ڈاکٹر عزیز ؔ احسن ۔۔۔ایک شاعر۔۔۔ایک نقاد۔۔۔ایک محقق

Published on March 4, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 1,723)      No Comments

Kra
محمد عامل عثمانی
عبدالعزیزخان ولد عبدالحمید خان[یوسف زئی پٹھان] المعروف ڈاکٹر عزیز ؔ احسن ۳۱؍اگست ۱۹۴۷ء ؁ کو بھارت کے صوبہ راجھستان کے شہر جے پور میں پیدا ہوائے اور اپنے والدین کے ہمراہ مئی ۱۹۴۸ء ؁ میں کراچی آگئے۔ ان کی تعلیمی سندات دیکھ کر رشک آتا ہے وہ پی۔ایچ۔ڈی(اردو)،ایم۔فل (اقبالیات)،ایم۔اے(تاریخ اسلام)۔
ایل،ایل،بی،بی۔کام،فاضل(اردو)فاضل(فارسی)، ہیں۔۔ ان سے ایک ملاقات میں یہ عقدہ کھلا کہ وہ شاعر ، نقاد اور محقق ہیں۔ اب تک ان کی گیارہ کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
تصانیف:
اردو نعت اور جدید اسالیب(تنقیدی مضامین)۱۹۹۸ء
تیرے ہی خواب میں رہنا(شعری مجموعہ) ۲۰۰۰ء
نعت کی تخلیقی سچائیاں(تنقیدی مضامین) ۲۰۰۳ء
کرم و نجات کا سلسلہ(نعتیہ مجموعہ)۲۰۰۵ء
ہنر نازک ہے(تنقیدی مضامین)۲۰۰۷ء
شہپرِ توفیق(نعتیہ مجموعہ) ۲۰۰۹ء
نعت کے تنقیدی آفاق(تنقیدی مضامین)۲۰۱۰ء
رموز بیخودی کا فنی و فکری جائزہ(مقالہ: ایم۔فل[اقبالیات])۲۰۱۱ء
امیدِ طیبہ رسی (نعتیہ مجموعہ)۲۰۱۲ء
اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ (مقالہ: پی۔ایچ۔ڈی) ۲۰۱۳ء
پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر۔جولائی ۲۰۱۴ء
تصانیف کے علاوہ ان کی مرتب کردہ سات کتب اور ہیں:
تالیفات:
جواہرالنعت(نعتیہ انتخاب) ۱۹۸۱ء
م ص (نعتیہ مجموعہ)فدا خالدی دہلوی، ۱۹۸۳ء
آتش احساس(مجموعہء غزلیات) فدا خالدی دہلوی،۱۹۸۴ء
خوابوں میں سنہری جالی ہے(نعتیہ مجموعہ)صبیح رحمانی،۱۹۹۷ء
قصر بلند، یعنی مطالعہء قرآن، ایچ،ایچ، امام اکبر آبادی،۲۰۰۱ء۔
سبد گل،ایچ،ایچ ، امام اکبرآبادی، ۲۰۰۱ء
بحرِ شناسائی‘ فارسی کلام۔۔۔ظاہرؔ احسنی ‘یوسفی، تاجی رحمۃ اللہ علیہ
جب میں نے فاضل اردو اور فارسی کے حوالے سے ان سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے یہ دونوں سندیں بی۔کام کرنے کے بعد صرف شوق میں حاصل کی تھیں۔ایم اے اس لیے نہیں کرسکتے تھے کہ ان دنوں وہ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم میں آرٹیکل شپ کررہے تھے۔ بعد میں انہوں نے سی اے کرنے کے بجائے ملازمت اختیار کرلی اور پاکستان کی تیل اور گیس کی ترقیاتی کمپنی میں تقریبا ۲۹ سال ملازمت کرکے ۰۳؍جون ۲۰۰۹ء ؁ کو بحیثیت ڈپٹی چیف انٹرنل آڈیٹر ، رٹائر ہوئے۔ رٹائر منٹ کے بعد انہوں نے جامعہ کراچی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔
راقم الحروف کے اصرار پر انہوں نے اپنی ایک غزل سنائی جو ہدیہء قارئین کی جاتی ہے:
نظر میں رکھتا ہوں یوں بھی تری مثالوں کو
ترا ہی عکس سمجھتا ہوں میں اجالوں کو
بنا اسی کا تصور غزل کا پیراہن
کہ جس نے بخشی ہیں رنگینیاں خیالوں کو
یہ کیا ہوا کہ فقط تذکروں میں ملتے ہیں
نگاہ ڈھونڈتی پھرتی ہے با کمالوں کو
چلو تم ان کو تقدس مآب مت سمجھو!
مگرحقیر نہ جانو شکستہ حالوں کو
کوئی تو کرتا ہے تشہیرِ آبلہ پائی
کوئی چھپاتا ہے اپنی نظر سے چھالوں کو
تمام شہر ہی تاریکیوں میں ڈوب گیا
نہ جانے کس کی نظر کھا گئی اجالوں کو
یہ ننگے پاؤں یہ تپتی سڑک یہ دھوپ کڑی
بڑے عذاب میں ڈالا ہے نو نہالوں کو
سجا رکھا ہے بڑی احتیاط سے احسنؔ
ہر ایک حلقہء زنجیر میں سوالوں کو
۱۹۸۱ء سے عزیزؔ احسن نے نعتیہ ادب میں تنقیدی و تحقیق کام شروع کیا اور اب وہ ایک نقاد اور محقق کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں۔ نعتیہ شاعری میں شعری و شرعی اسقام کی نشاندہی اور شعری جمالیات کی روشنی میں نعتیہ ادب کو پرکھنا ہی اب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔۱۹۹۵ء سے وہ معروف نعت ریسرچ سینٹر، کراچی کے زیرِ اہتمام جاری ہونے والے کتابی سلسلے ’’نعت رنگ‘‘ سے منسلک ہیں اور ان کے تنقیدی مضامین بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔نعت رنگ کے اب تک ۲۴ شمارے منظرِ عام پر آچکے ہیں اور پچیسواں شمارہ زیرِ ترتیب ہے۔
عزیزؔ احسن کی نعتیہ شاعری میں بھی ان کا تنقیدی شعور جھلکتا ہے۔ ان کی ایک نعت ملاحظہ ہو:
رب کا منشا ہے ،کہ پھیلے شہِ ابرار کی بات
ساری دنیا میں چلے اسوۂ سرکار کی بات

نعت سرکار لکھوں اور عمل روشن ہو
مدحِ آقا سے بنے سیرت و کردار کی بات

ذکرِ اصحابِ گرامی بھی ہے مدحت اُن کی
نجم کی بات بھی ہے ماہ کے انوار کی بات

کاش اخلاص بھی حاصل ہو کبھی لفظوں کو
قلبِ پُر نور کرے عشق کے اظہار کی بات

ہوک اُٹھتی ہے جو کرتا ہے کوئی خواب کا ذکر
کاش میں بھی تو سناؤں کبھی دیدار کی بات

اُن کی مدحت میں ہر اِک لفظ صداقت چاہے
مجھ سے عاصی سے بھلا کیسے ہو معیار کی بات

نعمتوں کے تو وہ قاسم ہیں سنیں گے وہ ضرور

مجھ سے قلاشِ عمل ، مفلس و نادار کی بات

خیر کے پھول کھلیں ساری زمینوں میں عزیزؔ
یوں سنی جائے کسی وقت گنہگار کی بات

عزیزؔ احسن کے مضامین پاکستان کے اکثر رسائل اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں اور ان کے تنقیدی اور تحقیقی نوعیت کے مضامین کو جگہ دی جاتی ہے۔ اقبال کی شعری اقدار پر بھی انہوں نے مضامین لکھے ہیں ۔ اقبال کی فارسی مثنوی ’’رموزِ بیخودی کا فنی و فکری جائزہ ‘‘ کے عنوان سے انہوں نے ایم فل کا مقالہ قلم بند کیا تھا جو اب کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس طرح وہ ان اسکالرز اور تخلیق کاروں میں شامل ہوگئے ہیں جو ادب کو زندگی کا خادم سمجھ کرہر تخلیق کو دینی اقدار کے تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes