واقعہ کربلاء کا اصل پس منظر

Published on July 31, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 60)      No Comments

تحریر۔۔۔ شاہدجنجوعہ
صرف جزباتی انداز میں کربلاء معلٰی کی واقعاتی کہانی ہی کیوں سنائی جاتی ہے؟ شہادت امام حسین کا مقصد کیا تھا کیوں یہ بَہتّر نفوس قدسیہ شہید ہوئے؟اے مسلمانان عالم یہ ماہ محرم الحرام خاندان نبوت کی قربانیوں پر نوح کناں ہونے کا وقت نہیں ہے۔ افسوس! ہر عاشورہ پر کچھ ناعاقبت اندیش یزید کو مسلمان یا کافر ثابت کرنے کی غیر ضروری بحث چھیڑ دیتے ہیں جس سے واقعہ کربلا کے حقیقی پیغام کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا؟ یزید کا قصور یہ تھا کہ نے اسلام نظام کی بنیادی اساس کو تہس نہس کیا اور دوبارہ ملوکیت کا آغاز کرکے اپنے اس سوچ اور عمل کو اسلامی قرار دے دیا ۔
لیکن سوال یہ ہےکہ اگر یزید فاسق و فاجر نہ ہوتا توکیا پھر اسکا اہلبیت اطہار کو اسطرح شہید کرنا قابلِ معافی ہوتا؟
ہرگز نہیں ،،،،،،یہاں قابل افسوس پہلو ہی یہی ہے کہ واقعہ کربلا ہمیشہ ایک دردناک تاریخی ناول سمجھ کر ہی پڑھا جاتا ہے اسی وجہ سے عاشورہ ختم ہوتے ہیں ہم جس ڈگر پر پہلے چل رہے ہوتے ہیں اسی پر دوبارہ گامزن ہوجاتے ہیں
خدارا آج اپنے ذہن کو تمام تر وابستگیوں سے آزاد کرکے سوچیئے کہ اول الخلق حضرت آدم علیہ اسلام سے لیکر نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله عليه وآلہ وسلم تک کم و بیش18ہزار انبیاء ایسے تشریف لائے جنکے یا تو بھائی نبی تھے یا ان کے بیٹے ۔ جیسے موسیٰؑ کے ساتھ ہارون علیہ السلام، ابراھیم کے ساتھ اسماعیل علیہ السلام ۔ حضرت یعقوب کیساتھ اسماعیل و اسحٰق گویا پیغمبرِ اسلام نے دنیا میں صدیوں سے جاری ملوکیت و آمریت کےمکمل خاتمے کا اسطرح اعلان کیا کہ حضرت محمد صلی الله عليه والہ وسلم خاتم النبین ہیں ۔گویا آئندہ کے بعد فیصلے جمہوری انداز میں ہوا کرینگے گویا آپ نے اپنے عمل سے دنیا کے اندر آئندہ قیادت کے انتخاب کے طریقہ کار کو یکسر بدل دیا تھا جس میں یزید بدبخت لعین نے نقب لگائی۔
یہاں یزید کے ظالمانہ بہیمانہ اور کافرانہ عمل کے پس منظر کو سمجھنے کیلئے آئے تاریخ کے اوراک پلٹ کر ہم ایک اہم ترین نقطہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا ذکر کبھی آپ کسی بازاری مولوی سے سنیں گے اور نہ کسی پیشہ ور ذاکر سے
کیونکہ انکی پہنچ ان لایعنی باتوں کی تکرار تک محدود ہے جس سے انکا پیٹ جڑا ہے اور وہ ہے موروثیت یعنی قبضہ اور نوح کناں کرکے پیسہ بٹورنا___ یزید کون تھا – یزید ابن ابوسفیان کا پوتا ہے جسکے باپ کو غلیظ کردار کی وجہ سے حضور نبی مکرم صلی علیہ وآلہ وسلم کے آباؤاجداد نے مکے سے بے دخل کیا تھا ابوسفیان کواس واقعے کا بڑا رنج تھا۔ فتح مکہ کے دن ابوسفیان نے اس شرط پر کلمہ پڑھا تھا کہ اسکی جان بخشی گی اور اس سے ان مظالم کا حساب نہیں مانگا جائے گا جو اس نے مسلمانوں پر ڈھائے تھے۔ یوں
بنوامیہ کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے یہ نفرت اپنی اولاد کے دلوں میں پالی اور وہ ہمیشہ انہیں قریش سے بدلہ لینے کیلئے ابھارتے رہے ۔ نقطعہ یہ ہے کربلاء موروثیت اور ملوکیت کیخلاف جنگ تھی جس کا بدلہ کربلا معلی میں یزید نے نواسہ رسولؐ امام عالی مقام حسین ابن علیؓ سے لیا۔ امام حسینؓ کربلا میں اپنا سارہ خانواده یعنی خواتین سے شیرخوار بچوں تک کو اس لئے ساتھ لیکر نکلے کہ وہ خلوص نیت سے اور اہتمام حجت کی خاطر یزید کو ملوکیت کے قیام سے دستبردار کروانے کی آخری کوشش کیلئے پہلے مذاکرات اور پھرجہاد بالسیف کے آغاز کیلئے روانہ ہوئے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پہلے مرحلے میں ہی اگر عامۃ الناس کو اعلانیہ دعوت جہاد دی ہوتی تو جانثاران مصطفیٰ اتنے لاپرواہ یا بزدل ہوگئے تھے کہ مدینہ النبیؐ سے صرف بَہتّر نفوس خانوادہ اہلیت رسولؐ کے ساتھ نکلتے!
یہ حج کا موقعہ تھا کیسے ممکن ہے کہ مکہ المکرمہ سے بھی نواسہ رسول صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دینے کے لئے کوئی نہ نکلتا اور یوں یہ نفوسان قدسیہ ایک ایک کرکے کربلاءکے رہگزار میں شہید ہوجاتے۔ مسلم بن عقیل کی بیعت کے بعد کوفیوں کا یزید کی طرف لوٹ جانا انکی بزدلی اور منافقت اپنی جگہ قابل مزمت اور شرمناک ہے مگر وہ ایک الگ مضمون ہے۔
کربلاء میں امام حسین علیہ اسلام کی یہ شہادت اعلائے کلمۃ الحق کی ایک ایسی انمنٹ مثال بن گئی جس پر انبیاء و ملائک اور قیامت تک کے مسلمان رشک کرتے ہیں اور اسی لئے کہا گیا تھا کہ
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلاء کے بعد
آج ہمیں صرف علامتی طور پر امام حسینؓ کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا عملی طورپر بھی ہمیں اسوہ حسینؓ اپنانا ہوگا اور اس عاشورہ کا سبق بڑا واضح ہے اور ایک ہی ہے کہ اے امت مسلمہ کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں جس جعلی نظام کے ذریعے تم اقتدار پر پہنچتے ہو اسی آمریت و ملوکیت کے خاتمے کی جدوجہد کا نام کربلا ہے۔ انتظار کرو اس بات کا جب اس قوم کو یہ پیغام سمجھ آگیا تمھیں اس دن پتہ چلے گا حسینیت کیا ہے یزیدیت کیا ہے۔ لیکن اے امت مسلمہ یہ مولوی و ذاکرین تم سے مال بٹورنے کی خاطر لایعنی بحثوں میں الجھاکر اس واقعے کے عظیم تر مقاصد سمجنے سے دور رکھتے ہیں۔
واقعہ کربلاء کا اگر یہ اصل پس منظر اس امت کا بتایا جاتا تو آج خلفائے راشدین کے انتخاب اور انکی ترتیب کے حوالے سے یہ قوم فرقہ پرستی کا شکار ہوکر ٹکڑوں میں نہ بٹتی۔
حاصل مضمون یہ ہے کہ دسویں محرم الحرام کا سانحہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقصد نظام حکومت و ملوکیت اور فیوڈل ازم کے تسلط کے خلاف جہاد تھاتاکہ سربراہ مملکت کا انتخاب تقوی و طہارت اہلیت اور عوامی استصواب رائے کے زریعے ہو صاف شفاف جمہوری انتخابی نظام کی بحالی کے زریعے ہو سرداری قباہلی اورفیوڈل ازم کے زریعے نظام حکومت چلانا ہرگز اسلامی نہیں بلکہ قیصر و کسری کی پیروی ہے۔
آج رسومات کی بجائے ہم میں وہی جذبہ حسینی ہونا چاہئے
کہ ہم تقوی کی بنیاد پر اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں نہ کہ استحصالی نظام کے چند خاندان جن کو دور آمریت میں مسلط کیا گیا ۔ اس غلط پریکٹس کا نتیجہ ہم 72 سال سے دیکھ رہے ہیں۔ جب تک عمل نہیں بدلے گا ردعمل بھی وہی رہے گا۔ لہزا ہر کوئی اپنی انفرادی اور اجتماعی زمہ داریوں کو پہچانے اور اس جدوجہد میں کوئی ساتھ چلےنہ چلے۔جان جاتی ہےتوچلی جائےمگر باطل کے اقتدار کےسامنےسرنگوں نہیں ہونا، جوعلم حق اٹھایاہے وہ جان کے خوف اور مال و متاع کےچھن جانے کے ڈرسے گرنے نہ پائے۔ ظالم باطل اور طاغوت کےساتھ سمجھوتا نہیں کرنا ۔قرآن و سنت کےاصولوں کی پاسداری پر زندگی اسی پر موت۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Premium WordPress Themes