عظیم شاعروصوفی بزگؒ کا 771واں سالانہ عرس

Published on November 5, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 374)      No Comments

\"Column
حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ 561ہجری میں پیدا ہوئے اور سات سال کی عمر میں ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ دینی و دُنیاوی تعلیم حاصل کرنے کیلئے مولانا منہاج الدین ترمذی کے پاس ملتان چلے گئے وہاں سے تفسیر،حدیث،اصول معافی،فلسفہ ہیت اور رہاضی کے مضامین پرعبور حاصل کرنے کے بعد زِندگی کے ایک حصہ کے مختلف اوقات برِ صغیر کے مختلف مقامات پر گزارتے ہوئے برِ صغیر پاک وہند میں پنجابی زُبان کے سب سے پہلے عظیم شاعر و صوفی بزرگ کے اعزاز سے نوازے جانے کے بعد جب آپ ؒ نے آج کے پاکپتن اور دورِ جہالت کے اجودھن کا رُخ کیا تو یہ علاقہ کفرو جہالت کے اندھیروں میں غرق تھا پولیس گزٹ کے مطابق کوروں ،پانڈوں کی لڑائی کے وقت یہ جگہ راجہ (دریودھن) کی شکار گاہ تھی اور چندر ہنسی راجاؤں کے دور میں یہ اجودھن (پاکپتن )اُن کی سلطنت کا دارلحکومت تھا اِس سے قبل ہندوؤں کے دیوتا،، رام ،،اور ،،سیتا،،نے ،،راون ،،کی قید سے آزادی حاصل کرنے کے بعد یہیں ماضی کے (اجودھن )اور موجودہ پاکپتن میں آکر پنا ہ لی تھی جِس کے سبب یہ علاقہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ہوا کرتا تھا اُس وقت اجودھن کے ساتھ ساتھ دریائے ستلج بھی بہتا تھا قیام پاکستان کے بعد اِس دریا کی روانی ضیاء الحق نے بھارت کو فروخت کر دی تھی جِس کے کنارے واقع یہ (اجودھن)اُس وقت پورے برِ صغیر پاک و ہند میں خوبصورتی کے حوالہ سے بھی اپنی مثال آپ تھا اِسی ہی خوبصورتی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہندو مذہب کے پرنامی فرقہ سے منسوب ( بابادیا رام )نے اِس شہر سے بیس کلومیٹر جانبِ مغرب ملکہ ہانس میں پرنامی مندر کے نام سے پرنامی فرقہ کی زمانہ قدیم میں دُنیا کی سب سے بڑی عبات گاہ تعمیر کی جِس سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ایک مسجد میں حضرت سید وارث شاہ نے ڈیرے ڈالے اور ہجرے میں بیٹھ کرتا قیامت لوگوں کے دِلوں پر راج کرتے رہنے والی مشہور و معروف کتاب( ہیر وارث) لکھ کر اِس مسجد کو مسجد وارث شاہ کا نام دیا جو اب بھی قائم و دائم ہے مگر پرنامی مندرمحکمہ اثارِ قدیمہ کی چشم پوشی اور غفلت کے سبب ایک مٹی کے ڈھیر کی شکل اِختیار کرتا چلا جا رہا ہے ،خیر!اِن حالات میں حضرت بابا فرید الدین ؒ نے اپنے قول وفعل کی صداقت و کلام سے اِسلام کی یہاں ایسی شمعیں روشن کیں جنہوں نے کفرستان کے اندھیروں کواِسلام کے اُجالوں سے ایسا منور کیا کہ ہندوقومیں لاکھوں کی تعداد میںآپ ؒ کے باعث دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی اور روحانی مدارج کے ساتھ ساتھ دُنیاوی مقامات بھی حاصل کئے جِس کا فیض و سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے آپ نے بہت سی کتابیں تالیف کیں جبکہ صوفیانہ کلام کے آپؒ کے 114شبد اور 4گیت سِکھوں کی مقدس کِتاب گورو گرنتھ صاحب کا بھی حصہ ہیں گورو گرنتھ سِکھو ں کے پیشوا بابا گورونانک کے ملفوظات اور فرمودات پر مبنی ہے جِسے بعد میں گورو ارجن اور گورورنگدیو نے مرتب کیا اور اِنہیں سِکھ قوم کے متعدد گوروؤں کی مدد حاصل تھی ،حضرت بابا فرید الدین نے حصول بندگی کیلئے تمام زِندگی فرائض وشریعت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بے پناہ اور چلہ معکوس جیسی کٹھن عبادات توکل ،قناعت پسندی ،تنگ دستی اور فاقہ کشی کو بھی رضائے الٰہی سمجھ کر گُزارتے ہوئے جہاں ہر حال میں صبرو تحمل کے ساتھ خد ا کی شکر گزاری کا درس دیا وہاں اپنی شاعری میں تشبیہات کے ذریعے بنی نوح انسان کو خُدا کی وحدانیت اور فانی دُنیا کی حقیقت سے بھی مکمل طور پر آشنا کرنے کے دوران ہی 663ہجری کے ذوالحجہ میں کثرت عبادات ، چلوں اور فاقہ کشی کے سبب آپ ؒ کی طبیعت نا ساز رہنے لگی اور4 محرم الحرام664ہجری کو مغرب کی نماز کے بعد آپ کی حالت مزید بگڑ گئی اور ناتوانی میں عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد بے ہوش ہوگئے ،ہوش آیا تو خلیفہ سے پوچھا کہ کیا میں نے نماز پڑھ لی ہے ؟جواب مِلا جی حضور آپ نے نماز با جماعت ادا کی ہے ،فرمایاایک بار پھِر نمازادا کرنے کو جی چاہتا ہے نہ جانے پھِرکیا ہو ،اور نماز ادا کرنے کے بعد پھِر بے ہوش ہو گئے گُزشتہ بے ہوشی کی نسبت اِس بار کا دورانیہ تھوڑا لمبا تھا جِس کے بعد ہوش سنبھالتے ہی پھر پوچھا کہ کیا میں نے نماز پڑھ لی ہے ؟جواب ملا جی حضور آپ دو مرتبہ نماز پڑھ چکے ہیں یہ سُن کر آپ نے پھِر فرمایا فرمایا میرا ایک بار اور نماز پڑھنے کو جہ چاہ رہا ہے پھِر نہ جانے کیا ہواور دوران نماز ہی یا حیی یاقیوم کا ورد کرتے کرتے خالق حقیقی سے جامِلے،آپ ؒ کے وصال کے بعدمغلیہ دور حکومت آتے ہی مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے 1393عیسوی میں اِس مقدس جگہ کا نام (اجودھن) سے پاکپتن باقائدہ طور پر لکھوا دیا جہاں پرآپ کا عرس ہر سال 25ذوالحجہ سے9محرم الحرام تک بہت سی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ منایا جاتا ہے اور 5سے 6محرم الحرام کی رات سجادہ نشین مزار شریف (بہشتی دروازہ )کی کفل کشائی مقامی یا قومی اہم شخصیات سے مِل کر کرتے ہیں اِن رسومات میں شرکت کیلئے اندرون و بیرون ممالک سے عقیدت مند لاکھوں کی تعداد میں پاکپتن کا رُخ کرتے ہیں مگر جگہ اور وقت محدود ہونے کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی نئی اور بے ضررحکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے دہشت گردی خدشات کے نام پرہر سال ایک قدیمی فرسودہ سیکیورٹی پلان شہر کو سیل کر دیئے جانے کے سبب سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ہر سا ل صرف 7سے 8لاکھ لوگ ہی بہشتی دروازہ گُزرنے کی سعادت حاصل کر پاتے ہیں جبکہ قل تعداد 15لاکھ کے قریب ہوتی ہے اور13لاکھ کے قریب پاکپتن کی اپنی آبادی ہے،جِسے مِلا کر قُل تعداد28لاکھ کے لگ بھگ ہو جاتی ہے جوکہ عرس کے اختتام تک فول پروف سیکیورٹی کے نام پرپولیس ناکہ بندی کے ذریعے محصور رہتے ہیں جبکہ اعلیٰ افسران وزرا ء ، اور اِن کے عزیز و اقارب کئی میل لمبی انسانی لائن میں لگے بغیر ہی وی وی آئی پی پروٹو کول کے ساتھ بہشتی دروازہ گُزرتے رہتے ہیں جوکہ آپ ؒ کی اعلیٰ پاکیزہ اسلامی واخلاقی تعلیمات کا مذاق اُڑانے اورمیرٹ و انصاف کی علمبردار حکومت کے منہ پر تماچہ مارنے کے عین برابرہے ،خیرلکھنے کو تو اور بھی بہت کچھ باقی ہے مگر جگہ کی قلت کے سبب آج کیلئے اِتنا ہی ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Weboy