کیوں نہ کہوں۔۔۔

Published on May 29, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 590)      No Comments

logoq
وزیرِداخلہ کی نوازشریف سے صلح ہوگئی اور انہوں نے چند پریس کانفرنسزکر کے بتادیا کہ وہ موجود ہیں، قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد تو نہیں کیا جارہا تاہم اہم منصب پر فائز حضرات اس کا حوالہ بارہا تب دیتے ہیں جیسے ہی کوئی نا خوشگوار واقع پیش آتا ہے اور مزید پختہ انداز میں پروگریس کرنے کا عندیہ بھی متعلقہ لوگوں کو دیتے ہیں۔چودھری نثار صاحِب بم دھماکوں میں کمی کا کریڈٹ اپنی حکومت کو دیتے نہیں تھک رہے سانحات پر بریفنگ بھی دی جارہی ہے اور یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ فلاں وقو عے کا ماسٹر مائنڈ پکڑا گیا ہے اورشواہد ملے ہیں کے اس سب کے پہچھے بھی بھارتی ایجنسی (راء) ملوث ہے اور بھارت کے ایک ٹاک شو میں پاکستان میں دہشتگردی کرنے کا اعتراف خود ان کے وزیر نے کیا ،اس وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے امن وامان کی بہتری کے لیے کام جاری و ساری ہے عسکری قیادت و سیاسی قیادت مل بیٹھ کر ہر پاکستانی کو طمانیت دینے کے لیے کوشاں ہیں ضربِ عضب سے دہشتگرد کافی حد تک نیست و نعبود ہو چکا ہے۔جنرل راحیل شریف کی طیب و طاہر ارادے ملک کو درپیش تمام خطرات کی اینٹ سے اینٹ بجاتے چلے جارہے ہیں اور انہوں نے اب ملک میں موجود ہر ایسی تنظیم کے خلاف کریک ڈا وْن کا آغاز کیا ہے جس کے تانے بانے آجا کر دہشتگردی سے جڑتے ہیں۔پیر 25 مئی 2015 کو سیالکوٹ ڈسکہ تنازعے پر پولیس نے وکلاء پر شیلنگ شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے پولیس نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں ڈسکہ بار کے صدر سمیت دو وکلاء موت کی بھینٹ چڑھ گئے اور دو راہگیر بھی زخمی ہوئے وکلاء برادری کی شرانگیز گفت گوا ور گالم گلوچ کو پولیس کی طرف سے جواز بنایا گیاتاہم اس کے بعد املاک کی توڑپھوڑ اور دفاتر کو جلانے کے سلسلے کا آغاز وکلاء نے کیا۔تھانہ کلچر درست نہیں ہے عوام چند بے لگام اور کرپٹ پولیس افسروں کی وجہ سے پولیس سے نالاں ہے اور عام لوگوں میں پولیس کے لیے غصہ اور اشتعال پایا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ماڈل ٹاوْن سانحے کی جوڈیشل انویسٹی گیشن رپورٹ میں تمام ذمہ دران کو کلین چٹ دی گئی اور ڈسکہ میں بربریت ثبوت پولیس وکلاء تصادم نے عیاں کیاافسرانِ بالا بے خوف اور اتاوْلے ہوگئے کہ شاید ان سے زیادہ کوئی مضبوط نہیں ہے چاہے کچھ بھی ہو انہیں ان کے کیے کی سزا نہیں دی جا سکتی اور انہوں نے ظلم کو اپنا شعار بنا کر پھر سے سائلین کو اپنے پیروں کی میل گردانا۔ اس سے پہلے بھی سنگ دلی کی داستانیں رقم کی جا چکی ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ جولوگ متاثر ہوئے ان کے پاس وسائل و زرائع ابلاغ نہ تھے اور وہ ہراساں ہوتے رہے جبکہ وکلاء کی پوری کمیونٹی ہے جسے ہم پریشر گروپ کہہ سکتے ہیں جو ہم آواز ہوئے اور چند بے ضمیر پولیس افسران کی حقیقت سب کے سامنے آگئی۔متعلقہ ایس ایچ او کو معطل کر مسئلۂ کا حل نہیں بلکہ ان ہائررینک پولیس والوں سے بھی پوچھا جائے کہ انہوں نے ماتحتوں کو اس قدر شے کیوں دے رکھی ہے کہ وہ عوام الناس کی جان کے محافظ بننے کی بجائے ان ہی کے قاتل بن جائیں ؟۔ کیا پولیس کا گولی چلانے کا اختیار ضلعی انتظامیہ سے مشروط نہیں ہونا چاہیے؟ اگر ماڈل ٹاوْن وقوعہ کے بعد ذمہ دران کو سزا ملی ہوتی تو بد امنی کے قائل چند مکرو پولیس والے اپنی گھناوْنی کاروائیوں سے باز نہ آگئے ہوتے؟۔ وکلاء نے بھی جو کیا وہ بھی قابلِ تلافی نہیں بجائے کہ پُرامن احتجاج ہوتا کچھ وکلاء نے قانون ہاتھ میں لے لیا اور جارحانہ انداز میں احتجاج ملک میں دیکھا گیا شہریوں سے بدکلامی و بد سلوکی کی گئی میڈیا کے کارکنوں پر تشدد کیا گیا آنے جانے کے رستے بلاک کیے گاڑیوں املاک کی توڑ پھوڑ کی گئی جو کوئی مہذب بات نہیں ہے اور جہالت کی عکاسی ہے۔کالے کوٹ اور کالی شرٹ والے دونوں اپنی سمت درست کریں اور بے تدبیری سے نکلیں ،پولیس رفارمز کے فنڈز جاری ہوتے ہیں لیکن حالا ت جوں کے توں ہیں پنجاب میں تھانہ کلچر بہت خراب ہے اور بہت کیسز ایسے ہیں جنہیں آن ریکارڈ نہیں لایا جاتا اور پولیس والوں کے رعب دیکھ کر غریب سائل اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی شنوائی کے لیے آواز ہی نہیں اٹھاتا۔نیکوکار جیسا ایماندار افسر جس نے خدا خوفی کو ذہن میں رکھتے ہوئے تمام زبانی احکامات کو ماننے سے انکار کیا اور فائرنگ کرنے سے صاف منع کردیا ایسے شخص کو پولیس افسران اپنا رول ماڈل بنائیں تو ان کی عوام سے کچھ رغبت پیدا ہوگی اور ان کا وقار بلند ہوگا۔یہیں اگر بات کی جائے تو ملک و قوم میں ایماندار اور نادر مورال کے لوگ موجود ہیں جیسے کہ سی ٹی اولاہور طیب حفیط چیمہ اور ان کے والد جسٹس عبدلحفیظ چیمہ جن کی ملک کی اصلاح وسدھار میں بے شمار خدمات ہیں خفیہ سیف ہاوْس کے پھٹنے کامقصد کیا جسٹس چیمہ کے گھرکو متاثرہ بنانا ہی تھا یا کچھ اور خیر جو بھی تھا ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے صبر وشکر سے کام لیا اور ملک میں امن کی خواہش کو اپنا عزم بنایااور اب بھی اپنی خدمات مادرِوطن کی فلاح و بہبود کے لیے انجام دے رہے ہیں۔کوئی بنجاب کو پولیس سٹیٹ کہہ رہا ہے تو کوئی زبانِ زدِ عام گلوگردی بھی ہے تو پھر کیا فائدہ خادمِ اعلیٰ کی ایسی گڈگوننس جہاں عوام پولیس کے ظلموں سے سہمی پھرے؟۔پوری پنجاب پولیس کو آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہے حرارت سے لدے ہوئے جذبات کیا صحیح ہیں؟ چند بدچلن اہلکاران و افسران کی وجہ سے پورے صوبے کی پولیس داغدار ہو رہی ہے ،کیوں کوئی نفیس قدم نہیں اٹھایا جارہا؟ اشتعال کی نہج وہ ہے کہ ایک کالم نگار نے پولیس پر ایسا لکھا جیسے یہ کسی غیرملک کی قوت ہو جس کے تمام آفیسر بس ڈسٹرکشن ہی کررہے ہیں موصوف نے گراونڈ رئیلٹی سے غیر آشنا رہتے ہوئے کہاکہ پولیس نے رینجرز کو اپنی جان بچانے کے لیے کراچی آپریشن میں جھونک دیا۔ جبکہ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا انہیں کسی غیور پولیس اہلکار کی کوئی قربانی یاد نہیں ان کی عوام کے لیے خدمات یاد نہیں ؟ملک میں مفادِعامہ کے لیے ہر قدم احسن ہے اور یہ بھی بہت معقول ہے کہ تمام اداروں میں سے گندے انڈوں کی نشاندہی کے بعد انہیں برطرف کیا جائے تاکہ اداروں کا مورال بلند ہو اچھا کام کرنے والوں کو وقار ملے اور داد وصول کرنے کے بعد پہلے سے مزید بہتر کام کر سکیں۔راء کے معاملے پر عسکری و سیاسی قیادت سوچ بیچار کر رہی ہے اور وزیرِدفاع کی طرف سے شٹ اپ کال بھی دلائی جا چکی ہے اور اب وہ ہی ہورہا ہے جو ملک کے مفاد میں ہے انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب ہر سو امن کا اجالا ہوگا۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress主题