گیارہ مئی،ملک میں تبدیلی یا اقتدار کی جنگ

Published on May 10, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 681)      No Comments

aqeel-21

گیارہ مئی وہ دن ہے جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارایک منتخب حکومت نے اپنی مدت پوری کرکے ملک میں الیکشن کرائے۔ اس الیکشن کو کسی نے نیا پاکستان کا نام دیا تو کسی نے ملک میں تبدیلی کی ہوا کا نام دیا۔بہر حال الیکشن ہوئے اور اس الیکشن میں ن لیگ ملک کی حکمران پارٹی بن کر سامنے آئی۔ اس دن سے آج تک ہارنے والوں نے اس الیکشن کو غیر شفاف قراردیا۔ اب اس الیکشن کو سال ہونے والا ہے اور ایک بار بھی وہی 11مئی آرہاہے ۔ آج پھر اس دن ’’ ملک میں تبدیلی کی جنگ‘‘ کے نام سے احتجاجی تحریک شروع کی جارہی ہے۔
لو جی عمران خان طاہرالقادری کے مرید بن گئے۔ انہوں نے طاہرالقادری کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ اب تو پاکستان کے مقدر جاگ گئے۔ اب پاکستان کو ترقی کے راستے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ طاہرالقادری، جماعت اسلامی اور عمران خان ایک ہو گئے ہیں۔ملک میں جو تبدیلی کی جنگ شروع ہوئی وہ اب ختم ہونے والی ہے ۔یہ وہ الفاظ تھے جو ایک مقامی ہوٹل پر بیٹھے ہوئے لوگ آپس میں کررہے تھے۔اس وقت تک مجھے علم نہیں تھا کہ 11مئی کو عمران خان اور طاہرالقادری اکٹھے ہوکراحتجاج کررہے ہیں البتہ جماعت اسلامی کا معلوم تھا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ اس احتجاج میں شریک ہوگی۔جس وقت مجھے اس بات کا علم ہوا تو فوراً میرے خیال میں ان لوگوں کے الفاظ آگئے۔ میں نے سوچا ہماری عوام کے پاس کتنانالج ہے کہ ان کو ہر بات کا علم پہلے سے ہوتا ہے کیونکہ وہ تو پہلے ہی بول رہے ہیں کہ یہ وقت کا ضیا اور عوام کو بیوقوف بنانے کا طریقہ ہے۔
طاہر القادری پہلی بارمیدان سیاست میں نہیں آرہے ہیں اس سے پہلے بھی یہ2001کے الیکشن میں اسمبلی کا مزا چکھ چکے ہیں ۔اس لیے اب وہ دوبارہ انقلابی نعرہ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘کے ذریعے میدان میں آرہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ ٹھٹھہرتی سردیوں میں خود بکتر بند ٹرک میں بیٹھ کرعوام کو کھلی سڑکوں پر ذلیل و رسوا کراچکے ہیں ۔اب پھر وہ عوام کو تپتی دھوپ میں جلانے کے لیے احتجاجی تحریک شروع کررہے ہیں۔ مولانا طاہر القادری کا ماضی اتناشاندار نہیں ہے۔ ان کی متنازعہ ویڈیواور بیانات دنیا کے سامنے ہیں۔عوام ان کے سارے کردار سے بخوبی واقف ہیں۔
جب مولانا سیاست چھوڑ چکے ہیں توپھر سیاست کے بغیر وہ کونسا الہ دین کا چراغ ہے جس کے ذریعے وہ ریاست کو بچانا چاہتے ہیں؟ پاکستان میں قانون سازی سے لیکر ملکی دفاع تک کے فیصلے تو پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں اور اس میں عام بندوں کو شامل نہیں کیا جاتا ہے ۔اس میں شامل ہونے کے لیے پارلیمنٹ کا ممبر ہونا ضروری ہے جس کے لیے الیکشن لڑنا فرض ہے۔اب عوام پوچھتی ہے کہ مولانا کے پاس وہ کونسی جادو کی چھڑی ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان کی سیاست میں شامل ہونا چاہتے ہیںیا پھر الطاف بھائی کی طرح خود سیاست سے باہر رہ کر ملک پر کنٹرول چاہتے ہیں۔پچھلی بار طاہر القادری کی حمایت الطاف بھائی نے آواز اٹھائی تھی اور اس بار تو خان صاحب ان کے کاندھے سے کاندھا ملائے ہوئے ہیں۔
عمران خان نے کہ گیارہ مئی سے ملک میں تبدیلی کی جنگ پھر سے شروع کرنے کااعلان کیا ہے۔بقول خان صاحب’’ گیارہ مئی کا احتجاج جمہوریت کو بہتر بنانے کے لئے کر رہے ہیں نہ کہ توڑ پھوڑ یاانتشار پھیلانا ہے، مخالفین کہہ رہے کہ ہم جمہوریت کو ڈی ریل کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف فوج کی گیم کھیل رہی ہے کہ کس کے کہنے پر احتجاج ہو رہا ہے ۔میں ان پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایک سال پہلے میں اسپتال میں داخل تھا تو اس وقت کہہ دیا تھا کہ الیکشن کو قبول کیا ہے کہ نہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کو، گیارہ مئی کو آپ سب نے پاکستان کو بچانے کے لئے نکلنا ہے‘‘۔
کیا جماعت اسلامی، طاہر القادری، تحریک انصاف کا احتجاجی پروگرام عمران خان کی مراد پوری کروا پائے گا اس کے بارے میں پیشن گوئی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم تحریک انصاف کے ارادے کے بارے میں کوئی بااعتماد رائے قائم کر سکتے ہوں۔ دعوؤوں کی حد تک عمران خان(ضدی پٹھان) کی طرح اکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اگر 11مئی کو انصاف نہ ملا تو وہ ملک بند کر دیں گے مگرعام سیاستدانوں کی طرح بڑھکیں مارنے کا سلسلہ ان کا بہت پرانا ہے۔کبھی کراچی میں اپنے کارکنان کے قتل کے معاملے پر، کبھی بجلی کی مصیبت کے پیش نظر،کبھی ڈرون حملوں، کبھی نیٹو سپلائی کی بندش اور کبھی بس ویسے ہی ہیں۔اس طرح کی بڑھک وہ الطاف حسین کے خلاف بھی مارچکے تھے مگر ان سب کا رزلٹ بھی عوام کے سامنے ہے۔
عمران خان کی احتجاجی سیاست ہر دوسرے ہفتے ایک نیا ماڈل پیش کرتی ہے۔ مگر ماضی میں اٹھائے ہوئے ان تمام طوفانوں میں سے کوئی بھی اپنی تندی وتیزی زیادہ برقرار نہ رکھ سکا اور چٹانوں کو شکست دینے سے پہلے ہی کمزور ہوکر ریڈار پر سے غائب ہوگیا۔اب دیکھتے ہیں گیارہ مئی کو ملک کی بقاجنگ لڑی جارہی ہے یا پھر اپنے اپنے اقتدار کی جنگ ۔یہ جنگ کوئی بھی مگر یہ بات میں واضح لکھ دوں کہ اس میں حسب توقع نقصان عوام کا ہوگا۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Premium WordPress Themes