ہجرت

Published on September 6, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 364)      No Comments

Shahidتارکین وطن کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں؟
جرمنی آج دنیا میں سب سے اہم امیگریشن ملک بن گیا ہے تاہم تارکین وطن کا پسندیدہ ملک امریکا ہے ،امریکا میں غیر قانونی طریقوں سے داخل ہونے کا واحد راستہ میکسیکو ہے جہاں سے سالانہ ہزاروں افراد خفیہ راستوں سے امریکا داخل ہوتے ہیں،میکسیکو سے چلنے والی مال بردار ٹرین کے ڈبوں میں بند ہو کر امریکا داخل ہونا غیر ملکیوں کیلئے ایک مشغلہ بن چکا ہے ،ہزاروں کلو میٹر طویل ،خطرناک اور رسک سے بھرپور اس سفر کی پہلی منزل امریکی ریاست ٹیکساس کا شہر سان انتونیو ہے ،کئی بار اس خفیہ طریقے سے امریکا داخل ہونے والے لاتعداد افراد مال بردار ڈبوں پر اترتے چڑھتے ٹرین کے نیچے آکر کچلے گئے ،یہ راستہ تارکین وطن کے لئے خطرے کی علامت بن چکا ہے لیکن لوگ پھر بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ خطرناک رسک مول لیتے ہیں۔
حالیہ برسوں دنیا بھر میں تارکین وطن کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے،کچھ لوگ خوفناک جنگوں ،پر تشدد واقعات سے کچھ ذریعہ معاش اور بہتر مستقبل و زندگی کیلئے اور کچھ اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کے توسط سے اپنے وطن سے فرار ہوئے،اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دو سو تیس میلین سے زائد غیر ملکی دنیا کے مختلف ممالک میں ہجرت کر چکے ہیں،تاریخ میں کبھی اتنے زیادہ افراد نے بیرون ممالک ہجرت نہیں کی جتنی آج ہے،ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ غیر ملکیوں کی منتقلی کا بہاؤ میکسیکن کا ہے جو کئی دہائیوں سے امریکا کا رخ کر رہے ہیں،ہزاروں کی تعدا د میں امریکن فوجی اور بورڈر پولیس سرحدوں پر تعینات ہونے کے باوجودلوگ خفیہ راستوں سے امریکا داخل ہو کر باون سٹیٹ میں کہیں نہ کہیں گم ہو جاتے ہیں،ایک اندازے کے مطابق آج امریکا میں تینتیس میلین میکسیکن رہائش پذیر ہیں ۔
جرمن تجزیہ کار کا کہنا ہے یورپ کے صنعتی ممالک میں بھی تارکین وطن کی تعداد ایک خوفناک صورت اختیار کر گئی ہے اور دنیا بھر میں غیر ملکیوں کا اضافہ تشویش کا باعث بن چکا ہے بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے افراد کا جنوب سے شمال نقل مکانی کا رحجان ایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور یورپین کمیونٹی میں خوف پیدا ہوچکا ہے،تجزیہ کار کا کہنا ہے غیر قانونی طور پر میکسیکو سے امریکا داخل ہونا زیادہ مشکل ہے لیکن یورپ کونٹینیٹ میں لوگ باآسانی داخل ہو جاتے ہیں گزشتہ سالوں کے دوران اٹلی میں جو حادثات پیش آئے اس سے تمام دنیا آگاہ ہے جہاں کئی ممالک کے افراد دوران ہجرت سمندر میں ڈوب گئے۔
اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ دو ہزار پانچ سے دو ہزار دس تک سترہ میلین لوگوں نے یورپین ممالک میں ہجرت کی اور دو ہزار دس سے دو ہزار پندرہ تک ان میں کمی واقع ہو گی،اعداد و شمار سے اندازا لگایا گیاکہ اب تک بارہ میلین لوگوں نے اپنے وطن کو خیرباد کہا اور آئندہ غیر ملکیوں کی تعداد میں مزید کمی ہو گی،محقیقین کا کہنا ہے بہ نسبت فرانس اور برطانیہ کے جرمنی میں ترقی پذیر ممالک کے تارکین وطن کی تعداد کم ہے جس کی تاریخی وجوہات ہیں کہ فرانس اور برطانیہ نے گزشتہ دہائیوں میں چند افریقی ممالک ، کیریبین ممالک اور ہندوستان میں حکومت کی اور اسی وجہ سے ان ممالک کے باشندوں کو فرانس یا برطانیہ داخل ہونے پر زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا،یہ لوگ ان ممالک میں پہلے سے قیام پذیر دوستوں اور رشتہ داروں کی بدولت باآسانی رہائش رکھ سکتے ہیں نئے آنے والے تارکین وطن کو ان ممالک میں مشورہ اور تحفظ مل جاتا ہے ،چونکہ انیس سو اٹھارہ کے بعد جرمنی کی کوئی کالونی نہیں تھی اس لئے جرمنی میں داخل ہونے والے صرف یورپین ہیں تاہم گزشتہ سالوں سے جرمنی دنیا میں تارکین وطن کیلئے اہم امیگریشن ملک بن گیا ہے،دنیا کے انڈسٹریل ممالک کی فہرست میں امریکا کے بعد جرمنی دوسرا صنعتی ملک ہے یہاں ذریعہ معاش کے مواقعات باآسانی میسر ہو جاتے ہیں اسلئے تارکین وطن جرمنی کا رخ کرتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد انیس سو پچاس تک جرمنی میں تارکین وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن انیس سو پچپن میں اقتصادی ترقی میں اضافہ ہونے کے سبب حکومت نے اٹلی سے لیبرز پالیسی کا معاہدہ کیا اور اس پالیسی کو ’’ مہمان کارکن ‘‘ کا نام دیا،پانچ سال بعد سپین اور یونان سے بھی یہی معاہدہ ہوا،انیس سو اکسٹھ میں ترکی ،انیس سو تریسٹھ میں مراکش ،انیس سو چونسٹھ میں پرتگال ،انیس سو پینسٹھ میں تیونس اور انیس سو اڑسٹھ میں سابقہ یوگوسلاویہ سے لیبرز معاہدے کئے ،ان ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن ’’ مہمان کارکن ‘‘ کی عمریں بیس سے چالیس سال کے درمیان تھیں ان مہمان کارکنان کا جرمنی کی ترقی میں بہت بڑا ہاتھ ہے،محنت مشقت کے کام کے علاوہ اضافی رات کی ڈیوٹی وغیرہ کیں،زیادہ تعداد میں فوجیوں کی پرانی بیرکوں میں رہائش پذیر تھے معاہدہ ختم ہونے اور پیسہ کمانے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹ گئے،اس زمانے میں کسی غیر ملکی کو نجی کاروبار کرنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ شہریت دی جاتی۔
انیس سو پچپن اور انیس سو تہتر کے دوران تقریباًچودہ میلین تارکین وطن جرمنی آئے اور اسی دوران گیارہ میلین اپنے وطن لوٹے،انیس سو اکہتر کے بعد ترکوں نے اپنے قدم جمالئے ،اس وقت کی برسر اقتدار سیاسی پارٹی ایس پی ڈی کے چانسلر ولی برانڈت نے اگر چہ مہمان کارکنان معاہدوں کو ختم کردیا اور تمام سر کاری و غیر سرکاری معاہدے کرنے پر پابندی بھی لگا دی لیکن اس کے باوجود تارکین وطن کا غیر قانونی طور پر داخلے کو نہ روک سکے جرمنی کے ہمسایہ ممالک سے لوگ بذریعہ ایجنٹ داخل ہوتے رہے جو کہ آج تک جاری ہے۔
حکومتیں تبدیل ہوئیں نئے قوانین لاگو ہوئے انسانی حقوق اور بالخصوص فیملی قوانین میں نرمی آئی ان تمام سہولتوں سے ترکوں نے فائدہ اٹھایا اور آج تین میلین سے زائد ترکی یہاں رہائش پذیر ہیں،انیس سو ستر سے تیس سال تک جرمنی نے کسی ملک سے کوئی معاہدہ نہیں کیا لیکن جب بوڑھے اور ریٹائرڈ افراد کی دیکھ بھال اور انجیئرنگ عہدوں میں مشکلات پیش آئیں تو روزگار ایجنسیز نے دوبارہ غیر ملکیوں کی طرف توجہ دینا شروع کیا،چین، ہندوستان اور پاکستان تک سے آئی ٹی سپیشلسٹ بلوائے گئے ۔
آج جرمنی میں پولینڈ ، رومانیہ ،بلغاریہ، البانیہ اور دیگر ترقی پذیر اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے علاوہ افریقی تارکین وطن کی آمد ویسے ہے جیسے ساٹھ کی دہائی میں اٹالین ،یونانی اور ترکوں کی تھی،ترکوں کے بعد پولینڈ کے باشندوں کا دوسرا بڑا گروپ جرمنی رہائش پذیر ہے،یہ ان تارکین وطن کے اعداد و شمار تھے جو گزشتہ دہائیوں میں جرمنی قانونی یا غیر قانونی داخل ہوئے لیکن ایک بات زیر غور بلکہ قابل ذکر ہے کہ صرف غیر ملکی ہی نہیں جرمنی میں داخل ہوئے بلکہ جرمن باشندے بھی اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے ممالک ہجرت کر گئے ،دیگر غیر ملکیوں کی طرح جرمنوں کا خواب بھی امریکا ہے ،رپورٹ کے مطابق آج امریکا میں چھ لاکھ اسی ہزار جرمن رہائش پذیر ہیں دوسرے نمبر پر سوئیزر لینڈ ہے جہاں جرمن بخوشی رہنا چاہتے ہیں اور سوئس باشندے جرمنی کی بجائے فرانس یا اٹلی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک دوسرے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکا یا مغربی ممالک میں تارکین وطن کی آمد کے علاوہ ایشیا میں بھی ہجرت کرنے والوں کی نقل و حرکت واضح طور پر قابل ذکر ہے،ستر کی دہائی میں لاکھوں بنگلا دیشی بوجہ جنگ ہندوستان ہجرت کر گئے ،آج ہندوستان میں بنگالیوں کی تعداد تین میلین سے زائد ہے ،دوسری طرف مڈل ایسٹ کے صنعتی ممالک بالخصوص سعودی عرب ، دوبئی ،ابو ظہبی اور قطر میں چھ میلین سے زائد ہندوستانی ، پاکستانی اور بنگلا دیشی رہائش پذیر ہیں اور اکثریت مہمان کارکن کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں ،رپورٹ کے مطابق دنیا کا کوئی ایسا ملک نہی جہاں ہر رنگ و نسل کا باشندہ موجود ہو جتنا یو اے ای میں ہے ۔
موجودہ دور میں ترقی پذیر ممالک کا کوئی ایسا فرد نہیں جو ہجرت نہ کرنا چاہتا ہوگزشتہ سالوں میں ترقی یافتہ ممالک پر تارکین وطن نے یلغار کی ، خاص طور پر ایشیا اور افریقہ کے باشندے یورپ میں پھیل چکے ہیں اورہجرت کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress主题