دن کا سفر

Published on November 15, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 357)      No Comments

\"imtiaz
شہید کون؟آج کل ملک میں یہ بحث بڑے زوروشور کے ساتھ جاری ہے کہ طالبان کو شہید کہنا درست ہے کہ نہیں ،میں اس بحث میں اس لئے حصہ نہیں لینا چاہتا تھاکیونکہ میرے خیال میں شہید کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے ۔ جب روز آخرت کی جزاو سزا کا اختیارصرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو پھر میں کون ہوتا ہوں کسی کو شہید یا ہلاک کہنے والا؟جو لوگ اس بحث میں اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں اُن سے میرا سوال ہے کہ اگر انسان ہر بات کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ کا وجود کون تسلیم کرتا ؟علماء کرام سے سوال ہے کہ کیا انہوں نے کبھی معاشرے میں اسلامی اور انسانی قدروں کو فروغ دینے پر اس سنجیدگی کے ساتھ بحث کی ہے جس طرح طالبان کے شہید ہونے یا نہ ہونے پر کررہے ہیں ؟ میں عالم دین نہیں اس لئے شاید قارئین کو میری رائے مطعمن نہ کرسکے اس لئے علماء کی مفید رائے بھی اپنی تحریر میں شامل کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کے مہتمم اور بانی مفتی نعیم صاحب کاکہنا ہے کہ کون شہید ہے اور کون نہیں یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے ۔ حدیث شریف ہے کہ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جوساری زندگی جنتیوں والے اعمال کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت بھر کافاصلہ رہ جاتا ہے ،پھر وہ کوئی ایسا عمل کرگزرتا ہے کہ جہنم کا مسحق بن جاتا ہے۔اسی طرح کوئی ساری زند گی جہنم والے اعمال کرتا ہے اور پھر کوئی ایساعمل کرجاتا ہے کہ جنت کا حق دار ٹھہرتا ہے ۔یعنی کوئی مفتی یا سیاست دان کسی کوجنتی یا جہنمی یاپھر شہید ہونے یا نہ ہونے کی سند نہیں دے سکتا۔بات بالکل صاف ہے لیکن مزید نکھار پیداکرنے کی غرض سے میں نے اپنے محسن حافظ محمد آصف رضا صاحب سے ملاقات کیلئے وقت مانگا جس پر اُنہوں مجھے ویلکم کہا۔میں نے حافظ صاحب سے سوال کیا کہ کیا ہمیں کسی کے شہید ہونے یا نہ ہونے پر اختیاری قسم کی بحث کرنی چاہئے؟(ج)ہرگز نہیں ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں لیکن اسلام کی روح کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ضرو رہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ’’جو اللہ کی راہ میں لڑتا ہوا قتل کردیا جائے تم اُسے مردہ گمان بھی مت کرو،وہ زندہ ہے ،لیکن تم شعور نہیں رکھتے‘‘(سورۃالبقرہ) جوشخص اسلام کی سربلندی اورمسلمانوں کے جان ومال کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرتا قتل کردیا جائے وہ شہید ہے۔ہم مسلمانوں کو اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم پر جہاد کب اور کس صورت میں فرض ہے؟پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے جہاد کا فیصلہ خلیفہ وقت کرے اور اگر مسلمانوں کا حاکم اس حد تک شریعت کو نہیں سمجھتا کہ وہ جہاد کا فیصلہ کرسکے تو پہلے قوم اپنی اور اپنے حاکم کی اصلاح کرے تاکہ کسی غلط فیصلے کے ذریعے ہونے والی ہلاکت سے بچا جا سکے۔لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ کسی کے شہید ہونے یا نہ ہونے پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں یہ خالصتا اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندے ہی کا معاملہ ہی ہے۔لیکن بد قسمتی سے دور حاضر کے سربراہان کی شروع کی ہوئے بحث نے عوام کو اصل حقائق سے ہٹا کر تفرقات میں اُلجھا دیا ہے جس کی وجہ سے عوام جہالت کے گھپ اندھیروں میں ڈوب رہے ہیں اور علماء وقت عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے حکومتوں کے گرد گھوم رہے ہیں ،کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت ملے گی تو ہم اسلامی قوانین کو فروغ دے سکتے ہیں ورنہ ہم کیا کرسکتے ہیں ؟پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا ماضی بتاتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ دولت مند اور طاقت ور حکمرانوں کو اہل ایمان اور اہل شعور پر ترجیح دی ہے ۔دولت و ددنیاوی شان وشوکت کے حامل جاہل لوگوں کو خلیفہ منتخب کرنے والوں کے شعور اور ایمان کی حالت کیا ہوسکتی ہے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہیں۔ لیکن ایک درخواست راقم بھی کرنا چاہتا ہے کہ خُدارا لوگوں کو گمراہ کرنا چھوڑ کر خود سیدھا راستہ اپنائیں اور دوسروں کو بھی دعوت دیں ۔جس طرح کسی کے شہید ہونے یا نہ ہونے کامعاملہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندے کے درمیان ہے اِسی طرح یہ بات بھی حق ہے کہ یہ دنیا کسی کیلئے بھی مستقل رہنے کی جگہ نہیں بلکہ ایک مسافر خانہ ہے ہمیں اس دنیا سے جلد جانا ہے۔یعنی یہ کائنات اور اس کی تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی ہیں ہم جس زمین پر اپنا قبضہ جمائے بیٹھے ہیں وہ دراصل ہماری نہیں ہے ۔شاید اسی سچائی کی وجہ سے ہر دولت مند شخص کے دل سے یہ خوف نہیں جاتا کہ کہیں اُس کی دولت نہ چھن جائے ۔دولت تو دور کی بات ہے جس زندگی کیلئے دنیا کی دولت پیاری لگتی ہے وہ زندگی بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔کسی شاعر نے بڑی اچھی بات کہی کہ ’’دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے ۔طے کررہا ہے جوتو دو دن کا وہ سفر ہے ‘‘دو دن کی مختصر زندگی کو غیر حاصل بحث میں گزار دنیا کہاں کی عقل مندی ہے؟۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress主题