پودے آلودگی پر قابو پانے کا ایک قدرتی ذریعہ بھی ہیں جواد اکرم

Published on February 23, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 501)      No Comments

unnamed 23-2-2015
وہاڑی (یواین پی) ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر جواد اکرم نے کہا ہے کہ پودے آکسیجن پیدا کرنے کی قدرتی فیکٹریاں ہونے کے ساتھ ساتھ آلودگی پر قابو پانے کا ایک قدرتی ذریعہ بھی ہیں درخت ماحول کو خوشگوار رکھنے کے علاوہ انسانی ضروریات کے لیے سایہ فراہم کرتے ہوئے ایندھن اور عمارتی لکڑی کی فراہمی کا بھی ذریعہ ہیں یہ بات انہوں نے اپنے کمیٹی روم میں موسم بہار کی شجرکاری مہم کے جائزہ کے لیے بلائے گئے اجلاس اور بعدا زاں موسم بہار کی شجرکاری مہم کا افتتاح کرتے ہوئے کہی اجلاس میں ای ڈی او زراعت شہزاد صابر ، ڈی او فاریسٹ طارق محمود ، ڈی او زراعت علیم رضا زیدی ،ڈی ایس پی راجہ شاہد نذیر ، ڈی ایس پی ہیڈکوارٹر مظہر حسین وٹو، پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج وہاڑی رانا محمد یعقوب اور ڈیگر افسران شریک تھے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر جواد اکرم نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ہونہار طلبا و طالبات ، بہترین کھلاڑیوں اور اتھلیٹس سے پودے منسوب کرتے ہوئے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان بچوں کو سونپی جائے تاکہ بچوں میں بھی پودے لگانے اور ان کی دیکھ بھال کا شعور پید اہو انہوں نے کہا درخت لگانے کی نسبت درخت کاٹنے کا رحجان زیادہ ہے اور ہمیں اس رحجان کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے انہوں نے ڈی او سوشل ویلفیئر کو ہدایت کی کہ وہ تمام رجسٹرڈ غیر سرکاری سماجی تنظیموں کوبا مقصد شجرکاری کا پابند کریں اور انہیں پودے لگانے کا ہدف دیں پودے لگا کر دیکھ بھال نہ کرنے والی این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کریں اجلاس میں ڈی او جنگلات طارق محمود نے بتایا کہ اس سال موسم بہار میں1لاکھ40ہزار پودے لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جبکہ گزشتہ مون سون شجرکاری میں مختلف اداروں کی طرف سے لگائے گئے پودوں کے پروان چڑھنے کی مجموعی شرح 75فیصد ہے ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر جواد اکرم نے ہدایت کی کہ وہ خود مختلف اداروں میں جا کر ان کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق شجرکاری کا جائزہ لیں اور اپنی رپورٹ پیش کریں اجلاس کے اختتام پر ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر نے دیگر افسران کے ہمراہ ڈی سی او آفس کے سبزہ زار میں پودا لگا کر موسم بہار کی شجر کاری مہم کا افتتاح کیا

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Theme