سیّدنا مولا علی ؓ کے روحانی احوال و مقام

Published on February 15, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 120)      No Comments

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شمشاد ختر
اللہ تعالی نے اپنے خاص بندوں کو ایسی شان و مرتبہ سے نواز رکھا ہے کہ وہ اپنی خدا داد طاقت کے ذریعے لوگوں کے احوال سے نہ صرف آگاہی رکھتے ہیں بلکہ ان کی رہنمائی اور حاجت روائی،مشکل کشائی بھی فرماتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: ” بے شک تمہارا ولی (مددگار) تو اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور اہل ایمان تمہارے ولی (مددگار دوست) ہیں“۔ (المائدہ: ۵۵)دوسری جگہ ارشادفرمایا:”بے شک اللہ اس (رسول کریم) کا مولا(مدد گار) ہے۔جبرائیل اور نیک صاحب ایمان لوگ بھی ان کے مدد گار ہیں اور اس کے بعد فرشتے بھی کھلم کھلا مددگار ہیں“۔(التحریم: ۴)یاد رہے کہ ”مولا“ کا لفظ کئی جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کے لئے استعمال ہوا ہے۔بے شک حقیقی معنوں میں اللہ تعالی ہی ”مولا“ ہے لیکن قرآن مجید میں جبرائیل اور صالح مو منین کو بھی مولا قرار دیا گیا۔جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا دوسرے کو مولا کہنے سے شرک نہیں ہوتا آج کل ہر مسلک اپنے مولویوں کے ساتھ لفظ مولانا لکھ کر مختلف بینرز بنواتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں۔
ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کے ایسے حاجت روا خاص بندے ہمیشہ اور ہر دور میں رہتے ہیں اور ان کی تخلیق ہی اس مقصد کے لئے ہوتی ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا:”اللہ تعالی نے لوگوں کی حاجت روائی کے لئے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی حاجات کی تکمیل کیلئے ان سے رجوع کریں۔یہ لوگ عذاب الہی سے محفوظ و مامون ہیں“۔ (الترغیب و الترھیب ۳: ۰۹۳)۔
حضور ﷺ کی امت کے ان مولا صفات بندوں میں سے جس ہستی کو تاج سروری عطا کیا گیا وہ خاتون جنت کے شوہر نامدار، حسنین کریمین کے والد گرامی سیدنا علی المرتضی ؓ کی ذات گرامی ہے۔صحابہ ؓ کے بھرے مجمعے میں جن کا ہاتھ باعث تکوین کائنات فخر موجودات سید المرسلین ﷺ نے اپنے ہاتھ میں لے کربلند کیا اور فرمایا: (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) ”جس کا میں مولا ہوں علی بھی اسکا مولا ہیں“ حضرت امام یوسف النبھانی ؒ نے حضرت امام فخر الدین رازی ؒ کے حوالے سے سیدنا مولا علی ؒ کی روحانی قوت کا ایک دلچسپ واقعہ جامع کرامات اولیاء میں درج کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔ ایک حبشی غلام حضرت حیدر کرار ؒ سے محبت رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ چوری کے جرم میں اسے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا تو آپ ؓ کے حکم سے حسب قانون اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ ہاتھ کٹوا کر حبشی غلام دربار مرتضوی سے واپس آرہا تھا کہ حضرت سلمان فارسی ؓ اور حضرت ابن الکواء سے ملاقات ہو گئی جنہوں پوچھا کہ تیرا ہاتھ کس نے کاٹا ہے؟ غلام کہنے لگا ”یعسوب المسلمین“ یعنی حضرت علی ؓ نے کاٹا ہے ابن الکواء کہنے لگا انہوں نے تیرا ہاتھ کاٹ دیا ہے اور تو ان کی مدح کرتا ہے؟ حبشی کہنے لگا ان کی مدح کیوں نہ کروں، انہوں نے مجھے آخرت کی سزا سے بچا لیا ہے۔ حضرت سلمان فارسی یہ سارا واقعہ مولا علی ؓ کو بیان کر دیا۔ مولا علی ؓ نے فورََا غلام کو طلب فرمایااور اس کا ہاتھ اس کی کلائی کے ساتھ رکھ کر رومال سے ڈھانپ دیا، کچھ کلمات دعائیہ پڑھے،اچانک ایک آواز آئی کہ کپڑا ہٹا دو، کپڑا ہٹایا گیا تو ہاتھ بالکل صحیح سالم تھا۔ (جامع کرامات اولیاء جلد اول ص: ۳۲۴)۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فتح مکہ کے موقع پر ہبل کا بلند و بالا بت گرانے کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ”علی المرتضی ؓ نے کہا کہ آپ ﷺ اپنے قدم میرے شانوں پر رکھ کر بت گرا دیں۔ سرور دو عالم ﷺ نے فرمایا: اے علی ؓ تم بار نبوت اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ تم میرے کندھوں پر آؤ اور ان بتوں کو گرا و۔اسی حالت میں حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ سے پو چھا تم اپنے آپ کو کس حالت میں دیکھتے ہو۔ عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں ایسا دیکھتا ہوں گویا تمام حجابات اٹھ گئے ہیں اور میرا سر ساق عرش سے جا ملا ہے اور جدھر ہاتھ پھیلاؤں وہ چیز میرے ہاتھ میں آجاتی ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا: اے علی ؓ تمہارا کتنا اچھا وقت ہے، تم کار حق ادا کر رہے ہو اور میرا حال کتنا مبارک ہے کہ میں بار حق اٹھائے ہوئے ہوں۔ (مدارج النبوت،ج ۲، ص: ۶۸۴ بحوالہ علی مع الحق ص: ۳۷)حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جب حضور ﷺ کو آخری غسل دیا تو پانی کے چند قطرے آپ ﷺ کی مقدس پلکوں پر موجود تھے میں نے انہیں اپنی زبان سے چوس لیا۔ بس علم و عرفان اور حکمت و ادراک کا ایک سمندر میرے سینے میں ٹھا ٹھیں مارنے لگا۔
سیدنا علی ؓ کے متعلق حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں“۔اور حضرت علی ؓ خود فرماتے ہیں؛”رسول اللہ ﷺ نے مجھے علم کے ہزار باب کی تعلیم دی،ہر باب کے آگے ہزار ہزار باب کھلتے ہیں“۔قارئین محترم جس علم کے کروڑ ابواب ہوں اس کی وسعت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ خرقہ ولایت عطا کرتے وقت حضور ﷺ نے وہ رموز و اسرار مجھ پر منکشف فرمائے جو نہ جبرائیل ؑ کے پاس ہیں نہ میکائیل ؑ کے پاس۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اپنی کتاب انفاس العارفین میں اپنے چچا حضرت ابو الرضا محمد کی روایت درج کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:آنحضرت ﷺ کی دوسری بار بچشم حقیقیت زیارت ہوئی، میں نے عرض کی: یا سیدی میری خواہش ہے کہ آ کے طریقہ عالیہ کے فیض یافتہ کسی مرد حق سے بیعت کروں تاکہ ان سے حقائق کی تفصیل پوچھ سکوں جو آپ ﷺ سے حاصل ہوئے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: تیری بیعت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ سے ہوگی۔ کچھ دنوں بعد دیکھا کہ گویا کسی راستے پر جا رہا ہوں۔ آس پاس کوئی شخص نظر نہیں آرہا۔ لیکن راستے پر گذرنے والوں کے نقش موجود ہیں۔ تھوڑی دور راستے کے درمیان ایک شخص کو بیٹھا ہوا دیکھا، میں اس سے راستہ پو چھا، اس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا ادھر آؤ۔اس سے مجھے انشراح قلب حاصل ہوا،انہوں نے فرمایا اے سست رفتار، میں علی ؓ ہوں اور مجھے رسول خدا ﷺ نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں ان کی بارگاہ میں لے چلوں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ کے ہاتھ میں دے کر کہا: یا رسول اللہ ھذا یدی الرضا محمد یارسول اللہ ﷺ یہ ہاتھ رضا محمد کا ہے یہ سن کر حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ سے بیعت لی۔ اس موقع پر میرے دل میں ایک بات کھٹکی، حضرت علیؓنے اس پر مطلع ہو کر فرمایا کہ میں اسی طرح اولیاء اللہ کے حق میں وسیلہ بیعت رہتا ہوں ورنہ اصل میں تمام سلاسل کی بیعتوں کا مرکز اور مرجع حضور ﷺ کا دست مبارک ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ ؓ نے مجھے اشغال اور اذکار کی تلقین فرمائی اور علوم و اسرار سے نوازا۔
حقیقت یہ ہے کہ مولا علی ؓ کی ذات اقدس تمام ظاہری و باطنی علوم کا مخزن ہے، تمام صحابہ ؓ آپ ؓ کی اس شان سے آگاہ اور معترف تھے اور شیخین کریمین مختلف مواقع پر سیدنا علی ؓ کے تبحر علمی اور اصابت رائے سے استفادہ بھی کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں کتب مناقب میں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات منقول ہیں۔ انشاء اللہ کبھی ان کو کسی کالم میں تفصیلاََ بیان کیا جائے گا۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Theme