چولہے کی سیاست

Published on November 30, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 411)      No Comments

shafqat1
تحریر۔۔۔ شفقت اللہ ۔۔۔ جھنگ
حجام کی دوکان سے اچانک شور اٹھا اور لوگ اس طرف لپکنے لگے ایسے میں ہم بھی تھوڑا آگے ہولئے ۔پاس جانے پر پتا چلا کہ دو لوگ آپس میں گتھم گتھا ہیں اور حجام انہیں چھڑوانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن جب زیادہ بھیڑ ہو گئی تو دو پارٹیاں آپس میں جھگڑا کرنے لگ گئیں اور حجام کو بیچ سے دھکا دے دیا۔لڑائی اس قدر ہوئی کہ چار لوگ شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل ہوگئے اور کئی لوگوں کو پولیس پکڑکرلے گئی اور قریب پچاس لوگوں پر پولیس نے لڑائی جھگڑے کا مقدمہ درج کردیا ۔معززین علاقہ اور عوامی نمائندے اکٹھے ہو کر تھانہ میں پہنچے اور معاملہ دریافت کیا تو پولیس والوں نے جو مقدمہ درج کیا تھا اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے امیدوار کی خصوصیات اور دوسرے امیدوار کی خامیاں بتاتے ہوئے جھگڑ پڑیں جسکی وجہ سے دونوں پارٹیوں کے دو دو لوگ شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچ گئے اور باقی تھانوں میں پڑے ہیں ۔المیہ یہ بنا کہ جن امیدواروں کی پارٹیا ں آپس میں گتھم گھتا تھیں ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ الیکشن کے ضابطہ اخلاق کی پابندی نہ کرنے کے جرم میں سزا ہونے کی وجہ سے انتخابات سے ڈسکوالیفائیڈ ہو گئے ۔
بلدیاتی الیکشن ہوں یا ضمنی انتخابات دونوں کی صورت میں امیدواروں سے زیادہ ہر جگہ عوام اور جیالے پر جوش نظر آتے ہیں ۔گھروں میں ، دفاتر میں ، حجام کی دوکانوں اور ہوٹلوں پر سب جگہ امیدواروں کے پوسٹرز ،بینر ز اور فلیکس آویزاں کر کے سجایا گیا ہے ۔اور انکے امیدوارو ں کے قصے سننے کو ملتے ہیں طرح طرح کی باتیں اور پھر ان کے تجزیے یوں لگتا ہے جیسے ہر کسی کا امیدوار الیکشن ہونے سے پہلے ہی جیت چکا ہے ۔پارٹی ورکرز اپنی اپنی پارٹیوں کے نشانات پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کا ساتھ دیتے ہیں چاہے اس کیلئے کچھ بھی کرنا پڑ جائے ۔ایک ہی گھر کے چار افراد میں سب کی سوچ مختلف ہوتی ہے ۔ہر ایک کا ضمیر الگ ہوتا ہے اور اس کا ایک اپنا امیدوار ہوتا ہے۔بعض معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی خاندان کے افراد کسی ایک امیدوار کیلئے متفق نہیں ہوتے جس کیلئے ان کے آپسی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں جن کے نتائج انتہائی سنگین ہو تے ہیں ۔
پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کا ہر طرف چرچا ہے اور کئی مقامات پر یہ مختلف مراحل میں مکمل بھی ہو چکے ہیں ۔پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں تین مراحل میں کروائے جانے تھے جن میں دو مراحل مکمل ہو چکے ہیں اور تیسرا اور آخری مرحلے کیلئے تیاریاں زوروں سے جاری ہیں ۔اس سلسے میں ہر امیدوار کامیابی کیلئے ہمت مار رہا ہے اورسیاسی جوڑ توڑ بھی جاری ہے ۔ہر پارٹی اپنے اپنے امیدوار کو مکمل طور پر تعاون فراہم کر رہی ہے ۔لیکن عوام کو اس معاملے میں پارٹی بازی نہیں کرنی چاہئے جس کو ضمیر کہتا ہے اسے اپنا ووٹ کاسٹ کریں اور اللہ سے دعا کریں کہ اگر ان کا امیدوار کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ ان کے مسائل حل کروانے اور انکی آواز کو حکومت تک امانت سمجھ کر پہنچائے گا ۔
الیکشن صرف ایک دن کا ہوتا ہے لیکن تین ماہ پہلے ہی الیکشن کے معاملے میں دھڑے بندیاں اور پارٹی بازیاں ہونا شروع ہو جاتیں ہیں ۔ جس کی وجہ سے کافی سنگین نتائج بھی سامنے آتے ہیں جیسے کہ سندھ میں اسی سال میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پولنگ ڈے پر مختلف لڑائی جھگڑوں کے واقعات میں 12 کے قریب افراد مارے گئے او ر باقی لڑائی جھگڑوں کے واقعات میں زخمی ہونے والوں کی تعداد الگ ہے جو کسی اعدادو شمار میں نہیں آتی ۔اسی طرح پنجاب کے شہر فیصل آباد میں پولنگ ڈے پر ایک نوجوان گولی لگنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ،وفاقی وزیر پانی و بجلی جب کسی پولنگ پر اپنے بھائی کے نتائج معلوم کرنے کیلئے گئے تو انہیں اپنی ہی پارٹی کے جیالوں نے گھیر لیا نعرے بازی اور ہلڑ بازی بھی کرتے رہے جنہیں بعد میں پولیس نے منتشر کیا اور وفاقی وزیر کو پروٹیکشن دی ۔حال ہی میں ضلع جھنگ میں بلدیاتی انتخابات سے قبل ہی الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور دفعہ 144 کی دھجیاں اڑانے کے جرم میں پولیس نے 6 امیدوار برائے چئیرمین و وائس چئیرمین سمیت تین سو لوگوں کو گرفتار کر کے ان پر ایف آئی آر درج کر دی ہے۔جہاں بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں پرُ امن الیکشن ہوئے ہوں اور ایسے معاملا ت پیش نہ آئے ہوں ۔لوگ بلکل بھی نہیں سوچتے کہ آخر ہم کر کیا رہے ہیں یہ سب ہمار ے لئے ٹھیک بھی ہے یا نہیں ۔جس امیدوار کیلئے ہم اتنی لڑائیاں لڑ رہے ہیں وہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد ہمارے لئے اور ہماری نسلو ں کیلئے کچھ کرے گا بھی یا نہیں ؟؟؟؟
انتخابات میں ایسے واقعات کا پیش آنا معمول بن چکا ہے اور زیادہ تر امیدوار اپنے تئیں تیار ہو کر جاتے ہیں ان کے جیالے ہمہ وقت اپنے اپنے امیدوار کے صرف ایک اشارے کے منتظر ہوتے ہیں کہ ٹوٹ پڑتے ہیں وہ نہیں سوچتے کہ ہم لڑائی کس وجہ سے کر رہے ہیں اور مار کھانے والوں کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ انہیں مارا کس وجہ سے جا رہا ہے ؟ ان حالات کے پیدا ہونے میں سب سے بڑی وجہ عوام کی طرف سے ان امیدواروں کا چناؤ ہے جو زیادہ مالدار ہوتا ہے اور اس کیلئے پڑھا لکھا ہونے کی کوئی شرط نہیں ہوتی۔اب سوچنے کی بات ہے کہ ایک شخص جسکو تعلیمی شعور ہی نہیں وہ آپ کے مسائل کے بارے میں کیا سوچے گا ؟ اس کو کیا پتا کہ ہسپتال اگر میرے حلقہ میں بن جائے تو اس کا سب سے زیادہ کس کو فائدہ ہے ،سکول بن جانے سے سب سے زیادہ کس کا خاندان مستفید ہو گا ،نکاسی آب کا نظام بہتر بنانے کے مثبت نتائج کس کو ملیں گے ؟سوئی گیس اگر گھروں تک پہنچ جائے گی تو سالانہ جو لکڑی استعمال ہوتی اور اس کی وجہ سے جو درختوں میں دن بدن کمی آنے کی وجہ سے موسمی حالات بدل رہے ہیں ان کے رک جانے سے فائدہ کس کی نسلوں تک ہو گا ؟بجلی کی سہولت میسر ہونے سے لوگ کتنی تکلیفوں سے بچ جائیں گے ،پینے کا پانی صاف میسر ہوگا تو کتنی وبائی اور جان لیوا بیماریوں سے ہم بچ جائیں گے ،لیکن یہ سب باتیں کس کو سمجھائیں ؟ یہاں تو،، میاں بیوی راضی کیا کرے گا قاضی ،، والی بات ہے ۔جب عوام ہی خود اس بات پر راضی ہے کہ ان کا نمائندہ ایسا ہونا چاہیئے تو کیا کیا جا سکتا ہے ۔
خیر بات انتخابات کے درمیان ہونے والی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ہو رہی تھی کہ کیسے عوام کے درمیان جھگڑے ہوتے ہیں اور کیوں ہوتے ہیں ۔انتخابات کا صرف ایک دن ہوتا ہے لیکن عوام پولنگ ڈے سے پہلے ہی انتخابات کروا لیتی ہے ۔ان معاملات کی وجہ سے جو دشمنیاں پیدا ہوتیں ہیں وہ دیر تک چلتی ہیں ،انا بازی اور رنجش کی وجہ سے سنگین نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن اس وقت ان کے نمائندے کہاں ہوتے ہیں ؟عوام کو سوچنا چاہئے کہ جس نمائندے کیلئے وہ اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں وہ انکے ساتھ مخلص بھی ہے کہ نہیں وہ اس قابل ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کے مسائل حل کرواسکے گا؟اختلافات تو ہر جگہ ہوتے ہیں ،بھائیوں میں ،دوستوں میں رشتہ داروں میں ہر جگہ اختلافات ہوتے ہیں لیکن انتخابات کی وجہ سے اختلافات کو اس قدر سنگین نہیں لینا چاہئے کہ قتل و غارت کی جائے۔ جو لوگ قومیت ،فرقہ پرستی وغیرہ کے نام پر لوگوں سے ووٹ مانگتے ہیں اور فرقہ واریت جیسے خطر ناک بارود کو ہوا دیتے ہیں وہ بلکل بھی ووٹ کے حق دار نہیں ہیں ۔
ہر ایک شخص اس بات کو محور بنا کر سوچے کہ ہم سب ایک قوم ہیں ،ہم پاکستانی ہیں باقی تمام ذات پات ،رنگ نسل،امیر غریب اور فرقہ واریت سب کو اپنی سوچ سے مٹا دے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں آ جائے گا اور اسی میں ہی ہماری بھلائی ہے اور ملکی سالمیت بھی ہے۔لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنا حق رائے دہی خوش اسلوبی سے استعمال کریں اور امیدواروں کو چاہئے کہ وہ صرف لوگوں تک اپنا منشور پہنچا دیں کیوں کہ ووٹ ضمیر کا ہوتا ہے جس شخص کا ذہن جس امیدوار کیلئے مطمئن ہوتا ہے وہ اسی کو ہی ووٹ کاسٹ کرتاہے چاہے اس امیدوار کے مقابلے میں اسکا کوئی سگا ہی کیوں نہ ہو ۔عزت دینے والی اور عزت لینے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور مسلمان ملک کے ساتھ مسلمان قوم ہونے کے ناطے ہمیں اللہ کی بڑائی اور ترازو پر ہمیشہ یقین رکھنا چاہئے کیوں کہ ساری دنیا کی باگ دور اسی کے ہاتھ میں ہے۔ضمیر کا فیصلہ ایک امانت ہے جو ریاست کی مضبوطی اور سالمیت کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ان بلدیاتی انتخابات کا مقصد ریاستی طاقت کو عوام تک پہنچانا ہے تاکہ ہر ایک شخص کیلئے حکومت تک رسائی آسان ہو سکے اور عوام کے وہ مسائل آسانی سے معلوم کئے جا سکیں جو عوام ڈائریکٹ حکومت تک نہیں پہنچا سکتی ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Weboy