آئی ڈی پیز ، فلسطین اور ہماری عید

Published on July 28, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 404)      No Comments

Akhtar Sardar
عید امیر اور غریب کے لیے یکساں خوشی کا پیغام لاتی ہے مگر موجودہ مہنگائی اور ملکی و عالمی خاص کر اسلامی ممالک کے حالات نے اور اسلامی ممالک کی ہی بے حسی نے عید کی خوشیاں ماند کر دی ہیں رہی سہی کسر لوڈ شیڈنگ نے پوری کر دی ہے ، دوسری جانب مہنگائی کو دیکھتے ہیں اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔اور شائد غربا کی آہیں اس سے اوپر جا پہنچی ہوں ۔ یہ ہمارے امرا وزیر ، ان کو کیا پتا کہ غربت کیا ہوتی ہے انہوں نے کبھی فاقہ کیا ہو تو پتہ ہو کبھی ذلت دیکھی ہو کہ جب بچے گھر میں بھوکے ہوں سارا دن کام نہ ملے دیہاڑی نہ ملے اوپر سے عید آجائے ۔ایک امیر نے میرے سامنے کل ایک غریب سے کہا اللہ تعالی چاہتا تو غربا کو خود نواز دیتا ۔اور
ؔ کل ایک بھوکے نے طنزیہ کہا مجھ سے ۔ تیرا خدا بھی امیروں کی طرح ٹالتا ہے
پاکستان میں 50 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اس کے علاوہ جو دیہاڑی دار ہیں ان کی عید کیسی ہو گئی وہ بچوں کو کیا عیدی دیں گئے ۔کہاں سے لائیں گے نئے کپڑے ،اس کے بچے کس حسرت سے اپنے ماں باپ کو دیکھتے ہوں گے تنخواہ دار طبقہ تو کسی نہ کسی طرح رو دھو کر بچوں کے لیے عید کا سامان کپڑے ،جوتے اور دیگر اشیائے پوری کر ہی لیتا ہے مگر وہ جو دیہاڑی دار ہیں ،جو بے روزگار ہیں یا خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ جو یتیم ہیں ان کی بابت حکومت نے سستے رمضان بازار لگائے یہاں دو باتوں کی وضاحت کرنی ہے ایک تو بازاروں میں واقع چینی سستی ہے ہمارے ہاں جو سستا رمضان بازار ہے وہاں ایک کلو چینی فی گاہک کو ملتی ہے وہ بھی اسے جو کوئی اور چیز بھی خریدے دوسری بات باقی اشیاء کی قیمتوں میں اتنا فرق نہیں ہے دوسری بات غربا کی زیادہ تعداد دیہات میں ہوتے ہیں مگر سستے رمضان بازار ایسے افراد کی پہنچ سے دور ہیں ۔ کتنے حیرت دکھ ،افسوس اور بے حسی کی بات ہے کہ دیگر ممالک میں غیر مسلموں کے تہواروں پر اشیائے خوردونوش انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں تاکہ ہر خاص و عام خوشیوں میں شریک ہو سکے غیر مسلموں کے تہوار مثلا کرسمس ،ہولی و دیوالی وغیرہ اور ایک ہم ہیں بقول علامہ اقبال جسے دیکھ کر شرمائیں یہود ۔عید پر منافع میں100 گنا اضافہ کر دیتے ہیں اور اشیائے خوردونوش کی ملاوٹ میں بھی ۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ۔ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں۔لوڈ شیڈنگ کے بارے میں کچھ لکھنا فضول ہے کہ اس نے کتنے لاکھ افراد کی یہ عید برباد کی ہوگی ۔کیونکہ لوڈشیڈنگ تو اب زندگی کا معمول بن گی ہے ،اب تو میڈیا میں بھی یہ خبر نہیں رہی اس نے کتنے گھر وں کے چولہے ٹھنڈے کیے ۔ اپنے پڑوس میں ایسے بہت سے گھر ایسے ہوں گے جن کو ۔ ؔ
ؔ نہیں معلوم خوشی ہے کیا چیز ؟ ۔ بس نام ہی سنتے آئے ہیں۔
ہمیں سوچنا چاہیے کیا ہم سے صرف ہماری نمازوں کا ہی سوال ہو گا ،صرف ہمارے روزوں کا سوال ہو گا ۔کیا مظلوم مسلمان،بے سہارا مسلمان،خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے وا لے غریب مسلمان،تیرے میرے ہمارے خاندان کے غربا جو مسکین ہیں ان کے بارے میں سوال نہیں ہو گا ۔مسکین کون ہوتا ہے وہ جس کے حالات انتہائی تنگ ہوں مگر وہ دست سوال دراز نہ کرے ۔ایسے افراد کے بارے میں ہم سے روز محشر سوال ہو گا ،
وہ جن کی ماں اس دنیا سے اٹھ گئی یا جس کا باپ نہ رہا ان کا غم کون جانتا ہے ،کون سمجھ سکتا ہے جس پر گزری ہی نہ ہو ،یتیم کا دکھ تو یتیم ہی سمجھ سکتا ہے مسکین کا مسکین ،جس کا باپ نہ ہو ،یا ماں نہ ہو یا وہ بہت غریب ہو ،بیروزگار ہو ، اسے کام نہ ملتا ہو ، معذور ہو کام نہ کر سکتا ،بوڑھے ہوں اولاد چھوڑ گئی ہو تنہا چھوڑ کر الگ ہو گئی ہو ،بیمار ہوں ،یا بستر مرگ پر ہوں ،اس کے گھر عید کیا خوشیاں لائے گی وہ عید کیسے منائیں گے یہ شعر بھی کس کرب سے کہا گیا ہو گا ۔
ؔ ؔ ؔ ؔ ؔ غریب ماں اپنے بچوں کوبڑے پیار سے یوں مناتی ہے ۔ پھر بنا لیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہر سال آتی ہے
دوسری طرف شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی عید کیسے گزرے گئی۔ ان کی بے بسی،حالت زار،بے گھر ہونا ، بے سہارا ہونا ،وہ جو ان کے سہارے ہیں کوئی سعودیہ ،کوئی امریکہ جا پہنچا ہے وہ کیسے عید کی خوشیاں منائیں گے ،آئی ڈی پیز کی عید کا تصور کریں وہ عید کیسے منائیں گے ،ایک بے گھر کی عید کیسی ہوتی ہے ،اللہ کا شکر ہے اس برے حالات میں ہماری آرمی کے بڑے آفیسروں نے ان کے ساتھ عید گزارنے کا اعلان کر دیا ہے اور عمران خان نے بھی ۔مگر کیا یہ صرف ان کی ہی ذمہ داری تھی ؟
پھر اس ماہ صیام میں عراق و شام ،بھارت و کشمیر ،برما و افغانستان اور فلسطین میں مسلمانوں کا خون بہتا رہا،عصمتیں لٹتی رہیں،قتل و غارت کا بازار گرم رہا اور غزہ میں جو قیامت اب تک برپا ہے اس پر مسلم امہ کی خاموشی ،اسرائیل کی سفاکیت،امریکہ کی بے حسی وغیرہ نے مل کر ان کی عید برباد کر دی ہے،اب عید قریب ہے دل خون کے آنسو رو رہا ہے غزہ میں عید اس دفعہ کیسی ہو گی ۔ اے مسلم اپنی عید کی خوشیاں منانے والے ذر ا سوچ ۔۔۔۔۔۔
ؔ بڑی انوکھی عید کی خریداری ہے فلسطین میں ۔ لوگ رو رو کر کفن خرید رہے ہیں پیاروں کے لیے
کاش مسلم امہ جاگ جاتی اور غزہ کی پکار سن لیتی غزہ ،اور شمالی وزیرستان کے مہاجرین کا دکھ بانٹ سکتی ۔اسی طرح ہمارے سیاست دان امریکہ اورسعودی کا دورہ کرنے کی بجائے شمالی وزیرستان کے مہاجرین کے ساتھ عید گزارتے ۔غزہ شمالی وزیرستان کے مہاجرین کو ہمیں اس عید پر یاد رکھنے کے ساتھ جو ہمارے عزیز غریب ہیں ، پڑوسی ،بوڑھے ،کمزور،یتیم،مسکین،بے روزگار ،بیوہ ،ہیں ان کو تو اپنی خوشیوں میں شامل کر نا چاہیے ۔ عیدکے دن خوشیاں مناتے وقت ہمیں غریب مسلمان بہن بھائیوں کو بھولنا نہیں چاہیے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Theme