ جن سے اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ راضی ہوں وہ شخصیات کسی کی جھوٹی تعریفوں کی محتاج نہیں

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Theme