کراچی کب تک جلتا رہے گا؟

Published on November 7, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 323)      No Comments

Maqsood
راقم ان برسوں کی بات کر رہا ہے جب بین الاقوامی شہر کراچی ایک پرسکون خطہ تھا۔اس روشنیوں کے شہر میں ہر شخص سکھ کا سانس لے رہا تھا اور زندگی کی ہر ایک نعمت سے لطف اندوز ہو رہا تھا اس شہر میں رات کے پچھلے پہر دکانیں کھلی رہتیں اور ٹی سٹالوں ہوٹلوں اور تفریحی مقامات پر بلاخوف و خطر گھوم پھر رہے ہوتے۔راقم خود بھی کراچی میں ان دنوں اپنی پوسٹنگ کے دوران رات گئے تک کلفٹن کے ساحل پر سمندر کی لہروں سے محظوظ ہوا کرتا تھا اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جو کہ ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ۔کلفٹن پر موجود رونق افروز جلوؤں سے دل کو بہلاتا ۔کمال یہ تھا کہ مختلف طبقات میں ذرا بھر بھی تفریق نہ تھی اتحاد و یگانگت کا پیکر کراچی شہر جس کو انہونی نے آن لیا اپنے اندر لاکھوں بے روز گاروں کو سموئے بیٹھا ہے ۔قائد اعظم کا یہ شہر جہاں کاروباری زندگیاں اتنی مصروف تھیں کہ سر کھجانے کو وقت نہ تھا آج ویرانی کی تصویر بن کر رہ گیا ہے نہ جانے کس بد کی نظر لگ گئی ہے کہ امن و سکون نام کی اب کوئی بھی چیز نظر نہیں آتی ۔عزت و آبرو کی حفاظت کا امین یہ شہر کشت و خون کی ہولی کھیل رہا ہے ۔یہ شہر جہاں مہمانوں پر محبتوں کے پھول نچھاور کرائے جاتے تھے وہاں اب کبھی کبھی شعلے اگلے جاتے ہیں سڑکوں بازاروں گلی کوچوں میں ایک عجب سا خوف گشت کرتا ہے ۔اپنے بھائیوں کو اپنے ہی ہاتھوں ذبح کر کے دشمنوں کو خوش کیا جا رہا ہے ۔اس غیر یقینی حالت سے بین الاقوامی شہرت کے حامل شہر کراچی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔خوف کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص گھر سے باہر نکلتے ہوئے سہما سہما اور ڈرا ڈرا سا لگتا ہے۔جگہ جگہ پولیس کی گاڑیاں اور چوکیاں براجمان ہیں پولیس شہر کے مصروف علاقوں میں گشت کرتی ہونظر آتی ہے۔گاڑیوں کی چیکنگ کا سلسلہ بعض اوقات چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے جسے لوگ پریشانی تصور کرتے ہیں ۔پاکستان پولیس کی یہ مجبوری بن گئی ہے ان اقدامات کے باوجود بھی دہشت گرد نہتے شہریوں پر فائرنگ کرتے ہوئے گلی کوچوں میں گھس جاتے ہیں۔پولیس اپنی جگہ پریشان ہے کہ نقاب پوش دہشت گردوں کا سراغ نہیں ملتا شہری اپنی جگہ احتجاج کرتے ہیں کہ ان کے مال و جان کو کوئی تحفظ نہیں ہے ۔ظالم دہشت گرد بلا امتیاز اپنی کاروائیوں میں مصروف ہیں ۔انہیں احساس تک نہیں کہ وہ معصوم بچوں بے گناہ عورتوں اور شریف شہریوں کو کشت و خون میں نہلا رہے ہیں وہ بے خوف و خطر اپنا مشن پورا کرتے پھر رہے ہیں نہ ہی آج تک وہ پولیس کی زد میں آئے ہیں اور نہ ہی آج تک کسی شہری نے بد کردار اور بے غیرت کو پکڑنے میں انتظامیہ کی مدد کی ہے۔لگتا ہے مرنے والے اور مارنے والے بھی اپنے ہی دیس کے باسی ہیں ۔مارنے والے اگر اپنے نہیں ہیں تو ان کو کسی بڑے بدکردار کی پشت پناہی ضرور حاصل ہے ورنہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آج تک کسی ایک مجرم کو بھی نہ پکڑا جا سکے ۔
شہریوں کو امید تھی کہ کشت و خون کا یہ طویل کھیل جمہوری حکومت کی تشکیل کے فوری بعد ختم ہو جائے گا ۔مگر صد افسوس کہ صورتحال ابھی تک جوں کی توں ہے ۔شو مئی قسمت کہ ابھی تک ہمارے سیاستدان بھی اس شہر بے کراں میں امن و امان قائم کرنے میں کوئی خاص کردار ادا نہ کر پائے ہیں۔مارشل لاء کی باقیات پر حملوں کے سوا ہماری کوئی ایسی عملی کاوش نہیں ہے جس سے یہ اندازہ کیا جا سکے کہ اس خونی کھیل کو اگلے چند دنوں میں ختم کیا جاسکے گا۔کراچی کے فسادات اور خونی تصادم کے واقعات کا اثر صرف کراچی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے پورا ملک سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے لرز کر رہ جاتا ہے کراچی پاکستان کا دل ہے اقتصادی شہ رگ ہے ۔یہاں بین الاقوامی بندر گاہ ہے اور پورے ملک کی سپلائی کے لیے یہ ایک اعصابی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے یہاں ہلکی سی بد امنی بھی ملکی معیشت اور مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہے۔۔
کراچی سے خارج ہونے والے لسانیت کے زہر نے پورے صوبہ کو آلودہ کر دیا ہے ۔کہیں سندھی ،پنجابیوں سے بر سر پیکار ہیں تو کہیں مہاجر سندھیوں سے محاذ ارائی پر تلے ہوئے ہیں ۔پہلے پہل کراچی سے پختون مہاجروں کی زیادتیوں کے خلاف آوازیں بلند کرتے نظر آتے ہیں دوسرے صوبوں کے شہری ابھی تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ مظلوم کون ہے کس کی مدد کی جائے اور کس سے باز پرس کے لیے کہا جائے۔ جبکہ ہر طبقہ خود کو مظلوم ثابت کرتا ہے اگر یہ سب طبقے مظلوم ہیں تو پھر مجرم کون ہے کہاں ہے؟ اس کو کون ڈھونڈے گا ،اس کا سراغ کہاں ملے گا؟ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر سوائے رونے دھونے اور زبانی جمع خرچ کرنے کے اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔۔جمہوری قوتیں اتنی کمزور ہیں کہ ابھی تک وہ بھی سنبھل نہ پائی ہیں ۔آپس کے تفرقات نے ان کو اپنے ہی مسائل میں الجھا رکھا ہے ۔
صحافی تجزیہ نگار اور دانشور اپنی اپنی لکھے جارہے ہیں ۔کسی کے خیال میں کراچی میں دوسرے صوبوں سے آنے والے افراد کا غیر معمولی بوجھ ہے اور کسی کے خیال میں صورتحال کی خرابی کا سبب فیوڈل طبقہ ہے۔اگر صحافت کے ایک طبقے کا خیال اس دگرگوں صورتحال کا سبب مہاجروں کی احساس محرومی ہے تو دوسرے طبقے کا خیال یہ ہے کہ مہاجر پختون اور پنجابی سندھیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ۔حکومت کی بھی یہ مجبوری ہے کہ وہ کسی طبقے کو مورد الزام نہ ٹھہرائے اور دوسرے کی بیجا ہمدردی نہ کرے ۔ہماری اس چپقلش سے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو بے حدو حساب فائدہ پہنچ رہا ہے۔لیکن ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنا نقصان خود اپنے ہاتھوں سے کرنے میں مصروف ہیں۔ہماری ہٹ دھرمی نے ہمیں 1971ء میں بھی رسوا کیا تھا ور اب پھر ہماری یہ مجبوری بنتی جا رہی ہے کہ لسانی تحریکو ں کی بھر مار اور لسانی بنیاد پر آپس میں جنگ و جدل سمجھ میں نہیں آتا ۔آخر کیوں؟ہم تو ایسے نبی آخر الزمان کی امت ہیں جس نے ہمیں چودہ صد برس پیشتر بتا دیا تھا کہ نہ گورے کو کالے پراور نہ عجمی کو عربی پر برتری حاصل ہے پھر ہم کیسے مسلمان ہیں کہ آپس میں لسانی،گروہی،علاقائی اور مذہبی تنازعوں کے سبب دست و گریبان ہو رہے ہیں ہم وہ دن بھول چکے ہیں جب ہم ہندو بنیوں کے غلام تھے ۔چند رپوؤں کے قرضوں کے عوض عزت و آبرو قرق ہو جایا کرتی تھی ۔آزادانہ مذہبی رسوم ادا کرنے پر قدغن تھی۔۔سرکاری محکموں میں مسلمانوں کو چپڑاسی یا کلرک سے بڑا عہدہ نصیب نہ ہوا کرتا تھا ۔ہر طرف ہندو کی اجارہ داری تھی اب جبکہ ہم کو رب العزت نے ہر نعمت سے مالا مال کررکھا ہے۔مہاجر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔سندھی جا گیردار ہمارے حکمران ہیں بلوچی اور پختون اعلیٰ سیاستدان ہیں پنجابی کارخانہ داراور زمیندار کو ایسی صورت میں آپس میں نفرتوں کی دیواریں اونچی کرنا اپنے بھائیوں کو دشمن اور ازلی دشمنوں کو دوست سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے اور یہ کیسی مسلمانی ہے کہ ایک بھائی دوسرے کی جان کا درپے ہو۔خدارا ہوش میں آؤ اپنے دشمنوں کو پہچانو جو ہم بھائیوں میں نفرت کی دیواریں کھڑی کر کے آپس میں دست و گریبان کروا رہا ہے ۔ہندو کی دوستی کو دوستی نہ سمجھ بیٹھو ۔ہندو کی دوستی ایک میٹھا زہر ہے جو آہستہ آہستہ ہماری ہی نہیں ہمارے ملک پاکستان کی رگوں میں اثر کر جائیگا۔ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بظاہر مسلمان ہے مگر اندر سے کافر سے بھی بد تر ہے۔جس کی فطرت میں ہی ملک دشمنی ہے۔ یہ طبقہ دراصل احساس محرومی میں مبتلا طبقے کو ورغلا تا ہے اور امن و امان میں خلل پیدا کر کے ہمارے دشمنوں کے مذموم عزائم کی تکمیل کرنے میں مصروف ہے۔ان بدکرداروں کو پاکستان کی سا لمیت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ان کو تو چند ٹکوں کی ضرورت ہے ان کو تو اپنے دوستوں اور پاکستان کے ازلی دشمنوں کو ہر حال میں خوش کرنا ہے ۔ان ملک دشمن عناصر کو کیا معلوم کہ ان کے فعل بد سے ملک کو کیانقصان پہنچ رہا ہے۔بھائی کشت و خون میں کیوں نہا رہا ہے۔معصوم بچیوں کی عصمتیں کیوں لٹ رہی ہیں۔ان کو تو صرف اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا ہیں
ہر پاکستانی کو حق حاصل ہے کہ وہ ملک کے جس کونے میں چاہے جا سکتا ہے کاروبار کر سکتا ہے۔اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔ اسی میں ہماری بہتری اور فلاح ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes