چین  کی وحدت  وقت کا رجحان اور عوام کی امنگ ہے، چینی میڈ یا 

Published on January 21, 2024 by    ·(TOTAL VIEWS 40)      No Comments

بیجنگ (یو این پی)چین کے  تائیوان میں ہونے والے دو انتخابات کے نتائج کے مطابق  ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) کے امیدوار تائیوان خطے کے لیڈر منتخب ہوئے ہیں۔ تائیوان کے قانون ساز ادارے  کی 113 نشستوں میں سے 52 نشستیں کومنتانگ پارٹی، 51 ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی، 8 تائیوان پیپلز پارٹی اور 2 نشستیں  آزاد امیدوار وں نے جیتی ہیں۔ چینی میڈ یا کے مطا بق  ان نتائج سے یہ ظاہر ہوا  کہ ڈی پی پی تائوان  میں مرکزی دھارے کی رائے عامہ کی نمائندگی نہیں کر سکتی ، اور  اس بنیادی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی کہ دنیا میں صرف ایک چین ہے اور تائیوان چین کا ایک  حصہ ہے۔اس کے علاوہ یہ حقیقیت بھی ایک بار پھر ظاہر ہوئی کہ  بین الاقوامی برادری  میں ایک چین کے اصول کے  عمومی اتفاق رائے کو تبدیل نہیں  کیا جا سکتا اور   چین کی وحدت  کے رجحان کو  بھی کوئی نہیں روک سکتا ۔چین کے وزیر خارجہ وانگ  ای نے چند روز قبل کہا تھا کہ  کثیر تعداد میں ممالک نے  بین الاقوامی انصاف کا  ساتھ  دینے کا انتخاب  کیا ہے جو ایک درست فیصلہ  ہے اور یہ فیصلہ ان کے عوام کے بنیادی اور طویل مدتی مفادات کے عین مطابق ہیں۔ 15 جنوری کو ، نا ؤرو  کی حکومت نے ایک بیان جاری کیا جس میں ایک چین کے اصول کو تسلیم کرنے اور تائیوان  انتظامیہ کے ساتھ نام نہاد “سفارتی تعلقات” منقطع کرنے کا اعلان کیا گیا ۔اس ضمن میں  16 جنوری کو نا ؤرو  کی پارلیمنٹ نے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ جامع سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی۔ ڈی پی پی کے اقتدار میں آنے کے بعد تائیوان کے ساتھ نام نہاد “سفارتی” تعلقات منقطع کرنے والا یہ دسواں ملک ہے۔16 جنوری کو چین کے وزیر خارجہ وانگ  ای نے ٹوگو کا دورہ کیا اور ان کے استقبال کے لئے آئے ٹوگو کے وزیر خارجہ ڈیسی نے ہوائی اڈے پر وانگ ای سے ملاقات کے فورا بعد کہا کہ ٹوگو  ایک چین کے اصول پر سختی سے کاربند ہے اور تائیوان کے معاملے پر چینی حکومت کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔  انہوں نے کہا کہ ٹوگو  چین کی اقتدار اعلی  اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے  اس کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔تائیوان  علاقے  میں انتخابات کے نتائج کے اعلان کے فوراً  بعد پاکستان، روس، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، فلپائن، نیپال، جنوبی افریقہ، مصر، قازقستان، بیلاروس، ہنگری اور کیوبا سمیت تقریبا 60 ممالک کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم، عرب  لیگ اور افریقی یونین جیسی بین الاقوامی تنظیموں نے عوامی طور پر  ایک چین کے اصول کی پاسداری کا اعادہ کیا،  قومی اقتدار اعلی  اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لئے چین کی کوششوں کی بھرپور حمایت کی، “تائیوان کی علیحدگی  ” کی  کسی بھی قسم  کی مخالفت کی اور چین کی وحدت کے عظیم مقصد کی حمایت کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ  امور تائوان پر عالمی برادری کی بھاری اکثریت کا موقف خاصا واضح ہے۔  ایک چین کا اصول طویل عرصے سے بین الاقوامی برادری کا  عمومی اتفاق رائے بن چکا ہے جو  وقت کے رجحان  کی نمائندگی کرتا ہے۔حقیقت میں،  تائیوان کا  امور  پیچیدہ نہیں ہے، اور یہ  تاریخی سیاق و سباق  سے واضح ہے. 80 سال پہلے، چین، امریکہ اور برطانیہ نے “قاہرہ اعلامیہ” جاری کیا تھا، جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ” جاپان کی جانب سے  قبضہ کئےگئے چینی علاقے تائیوان کو چین کو واپس کیا جائے ۔ “اس کے بعد ، 1945 میں چین ، امریکہ ، برطانیہ اور سابق  سوویت یونین کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری کردہ “پوٹسڈیم اعلامیے  “کے آرٹیکل 8  کے مطابق بھی  “قاہرہ اعلامیے ”  کی شقوں پر عمل درآمد  کیا جانا تھا ۔ جاپان نے”  پوٹسڈیم اعلامیے ”  کو قبول کیا اور غیر مشروط  طور پر  ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا۔ 25 اکتوبر 1971 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے 26 ویں اجلاس میں ایک  قرارداد( 2758 )منظور کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت پورے چین کی نمائندگی کرنے والی واحد قانونی حکومت ہے اور تائیوان چین کی سرزمین کا ایک ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔ یوں  تائیوان کو چین کے ناقابل تنسیخ علاقے کے طور پر تاریخی اور قانونی بنیاد  اقوام متحدہ کی جانب سے بھی دے دی گئی ۔آبنائے  تائیوان کے دونوں اطراف ایک چین کے ہیں ۔  یہ چینی قوم کے لئے تاریخ کا ایک زخم ہے  لیکن یہ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتا کہ تائیوان چین کے علاقے کا ایک اٹوٹ   حصہ ہے۔ امریکہ اکثر تائیوان کے امور   پر سیاسی جوڑ توڑ  کر کے  چین  کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے اور  “دو چین” یا “ایک چین، ایک تائیوان”  کے تصور کو بنانے کی ناکام کوششوں  میں مصروف رہتا ہے۔  لیکن  یہ ایک ایسا عمل ہے جو تاریخی ترقی کے عمومی رجحان کے منافی ہے اور آج کی دنیا کے ترقی کے رجحان سے انتہائی متضاد ہ بھی  جو  یقیناً  ناکام ہی   ہو گا ۔تائیوان اور چائنیز  مین لینڈ کے ہم وطن ایک  خاندان  ہیں  ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ تائیوان کے کچھ ہم وطن “تائیوان کی علیحدگی  ” کے نظریے  میں اندھے ہونے اور  اس غلط فہمی سے باہر نکلیں گے اور ترقی کے راستوں کو دیکھنے اور  ہم وطنوں کے مخلص گرم جوش  اور  دوستانہ جذبات کو محسوس کرنے کے لئے    چائنیز مین لینڈ پر  کثرت سے  آئیں۔  کیوں کہ ہم  سب چینی ہیں اس لئے  آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں کے درمیان تبادلوں،  اور افہام و تفہیم کے گہرے ہونے سے خاندانی تعلقات  مزید مضبوط ہوں گے اور غلط فہمیوں کو شکست ہو گی ۔تائیوان میں استحکام اور امن کی خاطر اور خطے اور دنیا کی ہم آہنگی اور خوشحالی کے لئے  چین کی وحدت کو  بالآخر  ہونا ہے کیوں کہ  یہ وقت کا رحجان اور عوام کی خواہش ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Theme