سیاسی بساط‘نئے کھلاڑی ‘نئے اتحاد

Published on November 16, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 303)      No Comments

\"logo(1)\"

گذشتہ دنوں جماعت اسلامی کے امیر کے شہید اور شہادت کے معاملے پر بیان نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھاکہ پاکستان میں دہشت گردی ، بے روزگاری اور مہنگائی سے زیادہ ، یا اس سے زیادہ اہم مسئلہ اب کوئی اور نہیں ۔ تمام ہی سیاسی جماعتیں بشمول حکومت و اپوزیشن ، سماجی و سیاسی طبقات اسی بحث میں الجھ پڑے کہ’’ شہید کون ہے ‘‘اور جماعت اسلامی کے امیر نے جو بیان دیا وہ کس قدر قابل توجہ ہے ، قابل مذمت اور قابل بحث ہے ۔ اس تمام تر بحث کے تناظر میں ماضی سے حال کے واقعات کے تسلسل پر نظر دوڑائی جائے تو 1977ء میں ضیاء الحق مارشل لاء کے بعد سے تاحال ایسی کوششیں کی جاتی رہی ہیں کہ جب جمہوری حکومت ، عوام اور فوج کو باہم متصادم کیا جائے ۔ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت حالات کو کئی بار اس نہج پر لانے کی کوشش کی گئی ۔ حالیہ دنوں میں اسی نوعیت کے واقعات کا تسلسل سے رونما ہونا اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔
اگرجمہوری تناظر میں دیکھا جائے تو یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے دروازے جب بھی کھلے ہیں اس میں زیادہ دور آمر حکومتوں کا تھا ۔ پاکستان کی حالیہ ترقی میں مشرف دور حکومت کا نام لیا جاتا ہے ۔یہاں افسوسناک کا لفظ اس لئے استعمال ہوا ہے کہ جمہوری اقدار و حکومتوں کا اپنا پروقار مقام ہے ۔ لیکن پاکستان کی حکومتی تاریخ میں سیاسی جماعتوں کے کردار کو پرکھا جائے تو یہ پروقار مقام انتہائی پستی میں گرتا دکھائی دیتا ہے ۔ ہر جانیوالی حکومت پر کرپشن اور اقرباپروری کے الزامات اب ہماری روایت بن چکے ہیں ۔ قومی خزانہ کا خالی ہونا ، مسائل کا بڑھ جانا ، عوامی مشکلات میں اضافہ ، بے روزگاری ، مہنگائی ، دہشت گردی جیسی معاملات کا سر اٹھانا جمہوری حکومتوں کا خاصا بن چکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی آمرانہ دور حکومت کو ناپسندیدہ عمل قرار نہیں دیا گیا ۔بلکہ حد تو یہ ہے کہ عدالتوں نے بھی آمر حکومتوں کے اقدامات کو تحفظ دیا ۔
یہ ان حالات و واقعات کا مختصر ذکر ہے کہ اگر اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہی محسوس ہوگا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور عسکری قوتوں کے درمیان چپقلش کا ماحول صرف آج ہی کی بات نہیں ۔ بلکہ قومی اور صوبائی پر ہمیشہ سے براجمان سیاسی طاقتوں نے کسی دوسری قوت کی اقتدار میں شمولیت کو ہمیشہ سے ناپسندیدہ سمجھا ہے ۔ صرف جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی جماعتوں نے دبے دبے لفظوں میں اس کی مخالفت کی اور جب آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہوا تو یہی دبے دبے الفاظ چیخ و پکار میں تبدیل ہوئے ۔ نہ صرف آمرانہ قوتوں بلکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بلدیاتی نظام حکومت کی بھی جمہوری حکومتوں میں حوصلہ شکنی کی گئی ہے ۔ وجہ صرف یہی ہے کہ بالا ایوانوں میں بیٹھے حکمران ہو یا اپوزیشن اراکین انہوں نے کسی کو اپنا شریک تسلیم نہیں کیا ۔ ملک میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے دور میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مرحلہ آیا ہے ۔ لیکن یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ان انتخابات کے التواء کیلئے کس قدر سر توڑ کوششیں کی گئی ہیں ۔ قومی اسمبلی سے صوبائی اسمبلیوں میں قراردادوں کی منظوری ہو یا اعلیٰ عدالتوں میں ان انتخابات کے ملتوی کئے جانے کی درخواست ، یہ سب اسی لئے ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان لوگوں کا راستہ روکا جائے جو عوامی مسائل کے حل کیلئے معاون و مددگار ثابت ہوسکتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں پہچنا چاہتے ہیں ۔
ان حالات و واقعات کا تسلسل اگر سابق فوجی صدر پرویز مشرف سے جوڑا جائے تو بھی یہی دکھائی دیتا ہے کہ اقتدار اور فوجی عہدہ سے علیحدگی کے بعد جب پرویزمشرف نے سیاست میں قدم رکھ کر عوام کی خدمت کرنے کا عزم ظاہر کیا تو پہلے سے موجود سیاسی میدان میں موجود جماعتوں اور حکمرانوں نے انہیں اپنے درمیان جگہ نہ دینے کی روایت برقرار رکھی ۔ لیکن پرویز مشرف کا معاملہ کچھ مختلف یوں ہے کہ پرویز مشرف عوامی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے ۔پرویز مشرف کی عوامی مقبولیت کو ان قوتوں نے بھی محسوس کیا ہے جو ہمیشہ سے پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی میں مرکزی کردار ادا کرتی رہی ہیں ۔
گذشتہ دنوں ہمارے ملک میں چند بڑے واقعات رونما ہوئے۔ جنہیں ایک تسلسل کے ساتھ پڑھا جائے تو ان میں کہیں بھی مطابقت دکھائی نہیں دیتی ۔ لیکن اگر یہاں بھی غور کیا جائے تو آنے والے حالات اور تبدیلیوں کا عندیہ ان سے ضرور مل سکتا ہے ۔
یکم نومبر کو تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ معسود کا ڈرون حملے میں ہلاک ہونا (کچھ لوگوں کی نگاہ میں ’’شہید ‘‘ ہونا) ۔
چارنومبر کو پرویز مشرف کے قریبی ساتھی بیرسٹر محمد سیف کی ایم کیو ایم میں شمولیت ۔
پانچ نومبر کو غازی عبدالرشید کیس میں پرویز مشرف کی ضمانت اور بعدازاں رہائی ۔
جیساکہ بالا سطور میں بیان کیا کہ ان خبروں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ۔مگر ماضی سے مستقبل تک نظر ڈورائی جائے تو ان کو خبروں کو کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے تعلق جڑا نظر آتا ہے ۔پہلے ہم بات کرتے ہیں کہ حکیم اللہ معسود کی جنہوں نے 2007ء میں بیت اللہ معسود کی قیادت میں طالبان تحریک میں شامل ہوئے ۔۔۔۔۔خوش مزاج ہونے کے باعث حکیم اللہ معسود اپنے ساتھیوں میں مقبول تھے ۔حکیم اللہ بیت اللہ معسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد 30سال کی عمر میں 2009ء میں طالبان کمانڈر منتخب ہوئے اور ناحق خون بہانے کا برسوں سے جاری سلسلہ شروع جاری رکھا ۔حکیم اللہ معسود امریکہ ‘یورپ ‘بھارت اور پاکستان سمیت دیگر کئی ملکوں کیلئے خطرہ کی علامت بن گیا تھا ۔حکیم اللہ معسود افغانستان میں 7امریکی سی آئی اے اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھا۔جس کی وجہ سے وہ امریکہ کی انتہائی مطلوب افراد کی لسٹ میں شامل تھا۔حکیم اللہ معسود پاکستان میں کئی کاروائیاں کرچکا ہے جس سے سینکڑوں بے گناہ افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔حکیم اللہ معسود نے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ ہندوؤں اور مسیحی برادری کو بھی نشانہ بنایا ۔چرچ ہو یا مسجد ،مزارات ہو یا مجالس حکیم اللہ معسود نے پے درپے ان پر دہشت گردی کی کاروائیاں کی ۔جن میں کسی کو اپنا باپ کھونا پڑا، تو کسی کو اپنی ماں ۔کسی کواپنی بہن ۔تو کسی کو اپنا بھائی اور کسی نے اپنے انتہائی قریبی عزیز کی نعش پر ماتم کناں ہونا پڑا ۔تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ معسود کے دیگر طالبان گروپ سے بھی اختلافات تھے ۔یہی وجہ تھی کی گذشتہ دنوں مخالف گروپ کی جانب سے ان کی تنظیم کے سربراہ کے گھر دھماکہ بھی کیا گیا تھا۔ جس میں چار افراد جاں بحق ہوئے تھے۔حکیم اللہ معسود کے وجہ سے بہت سے اعلیٰ عہدہ پر فائز شخصیات کو اپنی جان کا خطرہ رہتا تھا جس کی بنا پروہ اپنے محلوں میں قید رہتے تھے ۔ پرویز مشرف جلا وطنی ختم کرکے جب پاکستانی سر زمین پر اپنا قدم رکھا تو تب بھی حکیم اللہ محسود ہی نے پرویز مشرف کو بھی قتل کی دھمکی دی تھی۔پرویز مشرف پر اپنے دور اقتدار پر حملے ہو چکے ہیں ۔تاہم خوش قسمتی سے محٖفوظ رہے ۔
جیسا کہ تذکرہ ہوا کہ حکیم اللہ معسود کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں اور دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر پرویز مشرف اقتدار کے علیحدگی کے فوری بعد ملک سے چلے گئے تھے۔تقریباً پانج سال وہ پاکستان سے باہر رہے اور پھر اپنے سیاسی کیرئیر کی شروعات کیلئے عام انتخابات سے قبل پاکستان پہنچے تو انہیں مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس میں ان کی گرفتاری عمل میں آئی لیکن حکیم اللہ محسودکی دھمکیوں کے پیش نظر پرویز مشرف کو جیل میں قید رکھنے کے بجائے ان کی اپنی رہائش گاہ چک شہزاد کو سب جیل قرار دیکر انہیں وہاں رکھا گیا۔چک شہزادمیں قید رہ کر پرویز مشرف نے مقدمات کا سامنا کیا جن میں اکبر بگٹی قتل کیس‘بینظیر بھٹو قتل کیس‘غازی عبدالرشید قتل کیس اور ججز نظر بند ی کیس شامل ہیں اور ان تمام ہی مقدمات میں وقت گزرنے ساتھ ساتھ ان کی ضمانتیں منظور ہوتی رہی اور ساتھ ہی یہ تفصیلات بھی سامنے آئی کہ ان پر قائم کسی بھی مقدمے میں براہ راست وہ ملوث نہیں ہیں۔حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے تین روز بعد پرویز مشرف کی آخری مقدمہ میں بھی ضمانت منظور کرلی گئی اب ان کے خلاف کوئی ایسا مقدمہ درج نہیں جس کی بنا پر انہیں قید میں رکھا جائے اور نہ ہی وہ شخص دنیا میں موجو ہے جس نے بارہا اسے قتل کرنے کی دھمکی دی تھی ۔یوں پرویز مشرف اب اپنا سیاسی کیرئیر آزادی سے عوام کے درمیان رہ کر ایک بار پھر آزمانے کی پوزیشن میں آچکے ہیں ۔
پاکستان میں ہمیشہ سیاسی قوت کے پس پردہ غیر ملکی ہاتھ کار فرما ہونے کی باتیں کی جاتی رہی ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کو مختلف ملکی و غیر ملکی ایجنسیوں کو ہم نواں قرار دیا جاتا رہا ہے اور یہ بھی اب بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے سیاسی و انتظامی معاملات میں آئی ایم ایف اور امریکہ کس حد تک اثر رسوخ رکھتے ہیں حتی کہ یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ کہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومت کی آمد اور رخصتی امریکی کے آشر باد سے ہوتی ہے اسی لئے ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں پر ماضی سے حال تک امریکہ کی کاسہ لیسی کے الزمات عائد اور ثابت ہوتے رہے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ وہ واحد جماعت ہے جس نے ہمیشہ سابق صدر مشرف کی غیر مشروط حمایت کی ہے اور حمایت کا یہ سلسلہ واضح انداز میں آج بھی جاری ہے ۔ ایک تجزیہ یہ ہے کہ جو حلقے پرویز مشرف کے حامی ہیں وہی متحدہ قومی موومنٹ کے حامی ہیں ۔ یوں جہاں سیاسی محاذ پر یہ حمایت دونوں ایکدوسرے کے قریب رکھتی ہے تو دوسری جانب انتخابی عمل یا اسمبلیوں میں ان کی علیحدہ علیحدہ شناخت بھی ایک دوسرے کے لئے نقصان دہ دکھائی دیتی ہے ۔ یعنی مشرف کی سیاسی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کو ان حلقوں میں پذیرائی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جہاں متحدہ قومی موومنٹ کو اہمیت حاصل ہے ۔ لہذا تصادم کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کرنے کیلئے ضروری ہوچکا ہے کہ دونوں جماعتوں کو ایک کیا جائے یا پھر ان جماعتوں کا اتحاد وجود میں لایا جائے ۔ بیرسٹر سیف کی متحدہ میں شمولیت اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے ۔ یوں پہلی بار کسی بڑی سیاسی جماعت کے توسط سے ایک سابق فوجی جنرل کی سیاسی جماعت عوامی حلقوں میں پذیرائی کیلئے تیار ہے ۔یوں بیرسٹر سیف کی متحدہ میں شمولیت ، مشرف کی ضمانت اور طالبان لیڈر کی ہلاکت جیسے واقعات پرویز مشرف کے آئندہ کے سیاسی مستقبل اور پذیرائی کا عندیہ دے رہے ہیں ۔ یہ سب اس لئے بھی ممکن نظر آرہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹ کر عوام کو مشکلات کے سمندر میں دھکیل چکی ہے تو مسلم لیگ ن بھی اسی طرز کی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے جس سے عوام الناس میں مایوسی پائی جاتی ہے ۔ لہذا وہ تیسری قوت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور یہ تیسری قوت متحدہ اور آل پاکستان مسلم لیگ کے اتحاد کی شکل میں سامنے لانے کی تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں ۔یہ سب ہوگا نئے آرمی چیف کی آمد اور موجودہ چیف جسٹس کی رخصتی کے بعد ۔ اس کے لئے مجھ سمیت تمام پاکستانیوں کو انتظار کرنا ہوگا ۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Theme