قائد اعظم کا پاکستان

Published on August 18, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 382)      No Comments

khurram shahzad bhatti
تحریر ۔۔۔ محمد خرم شہزاد
جب14 اگست 1947 ء کو پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آیاپاکستان کی آزادی کوئی ایک دو دن یا مہینوں کی کا وشوں کا نتیجہ نہیں بلکہ مسلسل سالوں کے جذبے کی وجہ سے آج ہم پاکستانی کہلانے کے قابل ہوئے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں جانوں کی قر بانیاں دی اور اپنا سب کچھ وطن کے نام پر قر بان کیا۔ تب جا کر پاکستان میں رہنے کا حق حاصل ہوا۔اسلئے قا ئد اعظم نے بڑے فخر سے فرمایا:’’کہ پاکستان ہم نے صرف زمین کا ایک خطہ حا صل کر نے کے لئے نہیں بلکہ یہاں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے حاصل کیا‘‘لیکن افسوس صد افسوس آج پاکستان حا صل کرنے کا مقصد ہم بھول چکے ہیں ہم نے یہ بھی بھلا دیا کہ پاکستان کو امن کا گہوارہ مانا جاتا تھاکیوں کہ پاکستان کا مطلب ہی پاک سر زمین ہے جہاں امن و سکون سے رہ سکتے ہیں۔ مگر آج حالات اسکے بر عکس ہیں۔ لوگ امن و سکون کے نام سے بھی نا آشنا ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ماضی کے حکمران صرف ملکی مفاد کے علمبر دار ہوتے تھے جو اپنے مْلک کو چلانے اور بر قرار رکھنے کے لیے اپنی جان دینا جانتے تھے اور اپنا تن من دھن سب کچھ وار کر صرف ملک میں سلامتی چاہتے تھے قا ئد اعظم کی مثال ہمارے سامنے ہے آخری دنوں میں اْن کی طبعیت خراب تھی کہ اْنہیں ہسپتا ل میں داخل ہونا تھا مگر ملکی حالات کو نظر انداز نہیں بلکہ اپنی بیماری کو نظر انداز کیا۔ بیماری کے با وجود دن رات ملکی ترقی کے لیے بھر پور محنت کی صرف ایک جنون و جذبہ تھا کہ وہ پاکستان کو سب سے آگے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔یوں وہ ملک کو قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر طبیعت ساتھ نہ دے سکی اور وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ مگر قائد اعظم آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور اْن کی عزت و احترام قابلِ ستائش ہے۔ وہ عظیم رہنما نہیں جانتے تھے کہ ان کے بعد اس پاک سر زمین کا کیا حال ہوگا یہ تو کسی کے گمان میں نہ تھا کہ پاکستان کے حالات ایسے ہو جائیں گے کہ غیروں کی آنکھیں بھی ان مناظر پر اشکبار ہوئے بغیر نہیں رہیں گی۔کیوں کہ ملک پر ایسے حکمرانوں سیاستدانو ں وڈیرو ں کا قبضہ ہوگا جو صرف اپنا مفاد سو چتے ہونگے۔ ان کو ملک و قوم کے مفاد سے کوئی واسطہ نہیں۔ جنہیں یہ احساس نہ ہوگا کہ اس ملک میں آدھی سے زیا دہ عوام کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے روٹی نہیں تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا نہیں اور پینے کے لیے صاف پانی نہیں۔ روشنی کے لیے بجلی نہیں انہیں صرف اپنے آرام و آسائش کی فکر ہوتی ہے۔ وہ سیاستدان کیا جانے جو چند سیکنڈ اے سی کے بغیر نہیں گزار سکتے جن کے قدم زمین پر رکھنے سے پہلے سواری موجود ہو تی ہے۔ وہ کیا جانے مئی جون کی گرمی میں مزدور کیسے کام کرنے جاتا ہے اور آگے فیکٹریاں بجلی کی نا پیدگی کی وجہ سے بند ہو ں تو کیا گزرے گی غریب انسان پر جو صرف روز کی کمائی سے گزارہ کرتا ہے۔ نوبت فاقوں کی آجاتی ہے آج ہمارے حکمران یہ ضرور جانتے ہیں کہ فلاں چیز پر ٹیکس لگانے سے ان کو کتنا فائدہ ہو گا لیکن یہ نہیں جاننا چاہتے کے ایک ورکر کی آٹھ ہزار تنخواہ میں سے بجلی گیس اور پانی وغیرہ کا بل ادا کرنے کے بعد دو دن کا راشن خریدنے کے لیے بھی چند روپے نہیں بچتے۔ہمارے ملک کے سبھی سیاست دان اپنی سیاست چمکانے کے لئے سیاسی بیان تو دیتے ہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں مگر اقتدار میں آتے ہی غریب عوام کو سب بھول جاتے ہیں کہ شکلیں بدل جاتی ہیں مگر کردار سب کا ایک ہی ہو تا ہے کیا یہی ہے قائد اعظم کا پاکستان یہاں اس ملک میں امیر آدمی امیر سے امیر تر ہو رہا ہے اور غریب آدمی غریب سے غریب تر ہو رہا ہے اور جو فرد درمیانہ طبقہ یعنی کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے تو مڈل میں ہو نے کی وجہ سے وہ بیچارہ ڈبل مار کھا رہا ہے اپنی سفید پو شی کا بھرم بھی قائم رکھے ہو ئے اس مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے موجودہ حالات کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی ہے یوں تو ہمارے حکمران دن رات کوشش جاری رکھتے ہیں کہ بجلی کی لوڈ شیڈ نگ ختم ہو جائے اور اسکے چار جز میں اضافہ ہو جائے فرق صرف اتنا ہے کہ لوڈ شیڈنگ تو روزبروز ترقی یافتہ ہورہی ہے جہاں تک چارجز کی بات ہے وہ آئے دن ڈبل ہو جاتے ہیں۔ یہاں بھی چٹان کے نیچے آتا ہے غریب مزدور جس کی آٹھ ہزار تنخواہ میں چار پانچ ہزار بجلی کے بل کی نظر ہو جاتے ہیں۔ اسطرح باقی کے مسائل اسکے لیے تو عذاب سے کم نہیں۔ یوں وہ توصرف اپنے مسائل حل کر نے میں لگا رہتا ہے اور اسکا دھیان ملکی حالات پر جا ہی نہیں سکتا اور یہ ہی اصل کامیابی ہے موجودہ حکمرانوں کی کیونکہ عوام اپنے ہی مسائل میں بْری طرح پھنس چکی ہے اسلئے ان کی رائے نہ ہی کوئی اہمیت رکھتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس اتنا ٹائم ہے کہ وہ رائے دیں۔کیا یہ ذمہ داری ہے ہمارے حکمرانوں کی ! بات جب حکمرانوں کی آتی ہے ہے تو انکا جواب ہے کہ وہ پوری لگن سے کام کر رہے ہیں مگر مسئلے کا اصل حل کوشش نہیں بلکہ عملی اقدامات ہونے چاہیے اگر ہمارے قابل حکمرانوں میں ذرا سا بھی جذبہِ حب الوطنی پیدا ہو جائے تو میرا خیال نہیں کہ کسی بھی شعبے میں ناکامی ہوگی۔ اور بڑے سے بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے اول تو ہمارے ملک میں پانی کی اتنی کمی نہیں کہ ہم ملکی ضروریات کے لیے بجلی پیدا نہ کر سکے۔ بس ضرورت توجہ کی اگر ہم ایسی جگہوں پر ڈیم بنائیں جہاں پانی ضائع ہوتا ہے اور سیلاب کا باعث بن کر تباہی مچاتا ہے تو یہ محفوظ پانی نہ صرف ہماری ضرورت کو پورا کر سکتا ہے بلکہ بجلی کے مسئلے کو بھی حل کر سکتا ہے اور سیلاب ک تباہ کاریوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔کیوں نہیں بنائے گئے وہ ڈیم جو کالا باغ ڈیم اور منگلہ ڈیم وغیرہ کی بنیادیں رکھی گئیں تھیں۔حکمت بدل گئی تو کیا ضرورتیں بھی بدل گئیں چلو یہ بھی نہیں کر سکتے ہمارے حکمران کیوں کہ ان کے پاس بہت سی دلیل موجود ہوتی ہیں وسائل کی فراوانی کے حوالے سے پاکستان دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں پاکستان میں کوئلے کے ذخائر کی مالیت سعودی عرب، کویت اور ایران میں تیل کے مجموعی ذخائر سے زیادہ ہے مگر پھر بھی ہمارے ملک کی عوام غربت کے بوجھ تلے دبی ہو ئی ہے اور نہ جانے کب تک دبتی رہے گی۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes