ضرورت سے خواہشات تک کا سفر۔۔۔۔۔

Published on August 12, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 146)      No Comments

تحریر ۔غزل میر
یورپ میں خواب اور خواہشات کی آ ج کے زمانے میں تشری وہ نہیں ہے جو آج سے کچھ سال پہلے تھی آج کے زمانے میں اپنی خواہشات پر توجہ دینے ہیں اضافہ ہوا ہے۔اور انہیں پورا کرنے میں جن مشکلات کا سامنا کیا جاتاتھا ان میں کمی آئی ہے ،لیکن بیشک جو کچھ سال پہلے نا ممکن تھا وہ آج ممکن ہے۔انسان کی خواہشات میں اضافہ ہونے کی وجہ سے اور وقت کی کمی کی وجہ سے اہم خواہشات پر توجہ دینا لازمی ہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ خواہشات کی قربانی ہمیں لازمی دینا پڑتی ہے،جیسے جیسے انسان کی زندگی بدلتی ہے خواہشات بھی بدلتی ہیں۔بدلتے وقت کے ساتھ اپنی بدلتی خواہشات پورا کرتے کرتے جب سب حاصل نہیں ہو پاتا تو ہمیں ناکامی کا احساس ہوتا ہے ۔ہم پوری طرح مطمئین شاہد نہیں ہو پاتے کیونکہ کبھی ہم اپنی حقیقی خواہشات کا انتخاب کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور کبھی ہماری خواہشات تبدیل ہونے کی وجہ سے جن خواہشات کی ہم قربانی دے چکے ہوتے ہیں ان کا افسوس ہمیں ہوتا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں مالی حالات کی وجہ سے غریب گھروں کے افراد اپنی خواہشات کی قربانی دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔بیروزگاری ایک حقیقت ہے اور اخراجات پورے کرنا ایک مجبور ی ہے،یورپ میں ایک مرد کا کیرئیر اس کی پہلی ترجیح ہے تو باپ بننے کے بعد وہ اپنی گھریلو زندگی پرتوجہ دے گا یا اپنے کیریئر پر مالی حالات ٹھیک ہونے کی وجہ سے وہ ان کو کیسے بیلنس کرے گا اس کا انتخاب وہ کرسکتا ہے۔یورپ میں اولاد کے حوالے سے خاص طور پر عورت کے لئے غور کرنا عام ہے ۔اولاد کا ہونا ایک ایسی خواہش ہے جو کچھ خواتین کی ترجیحات میں سرفہرست ہے اور بہت زیادہ خواتین کی تر جیحی لسٹ میں اولاد کا ہونا نہیں ہے۔ اولاد کا ہونا ضروری نہیں ہے کہ ہر عورت کی خواہش ہو اور اسے معاشرے میں بہت عجیب بات نہیں سمجھا جاتا ۔خواتین کی اولاد نہ ہونے کا انتخاب کرنے کی وجہ ان کاکیرئیر یا ان کی دوسری خواہشات ہیں جو بچے کی پیدائش کے بعد خواتین کو کچھ سال تک قربان کرنے پڑتے ہیں ۔ظاہری خوبصورتی کو برقرار رکھنا آج بہت اہم ہوچکا ہے۔یہ بھی ایک خواہش ہے جس کے بارے میں عورت کو ماں بننے سے سوچنا پڑتا ہے اس پر کافی بحث ہوتی ہے یورپ میں اور یہ بھی کہاں جاتاہے کہ کچھ خواتین کے لیے کیریئر ان کی اولاد ہے۔کچھ بچے اپنے والدین کی کیریئر مشکلات دیکھنے کے بعد وہ تجربہ دہرانا نہیں چاہتے اس وجہ سے اولاد ان کی ترجیحی لسٹ میں نہیں ہوتی۔کچھ مرد اور خواتین کا کہنا یہ ہے کہ انہیں وہ کرنا پسند ہے جو وہ چاہتے ہیں اور جب وہ چاہتے ہیں والدین اکثر یہ کہتے ہیں کہ بچے پیدا کرنے سے بے پنا ہ خوشی ملتی ہے لیکن ہم پہلے سے ہی خوش ہیں۔کس خواہش کوپورا کیا جائے اور کس کی قربانی دی جائے یہ سب کیلئے ایک آ سان فیصلہ نہیں ہے کیرئیر اور اولاد جسے پاکستان میں کچھ لوگوں کی ضروریات ہیں یورپ میں کچھ لوگوں کے لیے خواہشات ہیں ۔جن کی حقیقت میں قربانی دینے کی ضرورت عورت کو نہیں پڑنی چاہیے ۔عورت کو بچہ پیدا کرنے کے بعد خوبصورت دکھنے کے لیے بیشک جدوجہد سے گزرنا پڑے وہ یہ اپنی اولاد ہونے کی خواہش پوری کرنے کے لیے کرے گی ٹھیک ویسے ہی کیرئیر کے حوالے سے اس کے لیے مرد سے زیادہ مشکلات سے گزرنے کے بعد وہ اپنی خواہش پوری توکرسکتی ہے لیکن یہ صنفی مساوات کے حوالے سے بحث جاری ہے ۔
آسمان سے باتیں کرتی خواہشیں میرے دل میں
ایک ہی شخص ہے جس کی ساری چاہتیں میرے دل میں
ہجرو محبت کی بارش میں بھیگنا اچھا لگتا ہے
یادوں کے بادل ہیں چھائے برساتیں میرے دل میں
برسوں سے ہی دن ہے چڑھتا ان کے نام کی کرنوں سے
غزل میں ان کانام ہے شامل اور باتیں میرے دل میں
ستم کرو جتنے چاہوں پر بات میری اک مانو
دل نہ توڑوں کہ ہیں میری حسرتیں میرے دل میں
اس قرب کی ساعتوں کو میں کیسے بھلا سکتی ہوں غزل
آج بھی پل پل مسکاتی ہیں ملاقاتیں میرے دل میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Theme