بہاریہ مکئی کی کاشت

Published on February 1, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 1,566)      No Comments

index
تحریر: بابر لطیف بلوچ
مکئی اپنی پیداواری صلا حیت کی وجہ سے غلہ دار اجناس میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان میں گندم اور چاول کے بعد رقبہ کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر کاشت ہونے والی فصل ہے جبکہ فی ایکڑ اوسط پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے۔ مکئی کی سال میں دو کامیاب فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ ایک موسم خریف اور دوسری موسم بہار میں جس سے نہ صرف مکئی کی مجموعی پیداوار میں اضافہ بلکہ جانوروں کے استعمال کیلئے غلہ کی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ بہاریہ موسم میں مکئی کی ترقی دادہ سنتھیٹک اور دوغلی (ہائبرڈ) اقسام کی کاشت سے حاصل ہونے والی جنس کو آئندہ موسم میں کاشت کی جانے والی مکئی کیلئے بیج کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ بہاریہ موسم میں مکئی کا کاشت کا رجحان عام کاشتکاروں کی نسبت تر ترقی پسند کاشتکاروں میں زیادہ پایا جاتا ہے اور مکئی کی مختلف اقسام کے کھیت دور دور ہونے کی وجہ سے ناخالص بیج پیدا ہونے کا احتمال نہیں رہتا اور بیج خالص پیدا ہوتا ہے کیونکہ خالص بیج حاصل کرنے کے لیے مکئی کی ایک قسم کے چاروں طرف کم از کم تین تین ایکڑ تک کوئی دوسری قسم موجود نہیں ہونی چاہیے۔
بہاریہ مکئی کی کاشت کیلئے مناسب زمین کا انتخاب، تیاری اور مکئی نشوونما کیلئے ضروری اجزاء کی زمین میں موجودگی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مکئی کی کا شت کے لیے بھاری میرا زمین جو پا نی کو بخوبی جذب کرسکے اور اس کی پی ایچ 7.5 کے قریب ہو، نہا یت موزو ں ہے۔ ایسی زمین جس میں برسیم یا آلو کاشت کئے گئے ہوں وہاں مکئی کی فصل بہتر نشوونما پاتی ہے۔ کلراٹھی، ریتلی اور سیم زدہ زمین کے علاوہ ایسی زمین جس کی پی ایچ 8.0 سے زائد ہو مکئی کی کاشت کے لیے موزوں نہیں ہے۔ زمین کی تیاری برداشت کی گئی سابقہ فصل کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنی چاہیے۔ اگر مکئی آلوؤں والے کھیتوں میں کاشت کرنی ہو تو پھر اس میں دو تین مرتبہ ہل چلا کر سہاگہ دیا جائے کیونکہ یہ زمین پہلے ہی نرم اور بھربھری ہوتی ہے۔ لیکن اگر سورج مکھی جیسی فصل کا وڈھ موجود ہو تو روٹا ویٹر ضرور چلاکرمڈھوں کی تلف کی جائے۔ اِس کے بعد پھر دوتین مر تبہ ہل چلا کر سہا گہ دیں تاکہ زمین نرم اور بھربھری ہوجائے۔ روٹا ویٹر کی عدم دستیابی کی صورت میں ایک مرتبہ مٹی پلٹنے والا ہل چلایا جائے اور سابقہ فصل کی باقیات کو اکٹھا اکٹھا کرکے ایندھن کے طور پر استعمال کرلیا جائے۔ بارانی علاقوں میں بہاریہ مکئی اور دیگر فصلات کی کاشت کا انحصار بارش اور قدرتی وتر پر ہوتا ہے اس لئے مکئی کی کاشت کیلئے مناسب وتر کا انتخاب کیا جائے۔جبکہ آبپاش علاقوں میں زمین کی راؤنی کرکے مکئی کی بجائی کے لیے دو تین مرتبہ عام ہل چلا کر زمین تیار کی جائے۔ مکئی کی اچھی پیداوار لینے کے لیے کھیت کا ہموار ہونا ضروری ہے تاکہ بارش / آبپاشی کی صورت میں پانی سارے کھیت میں یکساں دستیاب ہو۔
زرعی زمینوں میں نامیاتی مادہ کی کمی پائی جاتی ہے جسے پورا کرنے کیلئے زمین کی تیاری کے بعد 10 سے 12 ٹن فی ایکڑ گوبر کی کھاد کھیت میں یکساں طور پر ڈالی جائے تو نامیاتی مادہ کی کمی پر قابو پانے کے علاوہ فصل کی بہتر پیداوار بھی لی جاسکتی ہے۔ کیمیائی کھادوں کی مقدار زمین میں موجود نامیاتی مادوں، زمین کی زرخیزی، مکئی کاشت کی جانے والی قسم اور دیگر عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کی جائے۔ مکئی کی سنتھیٹک اقسام کے لیے تقریباً 6 بوری ایس ایس پی، ڈیڑھ بوری سلفیٹ آف پوٹاش اور آدھی بوری یوریا جبکہ دوغلی اقسام یعنی ہائبرڈ کے لیے تقریباً ساڑھے6 بوری ایس ایس پی، دوبوری سلفیٹ آف پوٹاش اور ایک بوری یوریا فی ایکڑ استعمال کی جائے۔ مکئی کی فی ایکڑ زیادہ پیداوار کیلئے زمین کی تیاری کے علاوہ طریقہ کاشت اور مناسب شرح بیج بہت اہم ہیں۔ مکئی کی ڈرل یا پلانٹر کے ساتھ کاشت کی صورت میں 12 سے 15 کلو گرام فی ایکڑ جبکہ وٹوں پر کاشت کیلئے 8 سے 10 کلو گرام بیج کا ایک ایک دانہ مناسب فاصلہ پر لگاکر پانی اس طرح لگایا جائے کہ وٹوں پر نہ چڑھے۔
بہاریہ مکئی کی کاشت اور سنبھال موسمی مکئی کی نسبت آسان اور منافع بخش ہے۔ بہاریہ مکئی کی بروقت کاشت فی ایکڑ زیادہ پیداوار کے حصول کو ممکن بنتی ہے اور کاشت کا مناسب وقت 15 جنوری تا فروری ہے کیونکہ اگر موسم زیادہ دیر تک گرم رہے اور بارشیں بھی کم ہوں تو دیر سے کاشت کی گئی مکئی پھول نکلتے وقت گرمی کی زد میں آنے سے ضیائی تالیف کا عمل متاثر ہوتا ہے جس سے پیداوار میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ صرف وہی فصل کامیاب رہتی ہے جو وقت پر کاشت کی گئی ہو۔ ایک ہی کھیت میں بار بار مکئی کاشت کرنے سے فصل میں اگنے والی جڑی بوٹیاں مستقل حیثیت اختیار کر جاتی ہیں اور ان کا انسداد مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے مکئی کی کاشت کیلئے کھیتوں میں ادل بدل کیا جائے تاکہ جڑی بوٹیوں کا آسانی کے ساتھ تدارک ہوسکے اور مکئی کی فی ایکڑ زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکے کیونکہ جڑی بوٹیاں 20 سے 45 فیصد تک پیداوار کم کر دیتی ہیں اور بعض اوقات جڑی بوٹیاں اگر بہتات میں ہوں اور بروقت انسدا د نہ ہوسکے تو اس سے زیادہ بھی نقصان ہو سکتا ہے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Weboy