کیوں بھیگا بھیگا سا یہ د سمبر ہے

Published on December 28, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 404)      No Comments

Untitlediyiyi
انسانوں کو آزمائش میں ڈالنے والے اے میرے پروردگار ہمیں اس آزمائش سے بچا ہمیں سیدھا راستہ دکھا اور ہمارے ملک کی حفاظت فرما امین
اے دسمبر اب کے برس تم یوں آنا اس شہر ِ تمنا کی خبر لانا، جس میں چاند ستارے مسکراتے ہوں جس میں پھول ہر وقت گنگناتے ہوں ، جہاں تتلیاں مسکراتی ہوں جہاں فضا میں رنگوں کی برسات ہو ،
اے دسمبر اب کے برس ہمیں یوں نہ رولانا، اس زمین کو یوں نا خون میں نہلانا ، ہر طرف اداسی کا رقص نہ ہو ، محبت برف جیسی نہ ہو ، اے دسمبر اس سے پہلے کے وقت گزرجائے ، ہمارے پیارے ہم سے بچھڑ جائیں تم پھر اسطرح لوٹ کے مت آنا
اے دسمبر تم اب کے برس آؤ تو یوں آنا . . . . . . جہاں دھڑکن بے خودی کے نغمے گاتی ہوجہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہو ، جہاں بلبل چہچہاتی ہوں ہر طرف محبت کی برسات ہو، جہاں رشتوں کا احترام ہو ،جہاں دلربا سا احساس بھی ہو، جہاں ہوائیں نغمے گاتی ہوں ، دسمبر خوشی اور غم کا ملا جلا احساس کا نام ہے جس سال نو امیدیں ، نئے جذبوں کے چراغ روشن کرتا ہے اسی طرح گزرنے والا دل غمزدہ کردیتا ہے دسمبر میں سرد و برفیلی ہواؤں کے ساتھ اداسی کا رقص بھی جاری رہتا ہے دسمبر کی سرد یخ بستہ صبحیں، دھند میں لپٹی شامیں ،کہر میں ڈوبتی ٹھٹھرتی طویل راتیں ہمارے احساسات کو بھی سرد کر دیتی ہیں وقت دبے پاؤں گزر جاتا ہے اور ہمیں محسوس نہیں ہوتا دسمبر میں اداس شامیں ، دل چیرتی تنہائی ، ہر طرف چھائی ویرانی ، ٹوٹے ہوئے خواب کی کرچیاں آنکھوں میں چبھنے لگتی ہیں تھکن سے چور پم امنے پیاروں سے بچھڑنے کا غم مناتے ہیں اے خدا کوئی مہینہ ایسا نہ آئے کوئی دن ایسا نہ آئے اللہ ایسی قوم پرعذاب کیوں نہ لائے تو کیا احمقوں کی بارش کرے جو اللہ کی نافرمانی میں حد سے گزرنے والے حکمرانوں کی تعریف میں آسمان کے قلابے ملادیتے ہیں ہم سب کہنے کو تو مسلمان ہیں اور دعویٰ بھی بہت کرتے ہیں مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو عوام و خواص تو کیا حکمران بھی بغلیں جھانکنے لگ جاتے ہیں ایک عام انسان سے لیکر اربابِ اختیار تک تمام لوگ اللہ کی فافرمانی میں سرگرم ہیں ایسے میں یہ حالت تو مکافاتِ عمل ہے اگر پاکستا نی قوم ایک بیدار قوم ہوتی تو ان حکمرانوں کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہم لوگوں کو ااور ان کا اور خود اپنا احتساب کرنا چاہیے
زندگی کی حقیقت کیا ہے . . . . . ؟ زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ تربیت ،موت کیا ہے ان ہی عناصر کا پریشان ہونا جہاں ہماری سوتی جاگتی آنکھیں خواب دیکھتی ہیں اچھے خواب ، برُے خواب مگر خواب پورے نہیں ہوتے ہیں ہر سال کی طرح ہم اپنی امیدیں اس سے جوڑ لیتے ہیں2014 کا سورج اپنے دامن میں انگنت د,کھ ، لا تعداد آہیں, بیشمار آنسو, سمیٹے رخصت ہورہا ہے پچھلے دنوں موجودہ صدی کا ہولناک واقع رونما ہو جس نے انسانیت کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں ایسا سانحہ جس کی گونج کافی عرصے تک کانوں میں گونجتی رہے گی سانحہ پشاور پر ہر آنکھ اشکبار ہے ہر دل دکھی ہے ہر ماں تڑپ رہی ہے ان سفاک قاتلوں نے کس بے دردی سے ا نسانی جانوں کوضائع کیا ہے کتنے خاندانوں کو نہ مٹنے والے زخم دیے ہیں انسانیت کا قتل کیا ہے
؂ ہوسکے تو پوچھے کوئے روٹھ کے جانے والوں سے روشنیوں کو میرے گھر کا راستہ کون دکھا ئے گا
ہم ایک ساتھ رہتے ہیں ہنستے ہیں روتے ہیں ، کھیلتے ہیں کھاتے ہیں اور کوئی ہم سے ہماری قیمتی متاح چھین لے ہم سے کوئی اچانک جدا ہوجائے تو اُسکا غم بھلائے نہیں بھولتا ٹھٹھرتی سرد راتوں میں سلگتی تنہائی کے ہمراہ جب اپنوں کی جدائی تکلیف سیتی ہے تو دل بند ہونے لگیا ہے سانس رکنے لگتی ہیں آس پاس حبس بڑھ جاتا ہے تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا بلکہ اُسے تاریخ سیاہ بخت ترین دن کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا اس دن پاکستان کو صدی کا عظیم ترین ناقابلِ تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا جس میں کتنے خاندانوں کے چراغ لقمہ اجل بنادیے گئے نہ جانے کتنے ہیں جو اپنے جسموں اور روح پر ان گنت زخم ہیں ، اس میں کتنے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پیاروں کو اپنے سامنے دم توڑتے دیکھا ہے ، مگر جن پہ گزرتی ہے وہی اصل تکلیف جانتا ہے وہ ہی ان زخموں کا اندانہ لگا سکتا ہے جو ان کے روح پر لگے ہیں اس سانحہ میں کتنے خاندانوں کا نقصان ہوا ہے ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ، دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم جانوں کا قتل ، دشمنان وطن کو ختم کرنے کے لیے ہم پر جوش ہیں مگر پھر وہی بات کہ ہم حادثہ یا سانحہ کے منتظر کیوں رہتے ہیں ان مسئلوں کا علاج کیوں نہیں کرتے ؟ ؂ حرف آنکھوں کے تو مٹ ہی چکے ہیں بہت شدید زخم ہیں یارب میرے وجود کے
کتنی ہی خوشیاں ، مسرتیں ساتھ ہی کچھ دکھ اور غم دے کر زندگی کا ایک سال اور اختتام پذیر ہورہا ہے نئے سال کے آغاز میں ہر دفعہ کی طرح ہم کتنے سپنے بُن ڈالتے ہیں ، کچھ عہد پیماں کرتے ہیں ، ہر سال ہم یہی کرتے ہیں سالِ گزشتہ پر نظر ڈالیں تو ہم نے آغاز پر کیا کیا. . . . ؟ اور اختتام پر کیا کیا . . . . .؟اس سال بھی جرائم و قتل و غارت گری میں بے پناہ اضافہ ہوا خونی وارداتیں عروج پر ہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ اخبارات میں قتل و اقدامِ قتل کی وارداتوں کا ذکر نہ ہو گزشتہ سال بھی ملک میں مہنگائی ، امن و امان بے روزگاری ، کرپشن ، رشوت ، بے ایمانی جیسے ناسوروں نے ملک کوکھوکھلا کردیا ہے اب اس تکلیف کے ساتھ کچھ غم اور جوڑ گئے ہیں جن میں معصوم بچوں کی اذیت ناک شہادتیں ، تھر میں غذائی قلت کے سبب معصوم بچوں کی ہلاکت اور ان بے حس حکمرانوں کی بے حسی ہر حساس انسان کو غمزدہ کردیتی ہے دھرنوں ، ریلیوں ، ہڑتالوں ،جلسے ، جلوسوں نے زندگی سے جیسے جینے کی امنگ ہی چھین لی ہے کوئی بھی حکومت ایسی نہیں آئی جس کے لیے ہم یہ کہہ سکیں کہ اس نے یہ اچھا کام کیا ہے ہو ، ہر کام میں حکو متوں کی بے حسی افسوس ناک ہے کسی نے بھی کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا سب نے اپنے مفادات کے لیے کام کیا بیشک اس سال موت کی آغوش میں بہت سے لوگ ہم سے بچھڑ گئے ہمیں تنہا چھوڑ گئے زندگی نے جینے کی امنگ چھین لی ہے، گزرتے سال کا ڈوبتا ہوا سورج ہمیں ملال میں مبتلا کررہا ہے ، ، دن ہفتوں ، سال مہینوں میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں ،عوام امید کے دئیے جلائے امتظار کی سولی پر چڑھی رہتی ہے ، شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؂ خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک گزر جائے گی یہ رُت بھی ذرا حوصلہ رکھنا
عوا م بیچاری بس اسی شعر پر عمل کر رہے ہیں اور امید و انتظار کے چراغ جلائے بیٹھے ہیں کوئی خفیہ ہاتھ ہمارے بچوں سے قلم چھین رہا ہے کون لوگ ہیں جو آج کے نوجوان کے ہاتھ میں قلم کی جگہ کلاشنکوف دیکھناچا ہتے ہیں مذہب کے نام سے انھیں گمراہ کررہے ہیں آج کے نوجوان کو بیروزگاری اکا تحفہ دے کر نشہ کا عادی بنایا جارہا ہے انھیں گمراہیوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے دوسری طرف معیاری تعلیم کا فقدان ہے تعلیم کا گراف دن بدن گرتا جارہا ہے تعلیمی میدان میں اگر پرائیویٹ سیکٹر نہ ہوتا تو شاید آج ہم تعلیمی شعبوں میں بہت پسماندہ ہوتے ہماری ریاست لگتا ہے تعلیم کی ذمہ داریوں سے خود کو بری الذمہ کررہی ہے ہزارہ ٹاؤن واقع ہو یا واہگہ بارڈر، سانحہ پشارو ہو یا ایرپورٹ سب واقع میں ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس سال موت کو زندگی کا رابطہ ختم کرنے کے لیے نئے نئے بہانے ملے مگر ہمارے بے حس منصب بے حس ہی رہے ان میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی نہ آئے گی ؂ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہوتو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے 2014 بھی گزر گیا اور اپنے ساتھ یادیں چھوڑ گیا امن و امان کی فضا گزرے سالوں کی طرح اس سال بھی خراب ہی رہی اب بھی اس ملک کی سڑکوں پر سرِ عام خواتین کے پرس ، زیور، گاڑی، موبائل فون چھیننا عام سی بات ہوگئی ہے اس سال سیاسی بنیادوں پر بھی قتل ہوئے ،ٹارگیٹ کلنگ بھی عام ہوگئی ہے کوئی اس سے محفوظ نہیں ہے ڈاکٹر ہو یا ٹیچر ، پولیس اہلکار ہو یا عام آدمی یہاں کوئی محفوظ نہیں ہے ملکی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ کوئی تو ہے جو پاکستان میں امن و امان نہیں رکھنا چاہتا کوئی تو ہے جو یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کے نوجوان ترقی پسند بنیں دشمن تو یہ چاہتا ہے کہ یہاں فرقے زبان، مذہب کی بنیادوں پر قتل ہوں قتل ایک شخص کا نہیں ہوتا بلکہ اس شخص کے بچوں کا ہوتا ہے ان کے گھروالوں کا ہوتا ہے سب کے مستقبل کا ہوتا ہے یہاں مجرمکیفر کردار تک نہیں پہنچ پاتے، کیونکہ یہاں قانون کا احترام نہیں ہےآج لوگ کہتے ہیں کہ قانون تو بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں یقیناً وہ لوگ گھا ٹے میں رہیں گے کیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے آج ان قوموں کا حشر دیکھ لو جنھوں نے اللہ کے قانون کو للکارا ہے انکا انجام ہمارے لیے سبقآموز ہے ہم ان کی غلطیاں نہ دھرائیں بلکہ ان سے سبق حا صل کریں اپنی اصلاح کریں تاکہ ہماری نسلیں سدھر سکیں اور ایک مضبوط معاشرہ قائم ہو اتحاد و یکجہتی قائم ہو اور عوام کا سکھ چین ہی حکومت کی اولین ترجیح ہو ،یہاں ہر طرف زندگی خوون سے لتھڑی ہوئی ہے سانس ہر ظلم میں جکڑی ہوئی ہیں موتچپکے سے کبھی آئی نہ تھی اور اب آئی مگر بکھری ہوئی ،ظلمتوں کے چار سو پہرے لگے تھ ا مگر اب ہوگئی کتنی بوجھل یہ پیار کی نگری ہماری مملکت، خداداد ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے جو لاکھوں شہیدوں کے خون سے غداری کی طرف مائل ہو کر یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ اس کہ بنیادوں میں کتنی بیٹیوں کی عصمتیں ان کے سہاگ دفن ہیں
؂ ایسے چپ چاپ ہی مرجاتے ہیں لوگ یہاں کہ ان کو دفنانے کی زحمت بھی اُٹھا نا نہیں پڑتی
اللہ پاکستان کے میں بد نظمی پیدا کرنے والوں کو نیک ہدایت عطا کرے ، پاکستان کو سلامت رکھے خدا کرے نیا سال ہمارے دامن میں امن اور خوشیوں کے پھول بھر دے ، جس کی خوشبو سے پوری دنیا مہکتی رہے آؤ امید کی شمعیں جلائیں اس نئے سال میں ، دعا ہے نیا سال خوشبو بھرا ثابت ہو پاکستان کو اللہ اپنی حفا ظت میں رکھے اے خدا دکھ کی پرچھائی کالی گھٹا ہٹا دے خوشیوں کا سورج طلوع کر اے میرے مالک غم کے لمحوں کو ڈھانپ دے امید ہے آنے والا سال بہترین ثابت ہو گزرے ہوئے لمحات کو بھول کر ہم نیک تمناؤں ، اور امید کے ساتھ امن کی مثال قائم کریں آئیں مل جل کر ایک اچھے سال کا آغاز کریں ہمیں مسکراتا ہوا نیا سال ملے نہ غم کسی کے پاس آئے نہ چہرہ کسی کا اداس ہوئے ، اس سے پہلے کہ وقت گزرجائے ، شام ڈھل جائے ، یہ گھڑیاں یہ لمحے یہ موسم بدل جائیں کوئی اپنا ہم سے بچھڑ جائے ابھی بھی سنبھال جائیں ان لمحوں کو قید کر لیں کہیں یہ لمحے ہاتھ سے پھسل نہ جائیں ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں ایک اور نیا سال ملا ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہیے، برائی سے توبہ کریں ، اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگیں ، ہمیں ایک اور سنہری موقع ملا ہے ، وقت کا پنچھی اپنی مٹھی میں قید کر لیں ڈھیر ساری خوشیاں سمیٹیں ڈھیر ساری نیکیاں سمیٹیں ، تاکہ دین و دنیا میں سرخرو ہوجائیں

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Theme