بلا عنوان کالم

Published on September 27, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 432)      No Comments

Yasin Sid
دنیا کے کسی ملک میں بھی جمہوریت نہیں ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سب جمہوری کہلانا چاہتے ہیں ۔ وہ بھی ڈنڈے کے زور پرآپ اقوام متحدہ کو ہی دیکھ لیں وہاں پانچ ممالک کو ویٹو کا حق دیا گیا ہے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا یہ جمہوریت ہے ۔دنیا میں جہاں مکمل جمہوریت ہے (مان لیں ان کے پاس ڈنڈا بھی ہے) ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اسے کامل جمہوریت کہا جاتا ہے (جو خود کو جمہوریت کے چیمپین کہتے ہیں ان کا اسرار ہے کہ اسے حقیقی جمہوریت کہا جائے)۔ کامل جمہوریت کے بعد دوسری قسم کی جمہوریت میں کچھ پہلو جمہوری اورکچھ آمرانہ ہوتے ہیں ۔ایسی جمہوریت اکثر ممالک میں رائج ہے اسے ناقص جمہوریت کہتے ہیں(ان کے پاس جو ڈنڈا ہے ذرہ چھوٹا ہو گا) ۔اس کے بعد تیسری قسم جمہوریت وہ ہے جس کا ناقص جمہوریت سے بھی نچلا درجہ ہے یہاں الیکشن تو ہوتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں سیاسی بادشاہت قائم ہو جاتی ہے۔جمہوریت جوکچھ عوام کو دینا چاہتی ہے وہ عوام تک نہیں پہنچتا ۔ ایسی جمہوریت پاکستان میں ہے اور بہت سے دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں بھی قائم ہے ۔( پوری دنیا میں جمہوریت کا نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے لیکن اس سے جن کے مٖفادات وابستہ ہیں وہ اسے قائم رکھنا چاہتے ہیں اسے سب سے بہترین نظام حکومت کہا جاتا ہے کہنے والے طاقت ور ہیں اس لیے وہ درست ہیں کہتے ہیں) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند دن سے میں نے سب(رہنماوں ،اینکر ز،صحافیوں ،سیاست دانوں خاص کر فیس بکی دانشوروں وغیرہ ) کو سچا مان کر (بقول ان کے) ان کی تقاریریں سنی ہیں تحریریں پڑھیں ہیں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں اور اس پر یقین کر لیا ہے کہ ہمارے سبھی رہنماء ()اسلام ،وطن ، مخلوق خدا سے پیار کرنے والے ہیں ، عوام کے لیے غربا کے لیے ،اسلام کے لیے جہدو جہد کر رہے ہیں ، اصل میں یہ سب عقل مند ہیں، (معاف کرنا عقل کل ہیں،جینیئس ہیں)،ہیرو ہیں، سب سے بڑے عالم ہیں،سیاست داں ہیں، وطن سے محبت کرنے والے ہیں،سچے ہیں،کرپٹ نہیں ہیں،سب سیاست میں خدمت کے لیے وطن کی محبت میں اسلام کے نفاذ کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں
دنیا سے دور ہو گیا ،دین کا نہیں رہا اس آگاہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا آ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئین پاکستان میںِ 40سے زیادہ آرٹیکل پاکستانی عوام کے بہترین حقوق کے طورپر قرآن وسنت کی روشنی میں شامل ہیں لیکن ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے آج کے دن تک ان پرعمل درآمد نہیں کیااور موجودہ انقلاب مارچ اورآزادی مارچ عوام کے حقوق پر غاصبانہ قبصہ کرنے والوں کے خلاف ایک ریکارڈ ساز احتجاج ہے ،اگر یہ سب کچھ عوام کو مل رہا ہوتا تو ان مارچوں کی نوبت ہی نہ آتی،احتجاج اسی وقت ہوتا ہے جب کوئی چیز کسی سے چھن گئی ہو یا چھن رہی ہو،حکمرانوں نے آ ئین کو ڈی ریل کرکے عوام کے حقوق چھنے ہیں ، اور کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت ڈی ریل ہو رہی ہے ،جمہوریت کو آئین تو انھوں نے خود ڈی ریل کر رکھا ہے۔، یہ حکمران نئے نہیں ہیں پہلے کئی دفعہ اقتدار میں آچکے ہیں سوائے محرومیوں،قرضوں کا بوجھ ،دہشت گردی،عدم تحفظ اور لاقانونیت کے ملک وقوم کو کیا دیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے شوشل میڈیاپر ایک دلچسپ آرٹیکل پڑھا آپ کی نظر۔ ایک بینک میں ڈاکو گھس آئے۔ چلا کر کہنے لگے \”سارے نیچے لیٹ جاو ، پیسے تو حکومت کے ہیں جان تمہاری اپنی ہے\” اور سب نیچے لیٹ گئے ایک خاتون کے لیٹنے کا انداز ذرا میعوب تھا۔ ایک ڈاکو نے چلا کر کہا \”تمیز سے لیٹو ڈکٹتی ہورہی ہے عصمت دری نہیں \” ڈکیتی کے بعد جب ڈاکو واپس لوٹے تو ایک ڈاکو نے جو کہ انتہائی پڑھا لکھا ہوا تھا بڑے ڈاکو سے جو کہ صرف چھ جماعتیں پاس تھا پوچھا\” کتنا مال ہاتھ آٰیا\”۔ بڑے ڈاکو نے کہا \”تم بڑے ہی بیوقوف ہو اتنی زیادہ رقم ہے ہم کیسے گن سکتے ہیں ،ٹی وی کی خبروں سے خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کتنی رقم ہے \” ڈاکووں کے جانے کے بعد بینک مینجر نے بینک سپروائزر کو کہا کہ پولیس کو جلدی سے فون کرو !! سپروائزر بولا \”انتظار کریں ،پہلے اپنے لیے 10 ملین ڈالر نکال لیں اور پھر جو پچھلا ہم نے 70 ملین ڈالر کا غبن مارا ہے اس کو بھی ڈکیتی شدہ رقم میں ڈال لیں\” اگلے دن میڈیا پر خبر چلی کہ بینک میں 100 ملین ڈالر کی ڈکیتی ہوئی ہے۔ اصل ڈاکووں نے رقم گننی شروع کی ،بار بار گنی لیکن وہ صرف 20 ملین ڈالر نکلی۔ ڈاکو اپنا سر پیٹنے لگے کہ ہم نے اپنی جان موت کے خطرے میں ڈالی اور ہمارے ہاتھ صرف بیس ملین اور بینک مینجر صرف انگلی کے اشارے سے 80 ملین لے گیا !! ڈاکو ہونے سے تو بہتر تھا کہ ہم پڑھ لکھ جاتے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری قوم کی اکثریت نظریہ ساز ش کی جھوٹی تھیوری کا شکار ہو چکی ہے بلکہ پیروکار ہو چکی ہے۔ سازش ہو رہی ہے، سازش کی گی ہے جیسے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے فرائض سے فرار ہونے کے لیے ایک آسان راستہ ۔ پوری قوم میں سے چند افراد ملیں گے جو اس نظریہ سازش کے قائل نہیں ہیں ۔نظریہ سازش اصل میں بے ایمانی،خود غرضی سے پروان چڑھتا ہے ۔اس نظریے کی برکت سے اس نظریے کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے اپنی ناکامی ،کوتاہی،کمزوری،لاپرواہی،بے عملی،ذہنی پسماندگی کو مخالف ،دشمن،دوسرے (خفیہ،نامعلوم،کسی اور طاقت،ملک، تیسرے فرد )کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بچایا جاتا ہے ۔یہ ایک بیماری ہے جس میں ہماری قوم ان پڑھ جاہل،پڑھے لکھے جاہل،اسمبلیوں میں بیٹھے چارہ گر،اور ہمارے دانش ور اخبار نویس،صحافی ،اینکر پرسن کی اکثریت (میں نے اکثریت کا لفظ استعمال کیا ہے)مبتلا ہیں۔یہ کالم کیسا لگا اپنی رائے ای میل کریں

Readers Comments (0)




Weboy

Premium WordPress Themes