گستاخ رسول ﷺ کے بارے میں ڈاکٹر طاہر القادری کا دیرینہ موقف اور ایک سوال

Published on August 28, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 517)      No Comments

Shahid Janjua
گیرت وائلڈرزھالینڈکا و ملعون ممبر پارلیمنٹ ہے جس نے قرآن پاک کو معازاللہ ایک فا شسٹ کتاب کہا اور اسلام مخالف بدنام زمانہ فلم ’’فتنہ‘‘ بناکر دنیا میں اسلام کے تشخص کو بدنام کرنیکی جسارت کی ، اس بدبخت نے فروری 2005 میں ھالینڈمیں گستاخانہ خاکوں کی سب سے بڑی نمائش بھی منعقد کی اور توہین رسالت کا مرتکب اور مردود ہوا اسکے رد عمل میں پوری دنیا میں مسلمانوں نے شدید اجتجاج کیا ۔گیرت نے وہی تماشا لندن میں بھی کرنیکی کوشش کی مگر یہاں مسلمانوں کے رد عمل اور شدید احتجاج کی وجہ سے حکومت برطانیا نے اسے اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
’’ڈاکٹر طاہرالقادری ‘‘ یہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے اپنی تحریک منہاج القرآن کا قیام ہی ناموس رسالت مآب ﷺ کے تحفظ کی قسم اٹھا کر کیا اور اپنی کتاب ’’ احکام اسلام اور تحفظ ناموس رسالت ﷺ‘‘ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ گستاخی رسول ﷺ کا مرتکب شخص کوئی بھی ہو وہ ’’ ملعون و مردود‘ ‘ ہے جس کا وجود بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اس کائنات ارضی پر برداشت نہیں کرتا تاآنکہ صفحہ ہستی سے اسکا نام و نشان مٹادیا جائے ،،،،،،،، ایسے حرماں نصیبوں کے لئے روئے کائنات پرٹھرنے کی کوئی جگہ نہیں اسلئے اے امت مصطفوی ﷺ کے افراد تم انہیں جہاں اور جس وقت بھی پاو وہیں ان کا سر تن سے جدا کردو اور انہیں چن چن کر قتل کردو ’’صفحہ191 ،192شاعت اول مطبوعہ1995 ۔
صرف چند ماہ قبل طاغوتی و استعماری طاقتوں کی ایماء پر کی جانیوالی اس سازش جس نے مسلمانان عالم کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ دنیا ہمیشہ دو ہی مرحلوں میں رہتی ہے امن یا جنگ ! امن ہو تو استعماری طاقتیں ہرجگہ سازش کا جال بنتی ہیں اور خواہ مخواہ ایسے حالات پیداکرتی ہیں کہ مسلمان وہ ردعمل دیں کہ ان پر دہشت گردی کا الزام لگایا جا سکے اور پھر جنگ مسلط کرکے انسانی بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے یہ دونوں رویے کسی سوسائیٹی میں نارمل شمار نہیں ہوتے اور نہ ہی تہزیب و اخلاق اور اظہارآزادی رائے کی دنیا میں انہیں معقول سمجھا گیا ہے سوال یہ ہے کہ ایسی خطرناک اور قابل مزمت سازش جس کی بازگشت ابھی تک مغربی میڈیا میں گونج رہی ہے اور شاتم رسول ﷺ ایسی اور کئی نمائش منعقد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ ناموس رسالت ﷺ کا دم بھرنے والی منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کئی سالوں کے بعداپنے پہلے کنٹینٹل دورے پر فرانس تشریف لاتے ہیں اورسوشل میڈیا میں انکے دورہ فرانس کے دوران یہ بازگشت سنی جارہی تھی کہ وہ شاتم رسول ﷺ چارلی ھبدو کو اس کے گھر میں پر چیلنج کرنے جارہے ہیں اوروہ گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے اس ملعوں کو قرآن و احادیث پر مبنی اپنے موقف سے خبردار کریں گے او ر جو امن کا نصاب وہ چاہتے ہیں کہ دنیا پڑھے تاکہ معاشرے سے بین المذاہب باہمی رواداری اور پائیدار امن کے قیام کا آغاز ہو وہ اس نصاب کی ایک کاپی اس ملعون کوبھی دینگے تاکہ آیندہ کوئی بدبخت ایسی گستاخی کرنے سے پہلے اس کے ممکنہ ردعمل اور انجام پر سوچ خوب سوچ لے ! ان سے امید کی جارہی تھی کہ وہ شیخ الاسلام والمسلمین ہونے کا فریضہ ادا کرتے ہوئے فرانسیسی ملعون و مردود ’’چارلی ھبدو ‘‘ سے ملاقات کیے بغیر وہاں سے ہرگزروانہ نہیں ہونگے مگرنہ جانے کس مصلحت کی خاطر انہوں نے فرانس میں ایک زبانی بیان تک دینے سے بھی مکمل اجتناب کیا۔ اب وہ صحت یابی کے بعد پچھلے کچھ دنوں سے ھالینڈمیں تشریف فرما ہیں جہاں تحریک کی چند لوگ ان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ اسی ٹاون میں’’ گیرت وائلڈرز‘‘ نام کا ایک کردار وہ بھی رہتا ہے جس پر توہین رسالت مآب ﷺ کا الزام ہے اور مسلمان کو توقع تھی شیخ الاسلام ہالینڈ پہنچ کر سب سے پہلے اس ملعون گیرت وائلڈرز کوایک بھرپور مناظرے کا چیلنج کرکے شدید احتجاج کریں گے جس نے آزادی اظہاررائے کے نام پر گستاخی رسولﷺ جیسے قبیج جرم کا ارتقاب کیا یہ وہ جرم ہے جسے ڈاکٹرقادری اپنی کتاب میں ناقابل معافی جرم قراردے چکے ہیں ۔ ڈاکٹر قادری نے اپنی کتاب میں سورۃ احزاب کی آیت نمبر61 کو بنیاد بناکر گستاخ رسولﷺ کی سزا پر خوب بحث کی اور پھر انہوں نے پاکستان کی شرعی عدالت میں گستاخی رسول کی سزا سر تن سے جدا، سر تن سے جدا ثابت کرنیکا مقدمہ لڑا اور وہ ہمیشہ اس نیک کام کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں لیکن آج موقع ہے کہ وہ ہ اپنے عمل سے اپنے لکھے کا بھرم رکھ کر پوری دنیا کے مسلما نوں کا سر فخر سے بلندکردیں ، خاموشی کا قفل توڑیں اور خود کو اس نعرے کا اہل ثابت کریں جو انکے چاہنے والے تین دہائیوں سے انکی آمد پر ہمیشہ بڑی گرمجوشی سے لگاتے آئے ہیں۔ مسلم دنیا ابتک ڈاکٹر صاحب کی خاموشی اور انہیں ا من نصاب پیش نہ کرنے کی وجہ جاننے سے قاصر ہے شاید اسی وجہ سے انکے ’’امن کے نصاب ‘‘ کو سنجیدہ حلقوں میں پزیرائی نہیں ملی !!!
یہ ایک تلخ حقیقت اور ھمارا المیہ ہے کہ ہم اور ہمارے نام نہاد لیڈرتہذیبی اورفکری طور پر یورپ اور امریکہ سے اس قدر مرعوب ہیں کہ ھماری زندگی کا بیشترحصہ صرف اس تگ و دو میں صرف ہوجاتا ہے کہ ہم علمی و فکری اور عملی و اخلاقی طورپراس طرح نظر آئیں جیسے وہ چاہتے ہیں اور ایسا نظر آنے کیلئے ہم اپنی شکل و صورت ، نشست و برخاست ، اطوار و عادات اور کردار و اخلاق سے لیکر دین اسلام تک کا حلیہ بگاڑنے پربھی آمادہ و مستعد رہتے ہیں۔ جسے وہ اسلام کہیں ہم ویسا اسلام پیش کرنے میں لگ جاتے ہیں جس طرح کی تہذیب کو وہ پسند کریں ھم اسی طرح کے مہزب بننے میں اپنی توانائیاں صرف کردیتے ہیں جو مسلمانی ان کو درکار ہے ہم ویسے بن جاتے ہیں حالانکہ ہمارے اقدار اور روایات مغرب کی مرہون منت نہیں ہیں ہمیں ہر وقت خدا اور رسول کی رضا مطلوب ہے ھمارا معیارتہزیب اسوہ رسول ﷺ ہونا چاہیے کیونکہ انہی کے دین اور انہی کے نام کی نسبت سے ھمارا ملی تشخص قائم ہے ورنہ رنگ ، نسل، علاقہ، اور زبان کسی کو مسلمان یا کافر نہیں بناتے ۔
جیسے مسجد کا ایک اپنا ڈیزائن ہوتا ہے اور گرجا اور مندر کا اپنا ڈیزاین حالانکہ سبھی اینٹ اور پتھر سے بنے ہوتے ہیں لیکن انکے ڈیزائن ہی سے ہم مسجد، گرجا اور مندر میں فرق کرتے ہیں اسی سے پہچان ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ کون سی ہے اور کون سی عمارت چرچ ہے ۔ اگر ہم ان علاما ت اور تشخصات و اصلاحات کے بارے میں یہ سوچ پیداکرلیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے تو سب کچھ گڈمڈ ہو جائے گا پھرنہ کوئی مسلمان رہے گا اور نہ کوئی کافر۔ روشن خیالی اور وسعت نظری کہ آڑ میں دین اور ثقافت کو کھلی چراگاہ قرار دینے کے نتائیج بہت بیانک ہونگے اور آنے والے دنوں میں لوگ اپنے مفادات ، خواہشات اور اشغال کو دین کا نام دیکر اس کے بنیادی تصورات کا حلیہ بگاڑ دیں گے ، پھر تضحیک شعائر اور عیش کوشی کرنے والے للکاریں گے کہ کوئی فقیہ اور راسخ العقیدہ مسلمان ان کے اطورار کردار پر سوال کرنے کاحق نہیں رکھتا جس کے نتیجے میں ہمارے لئے اپنے خیرخواہ اور باطل ، طاغوتی اور استحصالی طاقتو ں کے ہاتھ کھیلنے والے کسی ایجنٹ کو خدا اور رسول کا باغی قرار دینا قریبا ناممکن ہوجائے گا۔آج ہمیں اس ذہنیت کو ردکرنا ہے جو یورپ کے اعزاز کو ہی اصل اعزاز اور اس کے الزام کو یہ اصل الزام سمجھکرتھرتھرا جاتے ہیں اس کی ایک وجہ انکے اندر اعتماد کا فقدان ہے لیکن اس کا قطعا یہ مطلب نہیں ہے کہہ ہم وقت کے تقاضوں اور عالمی نشیب و فراز سے لاتعلقی کا رویہ اپنا لیں جدید علوم و فنون سے بے بہرہ رہیں اور اسکا قطعا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمیں اپنی ’ثقافت‘‘ حقیراور دوسروں کی ’’ثقافت‘‘ میں حسن نظرآنے لگے ۔گورنر مدائن حضرت سلمان فارسیؓ کسی دوسرے ملک کے اعلیٰ وفد سے ملاقات کررہے تھے اس دوران کھانے کا وقت ہوا تو زمین پر دسترخوان بچھایا گیا دوران طعام حضرت سلمان فارسیؓ کے ہاتھ سے روٹی کا ایک ٹکڑا چھوٹ کر زمین پر گرا تو آ پ نے اسے فورا اٹھاکر جھاڑا اور تناول فرمالیا۔ آپ کے ذاتی معاون نے فوری آپکو سرگوشی کی کہ حضرت بڑے مہزب ملک کا وفد ہے پرتکلف لوگ ہیں کیا سوچیں گے کہ مسلمانوں کو حکومت مل گئی لیکن نفاست نہیں آئی ، مٹی سے لقمہ اٹھاکرگئے ، آپ نے بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ کیا میں اپنے پیارے رسول ﷺ کی سنت کو ان احمقوں کی وجہ سے ترک کردوں؟ اور پچھلے تیس سال ان اولی العزم ہستیوں کی مثالیں دینے والے ڈاکٹر طاہر القادری پریہ سوالات اٹھانابنتا ہیں کہ ان کے امن نصاب کی تقریب لندن میں ہو یا اسلام آباد۔ دنیا میں امن تباہ کرنیوالے اور کشمیر ، فلسطین اور برما میں نہتے مسلمانوں کو آ گ اور
خون کی ہولی میں دھکیلنے اور نصف صدی سے مسلمانوں کی نسل کشی کرنیوالی صہیونی ریاست کی ڈاکٹر قادری نے آج تک کھل کر کبھی مزمت تک نہیں کی ؟ انکا امن نصاب مڑ مڑ کر انہی مسلمانوں کے لئے ہی کیوں ہے جو پہلے ہی مظلوم اور ب بے کس و مجبورہیں مرے ہوئے ہیں ، اب گستاخ رسول ﷺ کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری کا متحان ہے اور چند دنوں بعد اسکا بھی فیصلہ ہوجائے گا اور چلویہ بھی تسلم کرلیا کہ سابق گورنر سلمان تاثیر پر اہانت رسول ﷺ کا الزام اور اسکے گواہی مبہم ہے لیکن یہاں توسب کچھ واضح ہے اورکیمرے کی آنکھ سب کچھ محفوظ کر چکی اور ایسی گستاخی کرنیوالے بھی اپنے اسی موقف پرآپ کے سامنے کھڑے ہیں !اور اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کس طرح اس الزام سے سرخرو ہوکر نکلتے ہیں !!!

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes