درندگی

Published on April 17, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 632)      No Comments

logo sajidآج صبح سویرے ٹی وی آن کیا تو لاہورکے کسی ایئریے کی خبرمیری سماعتوں سے ٹکرائی جس سے میری آنکھوں میں آنسوآگئے صرف یہ ہی نہیں میرا ناشتہ کرنے کو بھی دل نہ چاہا بہرحال زبردستی کچھ زہرمارکیا یا میری روح تک کانپ گئی کیونکہ جو اس درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اس لمحے کسی (سور) سے مشابہ ہوتے ہیں جن کے سامنے شکار ماں‘بہن‘بیٹی یا معصوم بچی صرف ان کے لئے لذت کا سماں ہوتی ہے چندمنٹ کی جنونی کیفیت میں وہ کیا کرجاتاہے اس کو شاید اپنی ہوس مٹانے کے بعد ہوش آتاہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں (ریپ)کیسز کی بات کررہاہوں ہم کون سے مسلمان ہیں کیا ہم اپنی بچیوں کا سکول جانابھی بندکردیں جو عورت کی عزت تو دور عصمت زری کر کے اپنی مردانگی کااظہار کرتے ہیں معصوم بچیاں کسی نہ کسی شکاری کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں کیا ایسا کرکے اپنی مردانگی کا ثبوت دیتے ہیں ۔پچھلے 3سے 4سالوں کے دوران کتنی معصوم زندگیاں بربادہوچکی ہیں اور ہٹ دھرمی اور بے شرمی کی بات یہ کہ وزیراعلی پنجاب بچی کے لواحقین کے گھر تک واقعے کا افسوس کہہ لیں یا میرے خیال میں تعزیت کرنا زیادہ بہترہوگا کیونکہ وہ بچی زندہ لاش ہی تو رہ جاتی ہے کیا کبھی ہوس کے ماروں نے یہ سوچاہے کہ اس بچی کا ذہن کس قدر مفلوج ہوجاتاہوگا اپنے کھلونے ‘گڑیوں اور بچپن کے ساتھیوں سے کھیلنے کی بجائے وہ اپنی ذہنی اذیت اور تکلیف کو کس طرح سہتی ہوگی والدین تو زندہ درگور ہوجاتے ہیں وزیراعلی پنجاب نے آج تک کوئی ایسا آرڈیننس پاس نہیں کروایا جہاں پر زنا بالجبر یا ریپ کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہو۔زیادتی کرنے والا پکڑا بھی جاتاہے مگر افسوس صد افسوس کہ اپنی طاقت یا واقفیت کی بناپر رہا ہو کر گھر آجاتاہے اور پھر اگلے چند روز میں ایک اور بچی جنسی زیادتی کا شکار ہوجاتی ہے وہ بچی اپنی آنے والی زندگی میں نہ تو معاشرے میں سر اٹھاکر جی سکتی ہے والدین اور معاشرہ اسے دھتکاردیتاہے وہ نہ شادی کے قابل رہتی ہے اور نہ پاکستان جیسے ملک میں گردن اٹھاکر جی سکتی ہے کیونکہ لوگ ہمدردی کم اور طنز کے تیر زیادہ چلاتے ہیں وہ کوئی اور نہیں ہے ہم لوگ خود ہی ہیں میری وزیراعلی پنجاب سے درخواست ہے کہ وہ اس جرم کے خلاف کوئی سزامرتب کروائیں اور پھانسی ہونی چاہیئے تاکہ نشان عبرت ہو اور کوئی بھی دوبارہ ایسی جرات نہ کرسکے ورنہ شاید ہم لوگ زمانہ جہالت والی رسموں کو دھرانے پر مجبور نہ ہوجائیں جو بیٹی کے پیداہوتے ہی زندہ درگور کردیتے تھے صرف اس لیے کہ ہمارا سر نہ جھکائیں ‘بیٹیاں تو کلیاں ہوتی ہیں جس سے سارا آنگن مہکتاہے لیکن یہ درندے دن دیہاڑے ان کلیوں کو نوش کر مسل دیتے ہیں میری اپنے تمام پڑھنے والے دوستوں سے بھی اپیل ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Theme