علامہ اقبال کے فکروفن کے موضوع پر دانشوروں کے مابین مکالمہ کی نشست

Published on April 29, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 1,113)      No Comments

Nuqta Nazar copy
اسلام آباد(یواین پی)ہفتہ تقریباتِ اقبال کے سلسلے میں نظریہ پاکستان کونسل کے ماہانہ فکروادبی پروگرام “نقطۂ نظر “میں دانشوروں کے مابین” اقبال فکروفن کا امتزاج”کے موضوع پر مکالمے کی خصوصی نشست علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اقبال کے چیئرمین اور معروف دانشور ڈاکٹر شاہد اقبال کامران کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ معروف علمی شخصیت اور چیئرمین سرسید میموریل سوسائٹی بریگیڈیئر اقبال شفیع مہمان خصوصی تھے۔ اس نشست میں ڈاکٹر ایوب صابر ، وفا چشتی، افشاں عباسی، فرحین چوہدری، شیدا چشتی، فردوس ایوبی اور انجم خلیق نے موضوع کی مناسبت سے اظہارِ خیال کیا۔ صدرِ تقریب شاہد اقبال کامران نے کہا کہ بڑا شاعر پیرائیہ زبان کا مقلد نہیں موجد ہوتا ہے اور یہی کمال اقبال کے ہاں بھی ہے کہ انہوں نے لفظیات، روزمرہ اور مطالب تینوں کو نئے نئے سانچے اور اسالیب سے آشنا کر کے شاعری کے افق کو وسیع کیا ہے۔بریگیڈیئراقبال شفیع نے کہا کہ اقبال فراموشی ایک قومی المیہ ہے جس کے اثرات سے نئی نسل کو بچانا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔انجم خلیق نے کہا کہ اقبال نے فکروفن دونوں کوبلندی عطا کی ہے۔افشاں عباسی نے کہا کہ اقبال نے خودی کا درس دیا تھالیکن ہم خودی کو بھول کر خود کو بلند کرر ہے ہیں۔ فرحین چوہدری نے کہا کہ مغربی مفکرین اور محققین ہماری نسبت اقبال کے پیغام کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ رہے ہیں اسی لئے ان کی ترقی کی رفتار اور قومی استحکام کی صورتِ حال دونوں ہم سے بہتر ہیں۔ وفا چشتی نے کہا کہ اقبال کے فن کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تمام عصری علوم کو اسلامی فکر سے مربوط کر کے اپنے کلام کا حصہ بنایا اور ہمارے لئے فکر وتدبر کی نئی راہیں کھولی ہیں۔ شیدا چشتی نے کہا کہ جس قوم سے سوچ چھین لی جائے اس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اقبال نے اپنے فکروفن کے ذریعے ہمیں بلند آہنگ سوچ اور خوش عملی کا پیغام دیا۔ ایوب صابر نے کہا کہ اقبال نے اپنے کمالِ شعر کو فن کا ایک معیار بنا کر پیش کیا ہے جسے سمجھنا اور جس کی تقلید اہلِ قلم کو بہتر تخلیقات پر تیار کر سکتی ہے

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog