پاکستان ریلوے – ماضی کے جھروکوں سے

Published on February 12, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 171)      No Comments

تحریر؛ طلال فرحت
پاکستان ریلوے کے ذریعے سفر کرنا مجھے اچھا لگتا ہے، میں کئی برسوں سے اسی میں سفر کرتا چلا آیا ہوں اور آج بھی کر رہا ہوں، انگریزی میڈیم کے فراٹے بھرتے انجن، پٹڑیوں پر چلتے ریل گاڑی کے وہیل سے نکلتی چیختی چنگھاڑتی آوازیں اور انجن سے نکلنے والے گھن گھرج کے ساتھ ہارن چلتی پھرتی زندگی میں پُر پیچ راستوں پر اپنی رعنائیوں میں اپنا ایک الگ ہی تاثر پیش کرتاہے جو یقینا عام سڑکوں پر اسے محسوس نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے یقینی طور پرآپ کو ریل گاڑی میں سفر کرناہوگا، آج مختصر سی تاریخ، لکھنے جا رہا ہوں، جسے پڑھ کر یقینا آپ سب کی معلومات میں اضافہ ہوگا، پاکستان میں ریلوے کا آغاز ۳۱ مئی1861ء میں ہوا جب کراچی سے کوٹری 129کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا،24، اپریل 1865ء کو لاہور تا ملتان ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا، 6 اکتوبر1876ء کو دریائے راوی،دریائے چناب اور دریائے جہلم پر پلوں کی تعمیر مکمل ہوئی اور لاہورتا جہلم ریلوے لائن کو کھولا گیا،پہلی جولائی 1878ء کو لودھرں تا پنوعاقل334 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح کیا گیا، 27، اکتوبر1878ء کو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو اور لاڑکانہ ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھولاگیا، رک اسٹیشن سے سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام جنوری 1880ء میں مکمل ہوا، اکتوبر 1880ء میں جہلم تا راولپنڈی155کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے بچھائی گئی، پہلی جنوری ۱۸۸۱ء کو راولپنڈی تا اٹک کے درمیان ۳۷ کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو بھی کھول دیا گیا یوں پہلی مئی1882ء کو خیرآباد کنڈ تا پشاور65کلومیٹر طویل ریلوے لائن تعمیر مکمل ہو ئی، 31،مئی 1883ء کو دریائے سندھ پر اٹک پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور تا راولپنڈی سے بذریعہ ریل منسلک کیا گیا،1885ء تک موجودہ پاکستان میں چار ریلوے کمپنیاں سندھ ریلوے، انڈین فلوٹیلا ریلوے، پنجاب ریلوے اور دہلی ریلوے کام کرتیں تھیں،1885ء میں انڈین حکومت نے تمام ریلوے کمپنیاں خرید لیں اور 1886ء میں ”نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ریلوے“ کی بنیاد ڈالی جس کا نام بعد میں ”نارتھ ویسٹرن ریلوے“ کر دیا گیا،مارچ 1887ء کو سبی تاکوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہو گئی، 25 مارچ1889ء کو روہڑی اور سکھر کے درمیان ”لینس ڈاؤن“ پل کا افتتاح ہوا، اس پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی تاپشاور سے بزریعہ ریل منسلک ہو گیا، ۵۱ نومبر ۶۹۸۱ء کو روہڑی تا حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے لائن کا افتتاح ہوا،25مئی1900ء کو کوٹری پل اور 8 کلومیٹر طویل کوٹری، حیدرآباد ریلوے لائن مکمل ہو ئی اور اس سیکشن کے مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان ریلویز کی کراچی تا پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہوئی، یوں اس ریلوے کے سفر کو نارتھ ویسٹرن ریلوے، فروری 1961ء میں ”پاکستان ویسٹرن ریلوے“ اورپھر مئی1974ء کو ”پاکستان ریلویز“ نام رکھ دیا گیا، اس تحریر کو رقم کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو ریل فین اور ریل سے محبت کرنے والے ہیں ان کے ساتھ عام عوام کو بھی انہیں ریلوے کے متعلق معلومات ضرور ہونی چاہیئیں،آخر میں ایک مسئلے کی طرف میں توجہ ضرور مبذول کرانا چاہوں گا وہ یہ کہ محکمہ ریلوے کے تمام اسٹیشنز کراچی سٹی سے پشاور اسٹیشن تک کے جتنے بھی واش رومز ہیں، انہیں صاف رکھنے کی ذمہ داری پاکستان ریلوے کے ہی ذمے آتی ہے، اسی تحریر کے سلسلے میں مجھے مختلف اسٹیشنز پر جانا ہواان میں ایک سٹی اسٹشین بھی تھا، وہاں پر مجھے ایک ستر سالہ بزرگوار ملے، انہوں نے ریلوے کے سفر کو سہل قرار دیا مگر اسٹیشنز پر موجود واش رومز کے بارے میں جو بتایا وہ کچھ اس طرح سے ہے ”مجھے پچھلے دنوں ایک بار سٹی اسٹیشن کے واش روم میں جا کر ہاتھ دھونے کی ضرورت پڑی، مگر وہاں جا کر جو حال میں نے دیکھا،وہ بتایا نہیں جا سکتا، سٹی اسٹیشن میں چند روز قبل تک پانی کا انتظام سرے سے تھا ہی نہیں، یہ بات مجھے ایک عمر رسیدہ قلی نے بتائی، اتفاق سمجھیئے، اسی دن ایک پرائیویٹ فلم و ٹیلی وژن کے ادارے نے چند روز کی شوٹنگ کی غرض سے اپنے اداکاروں اور تیکنیکی ماہروں کے آرام کی خاطر ویٹنگ رومز سے منسلک واش رومز میں اپنے بجٹ سے پانی کی ٹنکیاں نصب کراتے ہوئے دیکھا، یوں وہاں پر پانی ان کے اس نیک عمل سے سب کو نصیب ہونے کی امید ن/ر آئی، یہی نہیں بلکہ میں جب ہاتھ دھونے کی خاطر واش روم میں گیا تو دیکھا وہاں پر پانی کی بوتلیں زمین پر اِدھر اُدھر پڑی دیکھیں جن میں پانی کی ایک بوند بھی نظر نہیں آئی،مگر میرے ٹرین کے جانے تک وہاں پر ٹنکیاں نصب کی جارہی تھیں، اب یہ کہنا مشکل ہے کہ جو ٹنکیاں نصب کی گئیں ہوں گی وہ کب تک وہاں ٹکی رہتی ہیں اور کب کوئی وہاں سے انہیں اپنے گھر لے کر جاتا ہے، ابھی یہاں بات مکمل نہیں ہوئی، جب میں کراچی کینٹ، روہڑی، ملتان،لاہور اور راولپنڈی کے اسٹیشن پر گیا تو وہاں پر باقاعدہ باتھ رومز کو ”فرنچائز“ کر دیا گیا ہے یعنی آپ رقم دے کر اپنی ضروریات پوری کر سکتے ہیں، میرا سوال ریلوے کے منسٹر اور انتظامیہ سے ہے کہ جب ہم سے ٹکٹ پر ایک خاصی رقم وصول کی جاتی ہے تو پھر اس رقم کو حاصل کرنے کے بعد عوام کو ان کا حق دینے میں کیوں تامل برتا جاتا ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہاں اس واقعے کو شیئر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم ہی جب تک ان مسائل کی نشاندہی نہیں کریں گے تو آسمان سے فرشتے آ کر ان مسائل کو حل نہیں کر یں گے بلکہ زمین پر موجود منتخب عہدیدار اور ان کے سربراہان ہی اس پر عمل پیرا کراسکتے ہیں
نوٹ؛ دوران تحریر سہوا کہیں اعداد و شمار میں غلطی رہ گئی ہو تو اس سلسلے میں میری کوتاہی سمجھ کر درگزر کر دیجیئے گا، شکریہ

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Theme