ہم نے ابھی تک کچھ خاص نہیں کیا اور آج بھی ہم ایک دوسرے سے سیکھ ہی رہے ہیں، مختیار لغاری، جنرل مینجر(نیشنل) پاکستان ٹیلی وژن

Published on October 14, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 126)      No Comments

تحریر؛ طلال فرحت
فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات جو تھیٹر، ٹی وی اسکرین اور بڑے پردے پر نظر آتے ہیں اور وہ شخصیات بھی جو پردے کے پیچھے رہ کر اپنے ہنر کی وجہ سے کسی پروجیکٹ یا کام کو دنیا کے سامنے لاکر اپنے نام کے ساتھ پاکستان کے نام کو فخر سے بلند کرتے ہیں، ان لوگوں میں کراچی سینٹر میں جنرل مینجر(نیشنل)مختیار لغاری بھی ہیں، پہلے اسسٹنٹ پروڈیوسر تھے، پھر وقت کے گزرتے ساتھ پروڈیوسر بنے اور اب وہ جنرل مینجر (نیشنل) کے عہدے پر فائز ہیں، مختیار لغاری زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں،ٹنڈوالہ یار کے چھوٹے سے گاؤں دھنگانہ بزدار میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم حیدرآباد کے ماڈل اسکول سے حاصل کی اور اور پھر کالج سے ڈگری لینے کے بعد سندھ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا، بچپن سے انہیں آرٹ سے لگاؤ تھا ۹۰ میں پی ٹی وی میں آئی ہوئی نوکری نے ان کی خواہش کو پورا کیا،آؤ نہ دیکھا تاؤ درخواست دی اور یوں کچھ عرصے بعدبحیثیت پروگرا م اسسٹنٹ کراچی سینٹر پرتعینات ہوئے، بحیثیت معاون پروڈیوسر، جن ایوارڈ یافتہ پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا، ان میں حیدر امام ضوی، کاظم پاشا، ساحرہ کاظمی، شاہد اقبال پاشا، منظور قریشی اور ظہیر خان سمیت دیگر پروڈیوسرز شامل ہیں، پروگرامز کے سلسلے میں بیرون ملک ہانگ کانگ، سری لنکا، ملائیشیاء اور ساؤتھ افریقہ بھی جا چکے ہیں اور خوبصورت پروگرامز ناظرین کے لیے تیار کر چکے ہیں جن میں ”چاند چہرہ“، ”چاند بابو“، ”ہائے نوکری“، ”گھر گھروندہ“،”محبت خواب کی صورت“ ہے کے ساتھ کئی ڈرامے پی ٹی وی کے ناظرین کے لیے پیش کر چکے ہیں، ان کے کہنے کے مطابق ”پی ٹی وی ان کا دوسرا گھر ہے اور اس گھر کے لیے مجھ سمیت کئی لوگوں نے قربانی دی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ قربانی دے کر کسی عمارت کو پکا کرتے ہیں تو آپ سمجھ لیں کہ وہ ستون اعتماد، بھروسہ اور لگن سے ہی مضبوط ہوتی ہے ہم نے پی ٹی وی کے لیے اتنا کچھ کیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ابھی تک کچھ نہیں کیا اور آج بھی ہم ایک دوسرے سے سیکھ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری کاوشوں کو عوام نے پسند کیا اور ان کی پسندیدگی کی وجہ سے پی ٹی وی کا ایوارڈ 2010ء میں ملا جسے میں اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں، پروڈکشن کرنا ہر کسی کو نہیں آتا، لوگ پروڈکشن کو مذاق سمجھتے ہیں مگر جنہیں یہ کام آتا ہے ان کے لیے پروڈکشن حلوہ ہوتی ہے اور جنہیں نہیں آتا وہ اچھے پروجیکٹ کا سیتاناس کر کے رکھ دیتے ہیں،طلعت حسین، شفیع محمد (مرحوم)، معین اختر(مرحوم)، روشن عطا (مرحومہ) ممتاز کنول، یار محمد شاہ اور محمود صدیقی (مرحوم) کی اداکاری سے بے حد متاثر ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اداکار اپنی شخصیت میں الگ ہی کردار رہے کیونکہ ان میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور ان کے ساتھ کام کرنے میں نہ صرف سیکھا جاتا تھا بلکہ مزاح بھی آتا تھا۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes