کتاب۔ قائد اعظم۔تقاریر و بیانات۔۷۱مارچ ۱۱۹۱تا ۶۲ نومبر ۱۳۹۱ء(۲)۔

Published on September 14, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 96)      No Comments

تحریر۔۔۔ میرافسرامان
اس سے قبل کالم میں ہم لکھ چکے ہیں کہ قائد اعظمؒ کی ساری تقاریر اور بیانات آزادی ہند،دوقومی نظریہ اور اسلام نظام حکومت سے عبارت ہیں۔ قائد اعظمؒلی کمیشن کی سفاشات میں ۲۱/ ستمبر ۴۲۹۱ء کو فرماتے ہیں ”کیااس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہم آنکھیں بند کر کے ان مراعات کے بارے اپنی رائے دے دیں“یہاں پبلک سروسز میں قائد مسلمانوں کا حق مانگھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ضابطہ فوجداری ہند(ترمیمی) مسودہ قانون ۶۱/ستمبر ۳۱۹۱ء میں فرماتے ہیں ”میں یہ کہتا ہوں کہ اگر اس ایوان نے اس قانون کی تنسیخ کے حق میں فیصلہ دینے کے علاوہ اور کچھ کیا تو یہ اپنی نیک نامی سے ہاتھ دھو لے گا“ اس جگہ قائد اعظمؒ مرکزی مجلس قانون میں بہادری سے بات کر رہے ہیں۔کل جماعتی کانفرنس کی ذیلی کمیٹی میں ۴۲/جنوری ۵۲۹۱ء میں کہا کہ”ان کا مطالبہ یہ ہے کہ بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کو ایک اقلیت میں تبدیل نہ کیا جائے“ یہاں یہ مسلمانوں کی حمایت کی بات کر رہے ہیں۔ضابطہ فوجداری بنگال(ترمیمی) ہنگامی قانون میں ۸۲/جنوری ۵۲۹۱ء میں ”یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ یہ دہشت گردی جس کی میں آپ سے کچھ کم مذمت نہیں کرتا نیست نابود ہو جائے گی“یہاں بنیادی حقوق کی بات کر رہے ہیں۔ہند میں سپریم کورٹ کی قیام کی تجویز میں ۷۱/ٖفروری ۵۲۹۱ء کہتے ہیں ”لہٰذا میں سر ہری سنگ گور کی قرارداد کی پر زرور حمایت کرتا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ منظور ہو جائے گی“اس جگہ انصاف حاصل کرنے کی بات کی۔فوجی کالج کا قیام، قرارداد کی حمایت میں ۸۱/ فروری ۵۲۹۱ء میں کہتے ہیں ”پرزرو انداز میں اور بے خوفی کے ساتھ کہوں گا کہ آپ نیک نیتی کے فقدان کے الزام سے بری کیئے جاتے ہیں“ اس جگہ ہندیوں کی فوجی تربیت کی حمایت کی۔ریلوے کو ہندیانے کے بارے میں ۵۲/فروری ۵۲۹۱ء میں فرماتے ہیں کہ”ان نکات پرجنہیں میں سمجھ سکا ہوں۔ ریلوے ممبر کو بے رحمی کے ساتھ مہمیز لگانے میں شریک ہو جاؤں“جہاں ملک کے عوام کا فاہدہ ہو اس کی حمایت کی۔ایگزیکٹو کونسل اور اصلاحات کے لیے ضابطہ زر میں ۴۱/مارچ ۵۲۹۱ء میں کہتے ہیں ”ہند کے لوگوں کو اتنا بیزار نہیں کر دیں گے کہ وہ ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائیں۔ جو آ پ اور ملک کے عوام دونوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو“اس جگہ ایکزیکٹو کونسل کو متنبہ کرتے ہیں۔ہند کے میزانیہ کا مسودہ قانون ۸۱/مارچ۵۲۹۱ء میں فرماتے ہیں کہ”آج اس حکومت کو ناممکن بنانے کی پوزیشن میں فی الوقت یہ قابل عمل تجویز نہیں“یہاں پنڈت موتی لال نہرو کی میزانیہ کو مسترد کرنے کی مخالفت کہ یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ضابطہ فوجدار بنگال میں ترمیم کا ضمنی مسودہ قانون ۳۲/ مارچ۵۲۹۱ء میں کہا”میں اس ایوان میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ آپ اس پر کف افسوس ملیں گے اور اپنے اندازے سے کہیں زیادہ فتنہ فساد برپا کر دیں گے“۔ اس جگہ مسلم بنگال کی حمایت اور حکومت کو وارنگ دے رہے ہیں۔تحقیقاتی کمیٹی برائے اصلاحات کی سفارش میں ۸ ستمبر ۵۲۹۱ء حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں ”میں آپ کو بتا دوں کہ ہند حصول آزادی کا عزم مصمم کر چکا ہے“ایگزیکٹو کونسل اور اصلاحات کا مطالبہ ۱۱/ مارچ ۶۲۹۱ء میں فرماتے ہیں کہ ”حکومت کو یہ سیکھ لینے دیجیے کہ ان حربوں سے انہیں کوئی فاہدہ نہیں ہو گا اور وہ ان حربوں کی مدد سے کامیاب نہ ہو سکیں گے”جہاں قائد کی بات کی پرزور حمایت اور تحسین و آفرین کے نعرے لگے۔شمال مغربی سرحدی صوبہ تک اصلاحات کی توسیع کا مطالبہ ۸۱/مارچ ۶۲۹۱ء میں کہتے ہیں،میں آپ سے بے حد مخلصانہ اپیل کرتا ہوں کہ آپ بغیر کسی تاخیر کے اپنا اعلان کر دیجئے“ یہاں مسلمانوں کے صوبہ میں اصلاحات کا معاملہ تھا اس لیے حمایت کی۔اصلاحات اور معروضات آل انڈیا مسلم لیگ کے ۸۱ھویں سالانہ اجلاس میں قرارداد میں ۰۳/دسمبر ۶۲۹۱ میں امید ظاہر کی کہ مسلمانوں اور ہنددوں کے بہتر اذہان یہ محسوس کریں گے کہ ہند کے لیے واحد راستہ دوستی، یگانگت اور تعاون کے ساتھ کام کرنا ہے“ یہاں اتحاد و اتفاق سے آزادی حاصل کرنے کا فارمولہ بتایا۔دہلی تجاویز کے بارے میں بیان۔ مخلوط انتخابات کی پیش کش کو نہ ہندوں نے سراہا نہ ہی مسلمانوں ۹۲ مارچ ۷۲۹۱ء میں کہا کہ ”میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس نازک مرحلے پر جلد سمجھوتہ کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے“فوجی افسروں کے عہدوں کی نصف تعداد پر ہندیوں کی تعیناتی،مجلس قانون ساز مین ترمیم کی حمایت، ۵۲/اگست ۷۳۹۱ ء میں کہا کہ اس یقین دہانی سے انحراف نہ کریں جو انہوں نے اس ایوان میں کرائی اور ہند کے عوام ساتھ نہ کھلیں“ اس موقعہ پر ہندی فوجیوں کی حمایت کی۔دستوری کمیشن کا تقررحکومت کے ساتھ اختلافات کی نوعیت بنیادی ہے،۶۱/فروری۸۲۹۱ء میں کہا کہ ہمیں فریب نہ دیجئے۔ غیرمحفوظ لوگوں کو گمراہ نہ کیجئے اور ہماری غلط ترجمانی نہ کیجئے۔اس پر تحسین و آفرین کے پر زرو نعرے لگے۔اسکین کمیٹی کی سفارشات کو مسترد کرنے کے بارے میں ۰۱مارچ ۸۲۹۱ء میں ”یا یہ کہ انڈین سول سرو س کوواپس بلا لینا چاہیے یا یہ کہ بحریئے کا تحفظ واپس لے لینا چاہیے۔اس پر تحسین و آفرین کہا گیا۔سائمن کمیشن کے لیے مطالبہ زر تخفیف کی تحریک

کی حمایت ۳۱ /مارچ ۸۲۹۱ میں کہا کہ ان کے خیالات کے مطابق بھی یہ کمیشن اطمینان بخش نہیں ہے اور انہیں اس صرفے کے حق میں اپنی رائے نہیں دینی چاہیے“اس کے حق میں بیان دیا۔صوبہ سرحد میں دستوری اصلاحات ایک فریق کو دوسرے فریق کے مقابلے میں لانے کی حکمت عملی ترک کر دیجئے،۳۱/مارچ ۸۲۹۱ء میں فرماتے ہیں کہ اس تقریر پر جو انہوں نے ارشاد فرمائی اور جو جواب اب انہوں نے دیا اس پر انہیں ہدیہ تبرک پیش کرتا ہوں“یہ قائد کی طرف سے تنقید تھی۔کل جماعتی قومی موتمر میں نہرو رپورٹ پر مسلم لیگ کی ترجمانی کرتے ہوئے ۲۲ دسمبر ۸۲۹۱ء کو فرماتے ہیں ”مسلمانوں اور ہندووں کے اتحاد سے زیادہ کوئی چیز مجھے عزیز اور راحت بخش نہیں“ اسی اتحاد سے آزادی ملنی ہے۔عام میزانیہ اور دستوری اصلاحات جس میں نہرو رپورٹ کی تجاویز مسلم تجاویز کے بلکل بر عکس ہیں، ۲۱/مارچ ۹۲۹۱ء کہتے ہیں کہ”ہند میں بہتر زندگی کے لیے ہندو مسلم مسئلہ کا تصفیہ ضروری ہے۔ اس سے ہی اپنے مقاصد مل سکتے ہیں۔چودہ نکات پر مشتمل قرارداد کا مسودہ مسلم لیگ کے اراکین میں تقسیم کرنے کے بعد ۸۲مارچ۹۲۹۱ء میں فرماتے ہیں ”جن صوبوں میں مسلمانوں اقلیت میں ہیں وہاں مسلمانوں کی زیادہ نشتوں پر نمایندگی کے مسئلہ پر بعد میں غور و غوض کیا جائے گا“ہند کے اہم رہنماؤں کی نمائندہ گول میز کانفرنس طلب کرنے کی ضروت ۹۱/ فروری ۹۲۹۱ء میں قائد نے کہا کہ”ہند کو درپیش سیاسی صورت حال پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی اور اسے حل کرنے کے ضمن میں طریقے تجویز کیے۔پہلی گول میز کانفرنس کا اجلاس عام ۸۲نومبر ۰۳۹۱ ء میں ہند کے لیے آیندہ دستوری طرز وفاقی ہو یا وحدانی کی بات کی گئی“وفاق کے اہم عناصر برطانوی ہند اور ہندی ریاستوں کے وفاق کی راہ میں دشواریاں یکم دسمبر ۰۳۹۱ء میں کہا کہ”آیندہ دستور میں جو کچھ کیا جا سکے گا وہ آپ اور ہم مل جل کر کر سکیں گے“وفاق کے اہم عناصر ترکیبی ۵ /دسمبر ۰۳۹۱ئکو منعقد ہوا۔”وفاق کی مقننہ کی ہیت ترکیبی کسی بھی ایوان میں نامزدگی اور ایوان زیرین میں باواسطہ انتخابت کی مخافت کی“”بلواسطہ انتخابات اور وفاقی مقننہ ایوان زریں کے لیے بالواسطہ طریقہ کار کی مخافت کی منعقدہ ۲/ جنوری ۱۳۹۱ء“”وفاقی انتظامیہ ۱۲۹۱ء سے دستوریارتقاء پر تبصرہ ۷/جنوری ۱۳۹۱ء کو ہوا“قفاقی دستور اور مسلان اقلیتی مسئلہ کو ھل کیے بنا کوئی دستور مرتب نہیں کیا جا سکتا یہ بات قائد نے ۶۲نومبر ۱۳۹۱کو کہی“
صاحبو! ہم نے پوری کتاب میں جو بھی قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ہند کی آزادی دو قومی نظریہ اور اسلامی نظام حکومت کے لیے جو بھی ممکن ہوسکا اس کے اندر رہتے ہوئے انگریز اور ہنددوں کو جوابات دیے جس کی وجہ بلا آخر مثل مدینہ ریاست پاکستان وجود میں آئی۔اللہ قائد محترم کے پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Themes