کراچی این اے146کے ضمنی انتخاب پر عالمی نقطہ نظر

Published on April 17, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 331)      No Comments

Logo-G-M-Bajwa
عام انتخابات2013ء کے بعددھاندلی کاشورشروع ہوگیا جس میں پاکستان اور پاکستانی قوم کوبہت بھاری قیمت اداکرناپڑی۔کیونکہ تحریک انصاف نے دھاندلی کیخلاف لانگ مارچ اور دھرنابھی دیا جو کئی روزتک جاری رہااب سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کراچی کے حلقہ این اے246میں تحریک انصاف کامیابی کیلئے پورامیدہے۔لیکن مقابلہ سخت ہوگاکیونکہ 1992ء میں بھی کچھ حالات ٹھیک نہیں تھے۔پھربھی سیٹ ایم کیوایم نے جیت لی تھی۔2013ء کے الیکشن میں ایم کیوایم ہی کامیاب ہوئی۔حالانکہ تحریک انصاف کو جماعت اسلامی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
اب کراچی کے حلقہ این اے 246 میں انتخاب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کو ہراساں کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین واقعہ وزیر داخلہ کی طرف سے ڈاکٹر عمران فاروق کیس میں ایک اہم شخص کی گرفتاری کا اعلان ہے۔ اس سے قبل اس حلقہ سے مستعفی ہونے والے نبیل گبول کا بیان بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔
ملک کے بہت سے ادارے اور سیاسی شخصیات متحدہ قومی موومنٹ کی مقبولیت اور کراچی میں اس کے اثر و رسوخ سے پریشان اور بدحواس ہیں۔ یہ کہنے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ ایم کیو ایم غلطیوں سے پاک کوئی تنظیم ہے یا اس کی طرف سے ہمیشہ اعلیٰ سیاسی معیار اور اوصاف کا مظاہرہ ہی کیا گیا ہے۔ اس سیاسی جماعت نے ایک احتجاجی تحریک کے طور پر اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس دور میں غنڈہ گردی اور مسلح جتھوں کے ذریعے کراچی پر کنٹرول حاصل کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا، یہ جماعت ملک کی اہم سیاسی پارٹی بننے کے بعد بھی ان سے نجات حاصل نہیں کر سکی۔ اگرچہ متحدہ عوام کے ووٹ کی بنیاد پر احترام اور اعتبار حاصل کرتی ہے لیکن اس نے انہی لوگوں کو بزور اپنے حلقہ اثر میں رکھنے کے لئے ایسے اقدامات کئے جو اب بدنام زمانہ جاگیردار اور وڈیرے بھی اختیار نہیں کرتے۔
انہی اقدامات میں سے ایک پارٹی کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو کو قلعہ بند کر کے ایک مقدس مقام کا درجہ دینا تھا۔ کسی شخص ، سیاست دان ، پولیس یا دیگر سکیورٹی اداروں کو 90 یا اس سے ملحقہ ایم کیو ایم کے زیر اثر علاقوں میں جانے یا متحدہ کے طریقہ کار کے بارے میں بات کرنے کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ ماہ کے شروع میں رینجرز نے نائن زیرو پر ریڈ کی اور وہاں سے سزا یافتہ مجرم اور ناجائز اسلحہ برآمد کیا تو پورے پاکستان میں یہ خبر حیرت انگیز خوشی و مسرت سے سنی گئی۔ متحدہ کی قیادت اب تک یہ بات پوری طرح سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہے کہ اب تبدیل شدہ حالات میں اسے متوازن رویہ کے ساتھ ایک سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دھونس ، دھمکی اور ہٹ دھرمی کا پرانا طریقہ کار بدلے ہوئے سیاسی حالات میں پارٹی کے مستقبل کے لئے مناسب نہیں ہو گا۔
عالمی میڈیا پر جاری بحث و مبصرین اور ماہرین کے مطابق کہ اس کنٹرول اور خوف کو مکمل کرنے کے لئے متحدہ نے میڈیا میں براہ راست اور بالواسطہ گہرا رسوخ حاصل کیا ہوا تھا۔ تیس برس قبل صرف روزنامہ جنگ کی حد تک غنڈہ گردی کے زور پر مرضی کی خبر مرضی کی جگہ پر لگوانے کا رویہ ملک میں ہمہ گیر الیکٹرانک میڈیا سامنے آنے کے بعد بھی جاری رہا۔ اکثر چینلز اب بھی لندن سے الطاف حسین کی طویل اور بسا اوقات بے مقصد اور بے ہنگم تقاریر کو براہ راست براڈ کاسٹ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس دوران کمرشلز کے لئے بھی وقفہ ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ حالانکہ اگر نیوز ویلیو کی بنیاد پر بھی یہ قیاس کر لیا جائے کہ کراچی کے سارے شہری الطاف حسین کی تقریر کو لازماً دیکھنا زندگی کا اہم ترین مقصد سمجھتے ہیں۔ تو بھی ملک کے دیگر شہروں اور دنیا بھر میں یہ چینلز دیکھنے والوں کو بہر طور ان تقریروں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
کیبل آپریٹرز پر کنٹرول اور دھمکیوں کے زور پر متحدہ برس ہا برس تک تمام کمرشل چینلز کو یہ ’’ خدمت ‘‘ سرانجام دینے پر مجبور کرتی رہی ہے۔ اس کے نمائندے اور ترجمان خوش کلام ، مدلل اور بہتر گفتگو کے ماہر ہوتے ہیں لیکن مختلف ٹاک شوز میں ان کا رویہ متکبرانہ ، دھمکی آمیز اور جارحانہ ہوتا تھا۔ کوئی اینکر یا صحافی ایم کیو ایم کے نمائندے کی بات کاٹنا یا اس سے چبھتا ہوا سوال کرنا ضروری نہیں سمجھتا تھا۔ الطاف حسین خود اگر کسی پروگرام میں ٹیلی فون پر انٹرویو کے لئے راضی ہوتے تو ان سے سوال کرنا یا ان کو انتظار کے لئے کہنا گناہ عظیم اور انہونی تصور ہوتا تھا۔
ناورے کے میگزین ’’کاروان‘‘ کے ایڈیٹر کے مطابق یہ صورتحال گزشتہ چند ہفتوں میں ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ برطانیہ اور پاکستان میں متحدہ اور اس سے متعلق لوگوں کو نت نئے الزامات اور مقدمات کا سامنا ہے۔ اب اس کے نمائندے اکثر پروگراموں میں نرم خوئی اور دلیل سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ اینکرز اور صحافی تند و تیز سوال کرنے کے علاوہ جارحانہ انداز اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال میں ہی فروری میں کراچی کے حلقہ این اے 246 کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب کا اعلان کیا گیا۔
یہ نشست نبیل گبول کے استعفیٰ دینے کے بعد خالی ہوئی تھی۔ وہ طویل عرصہ تک پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے اور لیاری سے انتخاب میں حصہ لیتے تھے لیکن 2013 کے انتخابات سے پہلے انہوں نے ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کی اور پارٹی نے انہیں اپنے گڑھ عزیز آباد اور اس سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل نشست (این اے 246) سے ٹکٹ دیا اور انتخاب میں کامیاب کروایا۔ 11 مارچ کو 90 زیرو پر چھاپہ سے تین ہفتے قبل نبیل گبول نے اچانک اختلافات کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم انہوں نے پارٹی سے لاتعلقی اختیار نہیں کی اور نہ ہی متحدہ یا اس کے لیڈر الطاف حسین کے بارے میں بدکلامی کی۔
گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستان تحریک انصاف اس حلقہ میں ’’ خوف ‘‘ کی فضا ختم کرنے کے اعلان کر رہی تھی اور عمران خان 90 سے متصل جناح گراؤنڈ تک جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ عین اس ہنگام میں نبیل گبول نے یہ اعلان کیا کہ 2013 میں انتخابات کے دوران انہیں جعلی ووٹوں کے ذریعے جتوایا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ انتخاب والے دن حلقے کے پولنگ اسٹیشنوں پر گئے تو وہاں ووٹر موجود نہیں تھے۔ مگر نتیجے میں انہیں ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹ مل گئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں انہوں نے جب رابطہ کمیٹی سے بات کی تو انہیں کہا گیا کہ وہ اطمینان رکھیں۔ انہیں ایک لاکھ چالیس ہزار یا ایک لاکھ پچاس ہزار کے لگ بھگ ووٹ مل جائیں گے۔ وہ آرام سے گھر جا کر سو جائیں۔
نبیل گبول کہتے ہیں کہ وہ اب یہ باتیں اس لئے کہہ رہے ہیں کہ اب ان کا ضمیر جاگ گیا ہے۔ یہ بات درست ہو سکتی ہے۔ بیان کو خوبصورت بنانے اور انٹرویو میں صحافی کو مطمئن کرنے کے لئے بھی یہ جواب معقول قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس بیان سے بعض قانونی تقاضے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو یہ اقرار کر رہا ہے کہ اس نے جعلی ووٹوں کی بنیاد پر انتخاب جیتا ، دو سال تک قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر فرائض ادا کئے اور مراعات حاصل کیں اور اب وہ ضمیر کی آواز پر مستعفی ہو چکا ہے۔ اسے کسی ٹیلی ویڑن انٹرویو سے پہلے الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنے خطا کار ہونے کا اعتراف کرنا چاہئے تھا اور یہ استدعا کرنا چاہئے تھی کہ ہوس اقتدار میں جو غلطی اس سے سرزد ہوئی تھی ، اسے اس کی قانونی سزا دی جائے۔
اس سابق رکن قومی اسمبلی کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ حالانکہ ملک میں ایک طویل ہنگامے کے بعد اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی نگرانی میں سہ رکنی کمیشن 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اس کمیشن کے سامنے ثبوت اور شواہد پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ ایسی صورت میں ان تمام پارٹیوں اور اس کمیشن کا پہلا کام تو یہ ہونا چاہئے کہ جو شخص خود اپنی چوری اور بے ایمانی کا اعتراف کر رہا ہے اسے قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے۔ ابھی تک تو ایسی کوئی آواز سننے میں نہیں آئی۔ اس سے تو یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ الیکشن ، دھاندلی اور شفافیت کا معاملہ صرف سیاسی ہے۔ کوئی شخص ، پارٹی یا ادارہ اس معاملہ کو قانون کے تقاضے پورے کرنے کے لئے استعمال کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
یہ بات بھی شبہ سے بالا ہے کہ ایم کیو ایم کے گڑھ میں ضمنی انتخاب سے دو ہفتے قبل نبیل گبول کا بیان اس پارٹی کا اعتبار ختم کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کے لئے سامنے آیا ہے۔ اس کام میں جو لوگ اور ادارے بھی ملوث ہیں ، انہیں یہ خبر ہونی چاہئے کہ ایم کیو ایم سے وابستہ لوگوں کو ان کے جرائم کی سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں سے متحدہ یا کسی بھی سیاسی پارٹی کا راستہ کھوٹا کرنے کی کوئی بھی کوشش غیر جمہوری ، غیر قانونی اور ناقابل قبول ہو گی۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress主题