لاج

Published on November 13, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 141)      No Comments

ازقلم: اقراء آتش۔۔۔لاہور
پنچایت میں آج پھر بنجر زمین کا معاملہ زیرِ بحث رہا۔ چھوٹے چوہدری کی پنچایت میں غیر حاضری سے آج پھر سنوائی بے نتیجہ ٹھہری۔ کل تک جو چہ میگوئیاں چوری چھپے ہوا کرتی تھیں، آج وہ چوہدریوں کی حویلی سے ٹکرانے لگیں۔ چوہدری اصغر آپ یہیں ٹھہریئے۔ چوہدرانی صاحبہ نے سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے انہیں رکنے کا اشارہ کیا۔ کب تک ماضی میں اُلجھے رہیں گے؟ جس کتاب کو آپ پڑھنا نہیں چاہتے اُس کے ورک پلٹانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ایک تو پہلے ہی بنجر زمین کا معاملہ ہمارے گلے کا طوق بنا ہوا ہے، اوپر سے آپ کی پنچایت میں غیر دلچسپی، میں اور میرا بیٹا کب تک گھر اور باہر کی ذمہ داریاں سنبھالتے پھِریں گے؟ جو کچھ ہوا اُس کا ملال ہمیں بھی ہے۔ یہ سُننا ہی تھا کہ اصغر اپنا ضبط برقرار رکھے باہر چلا گیا۔ شام ڈھلتے ہی لوگ گھروں سے باہر آگئے۔ گاؤں میں جگہ جگہ مختلف ٹولیوں کی صورت میں بیٹھک لگی ہوئی تھی۔ ہر کوئی اناج کی کمی کو رو رہا تھا۔ غلے کی قلت دبے پاؤں سر اُٹھا رہی تھی۔ ہائے وہ لڑکی پورے گاؤں کو کھا گئی، ہر طرف یہی شور تھا۔ کسِ لڑکی کی بات ہو رہی ہے؟ شمیم خالہ نے بھی لقمہ دیا۔ ارے وہی چوہدری اصغر کی ولائتی بیٹی، جب بیوہ چوہدرانی سات سالہ اسلم کو لیے باپ کی چوکھٹ لوٹ آئی تو اصغر میاں اٹھارہ برس کے تھے۔ بی بی نے اپنی جوانی گال کر چھوٹے بھائی کو ماں کا ایسا پیار دیا اور پڑھنے کے لیے باہر بھیج دیا، پھر کیا تھا کہ وہ وہاں کسِی گوری میم کی زلفوں کے اسیر ہو گئے۔ شادی کے بعد دونوں کو چاند جیسی بیٹی ہوئی۔ بیوی کی اچانک موت نے اصغر میاں کو ایسا دل برداشتہ ہوا کہ چلا چلایا کاروبار چھوڑ ننھی سارہ کو تھامے تھر پارکر لوٹ آئے۔ حویلی نے اُس بچی کو ماں کی گود دی۔ پورے گاؤں نے اُسے لوری سُنا کر سلایا تھا۔ تھرپارکر کی ریت نے بانہیں کھول کر اُس کو خوش آمدید کہا تھا۔ یہ کہتے ہوئے ممتاز ماسی آبدیدہ ہو گئیں۔ ارے ماسی آپ کیوں ٹسوے بہا رہی ہیں؟ اگر شادی نہیں کرنی تھی تو پہلے ہی منع کر دیتی، عین بارات کے وقت غائب ہونے کا کیا جواز۔ کوئی کہتا اپنے وطن لوٹ گئی، تو کِسی نے عاشقی کا معاملہ بتایا۔ شمیم منہ بسورتی ہوئی بولی۔
السلام و علیکم امی جان! اسلم نے جھُک کر بڑی چوہدرانی کو سلام کیا۔ آ گیا میرا شیر؟ ماں کھلکھلا اُٹھی۔ تُجھے کتنی بار بولا ہے گھر جلدی لوٹ آیا کر، مگر تُو ہے کہ اُس بنجر زمین میں سے قارُون کا خزانہ نکال کر ہی دم لے گا۔ دو سال سے وہاں خیمہ لگائے بیٹھا ہے۔ امی میں بھی تو دیکھوں یہ زرخیز زمین اچانک سوُکھ کیسے گئی۔ گاؤں والوں کی مفلسی اب اور نہیں دیکھی جاتی۔ بی بی جی، خفا نا ہوں تو کُچھ عرض کروں؟ پاس کھڑی ملازمہ نے ادب سے التجا کی۔ بی بی جی نے ہامی میں سر ہلا دیا۔ مجھے تو وہاں جنات کا بسیرا لگتا ہے، وگرنہ جو زمین برسوں سے پورے گاؤں کا پیٹ پال رہی ہے، اچانک بے جان کیسے ہو گئی۔ ارے چُپ رہو ہم ایسی بے بُنیاد باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ کل ہی کلیکٹر صاحب کل ہی آ کر اُس زمین کا معائنہ کریں گے۔ شہر والوں کا خیال ہے دو سالوں سے بارش کی قلت اِس زمین کے بنجر ہونے کا سبب ہے۔ اگلے دن کلیکٹر کے آنے سے پہلے ہی پورا گاؤں اُس زمین پر موجود تھا۔ بڑی بی، اسلم کہیں دکھائی نہیں دے رہا؟ اصغر نے اُسے کہیں نا پا کر استفسار کیا۔ اُسے ہم نے کُچھ ضروری کاغذات لینے کو شہر بھیجا ہے۔ بڑی بی نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔ تمام گاؤں والوں کے چہرے سب ٹھیک ہو جانے کی اُمید سے دمک رہے تھے۔ چوہدرانی صاحبہ یہاں بھی پانی کے امکان نظر نہیں آ رہے، اب تو بس یہ اسلم صاحب کے خیمہ والی زمین ہی بچی ہے۔ اگر اجازت ہو تو اِس کو بھی کھود کر دیکھ لیں؟ ہاں کیوں نہیں کلیکٹر صاحب۔بس کُچھ بھی کریں اور اِس بنجر زمین کو ذرخیز بنائیں۔ بڑی چوہدرانی کا حُکم ملتے ہی کھودائی کا عمل تیزی سے شروع ہو گیا۔ کھودائی ابھی جاری ہی تھی کہ کھودائی والی مشین اپنے راستے میں آنے والی کِسی ٹھوس چیز کی وجہ سے رُک گئی۔ مزدوروں نے جب ہاتھ سے کھودائی کی تو پایا کہ مشین کے راستے میں دفن ایک صندوق اُس کے رُکنے کا باعث بنا۔ کلیکٹر صندوق لیے بڑی چوہدرانی اور اصغر کے پاس پہنچا۔ اجازت ملنے پر جب صندوق کھولا گیا تو اُس میں دُلہن کے لباس میں لپٹا ایک کنکال برآمد ہوا۔ یہ چُنری تو میری مرحوم بیوی سوفیا کی ہے۔ اصغر گھٹنوں کے بل صندوق کے بغل میں بے سُدھ بیٹھ گیا۔ کنکال باہر نکالنے پر چوہدرانی صاحبہ نے اپنے پہنائے ہوئے پشتینی زیورات بھی پہچان لیے۔ سارہ! یہ تو سارہ ہے، یہ یہاں کیسے! کنکال کی بندمُٹھی کھولنے پر ملنے والے ایک سونے کے بٹن نے اِس راز کا پردہ چاک کر دیا۔ ایسے سونے کے بٹن تو صرف اسلم ہی اپنی قمیضوں پر لگواتا ہے۔ اصغر نے بٹن کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ اِس سے پہلے کے گاؤں والے ازخود کِسی نتیجے پر پہنچتے، اسلم کی جِیپ وہاں آن پہنچی۔ وہ کنکال دیکھ کر سارا ماجرا سمجھ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ اب چھُپانے کا کوئی فائدہ نہیں ماموں جان مجھے معاف کر دیں۔ میں سارہ سے شادی کا خواہشمند تھا۔ جب اُسے دُلہن کے جوڑے میں دیکھا تو اپنے دِل کی بات زُبان پر لے آیا، مگر اُس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ مجھے بھائی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ مجھ سے یہ بات برداشت نا ہوئی، اور طیش میں میرا ہاتھ اُٹھ گیا۔ سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے اُس کی موت ہو گئی۔ سارہ نے آپ کی لاج رکھنے کی خاطر اپنی جان سے ہاتھ دھو لیا۔ ماموں جان میں بہت ڈر گیا تھا، میں جانتا تھا امی جان مجھے میرے کِیے پر سخت سے سخت سزا دیں گی۔ میں نے سارہ کی لاش کو کِسی طرح صندوق میں ڈال کر یہاں دفن کر دیا۔ سارہ کے ساتھ ساتھ اپنے اِس گُناہ کو بھی دفن کر دیا مگر میں بھول گیا تھا کہ خُدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ میں خود کو ابھی اِسی وقت آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ اُس کا یہ کہنا ہی تھا کہ کلیکٹر صاحب نے پانی مِل جانے کی نوید سُنا دی، مگر جو سیلاب گاؤں والوں اور چوہدرانی کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا، وہ اُس ملنے والے پانی سے کہیں زیادہ تھا۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Themes