علاج کچھ بھی نہیں

Published on November 5, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 514)      No Comments

\"saleem

بھارت کی جنوبی ریاست کیرل کے مسلم اکثریتی علاقے والے شہر ملا پورم سے کچھ دور واقع ایک سرکاری ہسپتال میں بہت سی خواتین ڈاکٹرز کا انتظار کررہی ہیں ۔گود میں بچے لئے وہ یہاں صلاح و مشورے کے لئے آئی ہیں کیونکہ وہ کئی طرح کی ذہنی پریشانیوں سے دوچار ہیں دراصل کم عمری میں خلیجی ممالک میں کام کرنے والے نوجوانوں سے شادی کے بعد وہ اب اکیلی رہ گئی ہیں ۔ اس تنہائی اور اکیلے پن نے ان کو ذہنی طور پر متاثر کیا ہے اور یہ مسئلہ اب سماج کے ساتھ ساتھ کیرالہ کی حکومت کیلئے بھی تشویش کا موضوع بن گیا ہے ۔ حکومت نے ملا پورم ، کو زیکوڈ اور آس پاس کے علاقوں میں ضلع ، تحصیل اور یہاں تک کہ گاؤں کی سطح پر بھی نفسیاتی علاج کرنے والے ڈاکٹروں کی تقرری شروع کردی ہے تاکہ ذہنی طور سے پریشان ان خواتین کو راحت مل سکے ۔ ’’ان کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ سہاگن ہوتے ہوئے بھی بیواؤں جیسی زندگی جینے پر مجبور ہیں شوہر کا انتظار کرنا ان کی قسمت ہے اور اپنے ارمانوں کا گلا گھونٹنا ان کا فرض‘‘ ۔ علاقے کے معروف وکیل شمس الدین کہتے ہیں کہ اب ملا پورم کے لوگوں نے انہی حالات میں جینے کی عادت ڈال لی ہے وہ کہتے ہیں گلف سنڈ روم ایک حقیقت ہے ۔ لوگ اسے قبول بھی کررہے ہیں اور اس کی وجہ سے معاہدہ بھی کررہے ہیں ۔ یہ اب یہاں کی زندگی کا حصہ ہے کئی ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں جہاں شادی کو بیس سال گذر گئے ہیں مگر شوہر بیوی اس دوران اگر ساتھ رہے ہیں تو و ہ صرف نو یا دس ماہ کے لئے خاندان سے دور رہنے کی وجہ سے خاندان کے لوگوں کے ساتھ ان کا اتنا جذباتی لگاؤ نہیں رہتا ہے کہ وہ صرف پیسے کمانے کی ایک مشین بن کر رہ گئے ہیں ۔ مجھے ملا پور اور کو زیکوڈ گاؤں کی کہانی پڑھ کر پاکستانی قوم یاد آگئی کیونکہ یہ بھی کئی طرح کی ذہنی پریشانیوں سے دوچار ہے یہ قوم بھی ملاپور اور زیکوڈ گاؤں کی خواتین کی طرح خود کو تنہا محسوس کرتی ہے اس اکیلے پن نے اسے بھی ذہنی طور پر پریشان کیا ہوا ہے لیکن یہاں کی حکومت کے لئے یہ کوئی پریشانی کا مسئلہ نہیں ہے اسی لئے حکومت نے ان کے علاج کے لئے ڈاکٹرز بھی تعینات نہیں کئے ۔ اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ یہ بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہے مہنگائی نے کھانے پینے کی اشیاء کو ان سے دور کردیا توبے روزگاری نے ان قوم کے نوجوانوں کو بے راہ روی کا شکار کرکے رکھ دیا ہے تعلیم کے لئے اچھے ادارے موجود نہیں ہیں یہاں کے تعلیمی ادروں کی عمارتوں کو جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے اپنا اصطبل ، گودام اور اوطاق بنا دیا ہے ۔ صحت کے لئے مراکز تو موجود ہیں لیکن ان میں ادویات ناپید ہیں حد تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے بجلی ، گیس اورسی این جی کو یہ قوم ترس کر رہ گئی ہے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں روزانہ درجنوں افراد کا مارا جانا عام سی بات بن گئی ہے ہر دوسرا جنم لینے والا واقعہ دیکھ کر یہ قوم پہلے واقعے کو ایسے بھول جاتی ہے کہ وہ کبھی ہوا ہی نہیں ۔ اب اس قوم نے بھی ملاپور اور کوزیکوڈ کی خواتین کی طرح جینے کی عادت ڈال لی ہے۔ لیکن ملا پور اور کوزیکوڈ کی خواتین ایک حوالے سے زیادہ خوش نصیب ہیں کہ ان کے شوہر بیس برسوں کے دوران نو یا دس ماہ تو ان ساتھ رہے ہیں لیکن اس قوم کے لیڈر تو بیس سالوں میں چند روز ہی ان کے درمیان رہے ہوں گے یہ لیڈر صرف انتخابات میں آتے ہیں اور اس قوم کو سہانے سپنے دکھاکر واپس ایسے غائب ہوجاتے ہیں کہ انھیں پھر کبھی واپس آنا ہی نہیں ہے یہ قوم دوبارہ اپنے لیڈروں کے انتظار میں اپنی زندگی گذار نا شروع کردیتی ہے ان کے لیڈر بھی ملاپور اور کو زیکوڈ کی خواتین کے شوہروں کی طرح پیسے کمانے کی مشین بن جاتے ہیں ۔یہ لیڈر شہروں میں موجود اپنی حویلی نما گھروں اور بنگلوں کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اس قوم کو سیلاب میں ڈوبتا اور وبائی امراض میں مرتا دیکھ کر اس قوم کی عقل اور اپنی ہوشیاری پر قہقے ضرور لگاتے ہونگے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 67 سال ہوچکے ہیں ان برسوں میں اس ملک میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے ہر دور میں مراعات یافتہ طبقے کو ہی حکومت میں حصہ دیا جاتا رہا عوام کو صرف اور صرف ووٹ دینے تک ہی محدود رکھا گیا اور اس کے عوض اس قوم کو کیا ملا ؟ حقائق سب کے سامنے ہیں اپنی اس حالات کی ذمہ دار خود یہ قوم ہے جو ملاپور اور کو زیکوڈ کی خواتین کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور ہے اور اسے خود اپنی حالات سدھارنے کا خیال تک نہیں آتا ہے نہ ہی یہ قوم کسی پر اعتبار کرتی ہے اس ملک میں ہر شخص اس کا مسیحا بننے کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ قوم اس کی آس اور خواہشات کا خون کردیتی ہے یہ صرف انہی لوگوں کو منتخب کرتی ہے جس نے اسے ہر دور میں دھوکے دیئے یہ قوم ایک مشرقی عورت کی طرح ہر ظلم بھی برداشت کرتی ہے لیکن اپنے خاوند کے خلاف ایک الفاظ بھی سننے کو تیار نہیں ہوتی اسے ظالم شوہر بھی اچھا لگتا ہے آپ پاکستان میں ہونے والے تمام انتخاب پر روشنی ڈالئے تو آپ کو پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اس عوام کے ووٹ سے کئی بار اپنی اپنی حکومتیں بھی بنائیں لیکن اس کے عوض اس قوم کو کیا ملا ؟ لیکن اگر آج بھی انتخابات ہو جائیں تو یہ قوم پھر انہی جماعتوں کو دوبارہ منتخب کرلیں گی پاکستان میں آج تک دو جماعتیں ہی نظام حکومت چلاتی ہیں اگر جماعت اقتدار میں آجائے تو دوسری جماعت اپنی باری کا انتظار کرنے لگتی ہے اس قوم کی حالت بدلنے کے لئے کینیڈاسے علامہ طاہر القادری آئے انہوں نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ دھرنا بھی دیا اس دھرنے میں صرف ان کے پیروکاروں نے ہی شرکت کی طاہر القادری عوام کے رسپانس کو بھانپ چکے تھے جس پر انہوں نے اپنا دھرنا ختم کرنے میں ہی عافیت سمجھی ۔ماضی میں بھی ہمیں ایسی کئی مثالیں ملیں گی جب عوام کے لئے سیاسی رہنماؤں نے اتحاد بھی بنائیں لیکن اس قوم نے سب کو مایوس کیا ۔ شاید یہ قوم ملا پورم اور کو زیکوڈ میں رہنے والی خواتین کی طرح زندگی گذارنے پر آمادہ ہوچکی ہے اب اگر کیرالہ کی حکومت کی طرح پاکستانی حکومت کو اس قوم کے علاج کے لئے ہسپتال میں ماہر نفسیات کے ڈاکٹرز کو لگانا پڑا تو وہ بھی ڈاکٹر رملا کی رپورٹ ہی پیش کرسکے گے ڈاکٹر رملا نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی ہے اور یہ سب ایک سمجھوتا کر چکے ہیں لہذا ان کا علاج کچھ بھی نہیں یہ اسی میں خوش ہیں ۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Themes