پولیو

Published on October 1, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 950)      No Comments

Lala-300x195
گذشتہ ماہ میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے دنیا بھر میں پولیو کی صورتحال پر مبنی رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش کردی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں رواں سال اب تک پولیو کے 178 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے صرف پاکستان میں 166 کیسز سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھی میں پولیو سے متاثرہ ہر 10 میں سے 9 بچوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائرکٹر جنرل نے اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ پاکستان نے گذشتہ سال کے دوران انسدادِ پولیو کی کوششوں میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ڈائرکٹر جنرل نے رواں سال پاکستان میں سامنے آنیوالی ناکام انسدادِ پولیو مہم کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کیلئے ہنگامی سطح پر اقدامات پر زور دیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر نے پاکستان کے شمالی وزیرستان، پشاور اور کراچی کے علاقوں کو مینشن کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ علاقوں میں بچوں کو پولیو سے متاثر ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں بھارت، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کو پولیو سے پاک ممالک قرار دیا گیا اور نائیجیریا میں انسدادِ پولیو کے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا گیا کہ نائیجیریا بھی پولیو کے مکمل خاتمے کے قریب ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ میں پاکستان سے وائرس کے انسداد کے لئے پاک فوج کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاک فوج کی کوششوں سے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے بچوں کو بھی پولیو کے قطرے پلائے جارہے ہیں جس کے باعث 12 ماہ کے دوران پاکستان میں وائرس کے خاتمے میں بہتری آئی ہے۔ ایک محبِ وطن پاکستانی ہونے کے ناطے، مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ رواں سال میں پولیو وائرس کو پاکستان کے بیرونِ ملک جانیوالے مسافروں کے ذریعے پھیلنے سے روکنے کیلئے مئی 2014 میں سفری پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔

ستمبر کے آخری عشرے کے آغاز میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں پولیو کے سدّباب کیلئے حکمت عملی کیلئے وزیرِ اعظم کے زیرِ صدارت منعقدہ قومی اجلاس میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ پولیو کے خاتمے کو یقینی نہ بنایا گیا تو پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کا مقصد حاصل کرنے کیلئے باہم ملکر کوششیں کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ وہ پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جہاں کوئی بچہ پولیو کا شکار نہ ہو۔ وزارت قومی صحت نے وزیراعظم کو نیشنل پولیو ایمرجنسی ایکشن پلان پر بریفنگ دی۔ وزیر اعظم نے پولیو کے خاتمے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی۔ اس اجلاس میں وزیراعظم نے پولیو ٹیمز کو سیکورٹی فراہم کرنے کی ہدایت دی اور مزید کہا کہ انسداد پولیو کے حوالے سے لاپرواہی برداشت نہیں کرینگے۔ قومی حکمت عملی کے تحت قبائلی علاقوں میں پولیو مہم کی ذمہ داری سیکورٹی فورسز کے سپرد کر دی گئی ہے اور کراچی و ملک کے دیگر حصوں میں انسدادِ پولیو ٹیمز کی سکیوریٹی پولیس اور رینجرز کے سپرد کی گئی۔

ایک رپورٹ کے مطابق رواں ماہ میں کراچی سمیت ملک بھر میں پولیو کے مزید 10 کیسز سامنے آگئے ہیں جس کے بعد ملک میں پولیوکیسز کی تعداد 176 ہوگئی ہے اور وزارتِ صحت کے ذرائع کے مطابق کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن سے 2 ، فاٹا سے 6 اور خیبرپختونخوا سے پولیو کے 2  کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد پولیو کیسز کی تعداد 184 ہوگئی، گڈاپ ٹاؤن کی یوسی 4 موسیٰ مارکیٹ کی ایک سالہ بچی اور گڈاپ ٹاؤن کی 25 ماہ کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد کراچی میں پولیو کیسز کی تعداد 16، اندرون سندھ سے ایک، فاٹا سے 127، پنجاب سے 2 اور بلوچستان سے 5 کیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔

سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے 29 ستمبر سے تین روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے دوران سندھ کے دیگر شہروں میں 88 لاکھ بچوں کو جبکہ کراچی میں 22 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔ میڈیکل سروسز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفر اعجاز کے مطابق چھ ہزار سے زائد پولیو ورکرز کی ٹیمیں گھر گھر جاکر قطرے پلائیں گی۔ ڈاکٹر ظفر اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ جن علاقوں میں پولیس کی جانب سے سیکیورٹی فراہم کی جائیگی وہاں مہم جاری رہے گی۔

بلوچستان میں بھی انسدادِ پولیو کی اس مہم کے دوران قلعہ عبداللہ اور پشین کے علاوہ 27 اضلاع میں 14 لاکھ 35 ہزار سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے  قطرے پلائے جائیں گے۔ ان دونوں اضلاع (قلعہ عبداللہ اور پشین ) میں ویکسینیشن مہم اکتوبر کےوسط میں چلائی جائے گی ۔ انسداد پولیو مہم کے دوران 6 ماہ سے زائد عمر کے بچوں کو وٹامن اے کے قطرے بھی پلائے جائیں گے۔

خیبرپختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور اور اس کے گرد ونواح میں 27 ستمبر بروز ہفتہ کو پولیو سے بچاؤ کی ایک روزہ مہم کا انعقاد کیا گیا جس کا ہدف پانچ سال تک کی عمر کے سات لاکھ 54 ہزار بچوں کو پولیو کے وائرس سے بچائو کے حفاظتی قطرے پلانا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس مہم کے دوران انسداد پولیو کی چار ہزار چار سو ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جنہوں نے گھر گھر جا کر بچوں کو قطرے پلائے۔ پولیو کے خاتمے کے سرکاری پروگرام کے ایک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر رحیم خٹک نے غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کو حفاظتی انتظامات کے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دیگر اضلاع میں یہ مہم تین دن کی ہوتی ہے لیکن پشاور میں سکیوریٹی کی صورتحال کو مدّنظر رکھتے ہوئے پشاور میں یہ مہم ایک روز کے لیے منعقد کی گئی  اور سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور انسداد پولیو کی ٹیموں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ پشاور کے ڈپٹی کمشنز ظہیر الاسلام کے بیان کے مطابق انسدادِ پولیو مہم کی سکیوریٹی کیلئے پولیس کے 5700 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے جب کہ کئی علاقوں میں اس مقصد خصوصی چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں۔ اس مہم کے دوران پشاور کی 97 یونین کونسلز میں بچوں کو اس موذی وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے۔

موجودہ حکومت ان تمام تر کوششوں کے باوجود پولیو وائرس کے پھیلائو پر قابو پانے میں ناکام ہوتی نظر آتی ہے۔ اس معاملے میں حکومت کی ناکامی کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ انسداد پولیو کی ٹیموں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملے ہیں۔ رواں ماہ میں بھی انسدادِ پولیو ٹیمز پر ہلاکت خیز حملے ہوئے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ باجوڑ ایجنسی کے علاقے ڈمہ ڈولہ میں پیش آیا، جہاں انسداد پولیو مہم کے تحت ہیلتھ ورکرز بچوں کو قطرے پلانے میں مصروف تھے اور مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کردی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں پولیو ٹیم کے دو ممبرز سمیت ان کی سیکیورٹی پر مامور لیویز کا ایک اہلکار بھی ہلاک ہوگیا۔

مئورخہ 29 ستمبر بروز ہفتے کو کراچی شہر کے حساس علاقوں سرجانی، گڈاپ، لانڈھی اور بلدیہ ٹاؤن میں 3 روزہ انسداد پولیومہم شروع کی گئی۔ کئی علاقوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کے بروقت نہ پہنچنے کی وجہ سے انسدادی مہم بدنظمی کا شکار رہی۔ گڈاپ اور سرجانی کے علاقوں میں انسدادِ پولیو مہم کی ٹیمز کے لیے پولیس ٹیمیں تشکیل نہیں دی جاسکیں جس پر ان علاقوں کی کئی یونین کونسلوں میں انسدادی مہم مئوخر کردی گئی۔ نارتھ کراچی میں انسداد پولیو رضاکاروں نے تحفظ اور معاوضے کی عدم ادائیگی پر احتجاج کیا ہے۔ اسکے علاوہ بھی گذشتہ انسدادِ پولیو مہم میں بھی بہت سے ہیلتھ ورکرز اور سکیوریٹی اہلکاروں پر دہشتگردوں کی طرف سے جان لیوا حملے کیے گئے، جن کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں۔ انسدادِ پولیو ٹیمز کی کوششوں کے باوجود پولیو کے مزید کیسز سامنے آنے کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ قبائلی اور دور دراز کے علاقہ جات کے اکثر بچے پولیو سے حفاظتی ویکسینیشن سے محروم رہتے ہیں۔

پاکستان میں انسدادِ پولیو مہم کے لیے مختلف ممالک اور این جی اوز کی جانب سے فنڈز بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کی زیرِ صدارت ہونیوالے اجلاس میں میاں نواز شریف نے وفاقی و صوبائی اعلٰی حکومتی ارکان کو بتایا کہ دبئی اور متحدہ امارات بھی پاکستان میں پولیو کے خاتمے کیلئے فنڈز کی پیشکش کرہے ہیں۔ سعودی عرب نے بھی گذشتہ دنوں پاکستان کو بڑی مقدار میں پولیو ویکسینز فراہم کی تھیں۔ اسکے علاوہ دیگر ترقی یافتہ ممالک اور مختلف این جی اوز بھی صوبائی اور ملکی سطح پر پاکستان میں انسدادِ پولیو کیلئے فنڈز فراہم کرہی ہیں۔

پاکستان میں بڑھتے ہوئے پولیو وائرس سے متاثرہ کیسز کی اس صورتحال میں ماہرین صحت متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر انسداد پولیو کی مہم تواتر سے جاری نہ رکھی گئی تو پاکستان سے پولیو کے خاتمے کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔ پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے ایک اعلٰی عہدیدار نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ ان کی‌ٹیم نے دیگر متعلقہ اداروں اور حکومت کے ساتھ مل کر آئندہ نو سے بارہ ماہ کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس کا ہدف یہ ہوگا کہ سال 2015ء کے اواخر تک پولیو کا کوئی نیا کیس پاکستان میں رونما نہ ہو۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Premium WordPress Themes