حج اور ہجرت سے بھی سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

Published on October 13, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 475)      No Comments

\"Haj\"
 عبدالرحمن بن شماسہ المہری کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے تو وہ ( سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ ) بہت دیر تک روئے اور اپنا منہ دیوار کی طرف پھیر لیا تو ان کے بیٹے کہنے لگے کہ اے ہمارے والد ! آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ خوشخبری نہیں دی، یہ خوشخبری نہیں دی؟ تب انہوں نے اپنا منہ سامنے کیا اور کہا کہ سب باتوں میں افضل ہم اس بات کی گواہی دینے کو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور میرے اوپر تین حال گزرے ہیں۔ ایک حال یہ تھا کہ جو میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ میں کسی کو برا نہیں جانتا تھا اور مجھے آرزو تھی کہ کسی طرح میں قابو پاؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( معاذاللہ ) قتل کر دوں پھر اگر میں اسی حال میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔ دوسرا حال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے ( اسلام پر ) بیعت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اس وقت اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرو ! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں ایک شرط کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کونسی شرط؟ میں نے کہا کہ یہ شرط کہ میرے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے ( جو میں نے اب تک کئے ہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرو ! تو نہیں جانتا ہے اسلام پہلے تمام گناہوں کو گرا دیتا ہے اور اسی طرح ہجرت پہلے گناہوں کو گرا دیتی ہے۔ اسی طرح حج تمام پیشتر گناہوں کو گرا دیتا ہے۔ پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی سے محبت نہ تھی اور نہ میری نگاہ میں آپ سے زیادہ کسی کی شان تھی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال کی وجہ سے آپ کو آنکھ بھر کر نہ دیکھ سکتا تھا۔ اور اگر کوئی مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کے بارے میں پوچھے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکتا تھا اور اگر میں اس حال میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا اس کے بعد چند اور چیزوں میں ہمیں پھنسنا پڑا۔ میں نہیں جانتا کہ ان کی وجہ سے میرا کیا حال ہو گا۔ تو جب میں مر جاؤں تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی رونے چلانے والی نہ ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنا تو مجھ پر اچھی طرح مٹی ڈال دینا اور میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کاٹا جاتا ہے اور اس کا گوشت بانٹا جاتا ہے تاکہ تم سے میرا دل بہلے ( اور میں تنہائی میں گھبرا نہ جاؤں ) اور دیکھ لوں کہ میں پروردگار کے وکیلوں ( فرشتوں ) کو کیا جواب دیتا ہوں۔
مختصر صحیح مسلم
64 :

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog