شدید ضعف عضلات ایک خطر ناک خاموش قاتل

Published on April 27, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 865)      No Comments

logo final
شدید ضعف عضلات ایک ایسی پیچیدہ عضلاتی بیماری ہے جس میں اینٹی باڈیز دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انسان کے عضلات کے ساتھ اعصاب کا رابطہ ختم کر کے انہیں کمزورکر دیتے ہیں یہ بیماری بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے اس بیماری سے مرودوں سے زیادہ عورتیں متاثر ہوتیں ہیں ۔یہ بیماری جسم کے ان عضلات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے جن کی حرکت انسان کے بس میں ہو تی ہے جیسا کہ آنکھوں ،منہ اور گلے کے عضلات۔ اس بیماری کا مریض سب سے پہلے سترویں صدی میں سامنے جس پر کوئی خاص ریسرچ سامنے نہیں آئی لیکن بعد میں انیسویں صدی میں ایک ڈاکٹر نے اسے پٹھوں کی بیماری کے طور ایک الگ حیثیت سے متعارف کروایا ۔مختلف تحقیقات اور ریسرچ کے بعد اس بیماری کی تشخیص اور علاج دریافت کر لیا گیا ۔بیسویں صدی میں اس بیماری کو دماغ کی بیماریوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور خاص دماغ کے ڈاکٹرز نے اس بیماری کو یوں بیان کیا کہ یہ بیماری نہ تو وراثتی ہے اور نہ ہی فوری حملہ کرتی ہے بلکہ یہ پٹھوں کی ایسی بیماری جس میں اعصاب اور پٹھوں کے درمیان رابطہ کروانے والے کیمیکلز کے خلاف بننے والے اینٹی باڈیز زیادہ ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہ بیماری ظاہر ہوتی جو کہ پہلی سٹیج پر ہی انتہائی خطر ناک ہوتی ہے ۔عام طور پر یہ بیماری آنکھوں ،منہ اور چہرے کے پٹھوں پر اثر انداز ہوتی ہے جس کی وجوہات زیادہ چبانا ،بولنا اور معدے کے پٹھے ہیں ۔اگر یہ بیماری سانس لینے والے آرگنز کے پٹھوں پر حملہ آور ہو تو مہلک ہو جاتی ہے اور ان انٹی باڈیز کی تعداد میں اس حد تک اضافہ کی بڑی وجہ غدودوں کے فعل میں خرابی ہوتی ہے اور پٹھوں کے ریشوں میں بافتی تبدیلیاں بھی اسکا سبب ہیں ۔اسکی کئی وجوہات ہیں جن میں موروثی طور پر بیماری کا ہونا ،گلے کے غدودوں کا کینسر یا فعلی خرابی جسکی وجہ سے اینٹی باڈیز کا زیادہ مقدار میں بننا،ریاحی جوڑوں کا درد،شوگراور اس کے علاوہ دیگر مہلک غدودوں کی بیماریاں شامل ہیں۔اس بیماری سے جو علامات سامنے آتیں ہی ان میں سب سے پہلے پٹھوں میں تھکاوٹ ہوتی ہے اور عورتوں میں خاص طورپر حمل کے ایام میں اس بیماری کا حملہ زیادہ ہوتا ہے کہ جب عورت سے بچے میں اینٹی باڈیز منتقل ہو تے ہیں یہ مسئلہ دو سے تین ماہ میں ختم ہو جاتا ہے لیکن اگر اینٹی باڈیز مسلسل پیدا ہوتے رہیں تو یہ بیماری مستقل ہو جاتی ہے۔شروع میں مریض کو ایک کی جگہ دو نظر آتے ہیں یا بائیں پلک جھکنے لگ جاتی ہے یعنی مریض کی بصارت پر پہلے حملہ ہوتا ہے ہر تین میں سے دو لوگوں کو یہ علامات عام ہوتیں ہیں ۔اس بیماری میں مبتلا مریض اعضا ء کو حرکت نہیں دے سکتا ،بولنا اور نگلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کئی دفعہ مختلف اعضا ء کو فالج کا معمولی جھٹکا لگتا ہے اور سانس لینے میں بھی دشواری ہوتی ہے اورپٹھوں پر اس بیماری کے حملے سے دنوں کی جگہ گھنٹوں میں نہایت شدت کی کمزوری ہو جاتی ہے اور اگر یہی بیماری چہرے کے پٹھوں پر حملہ کرے تو چہرا ماسک نما لگنے لگتا ہے اور ہنستے ہوئے چہرے میں ٹیڑھا پن نظر آتا ہے۔اس شدید عضلاتی ضعف کا مکمل علاج نہیں ہے ہاں البتہ اگر اس کی تشخیص جلد ہو جائے تو بہتر زندگی گزارنے کیلئے کچھ ادویات سے مد لی جاسکتی ہے ۔پاکستان میں اس بیماری کی روک تھام کیلئے سرکاری سطح پرکوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی لیکن یہ بیماری کینسر کی ہی دوسری شکل ہے کہ جسکا علاج ممکن نہیں ہے ۔ہم اکثر اپنے ارد گرد ماحول میں دیکھتے ہیں کہ صحت جیسی بنیادی سہولت لوگوں کو میسر نہ ہو نے کی وجہ سے کیسے لوگ دوا نہیں خرید سکتے کہ جب وہ اتنا خرچ برداشت نہیں کرتے کہ جس شرح سے پاکستان میں ڈاکٹر اور ادویات مہنگی ہیں ۔اس مرض کی تشخیص کیلئے جو مخلتف ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں ان ابتدائی ٹیسٹوں کی فیس بھی ہزاروں میں ہے یہ اخراجات لگ بھگ تیس ہزار روپے کے قریب ہوتے ہیں ۔ضلعی سطح پر جو ہسپتال کام کر رہے ہیں ان میں پروفیسر ز اور نیوروڈاکٹر نہیں ملتے لیکن وہ دور ڈویژنل سطح پر کام کرنے والے ہسپتالوں میں ضرور ملتے ہیں جہاں انکے پاس اس لئے وقت نہیں ہوتا کیونکہ پوری ڈویژن جس میں چار یا پانچ اضلاع آتے ہیں سے مریض وہاں چیک اپ کیلئے آتے ہیں اور رہا سوال کہ نجی کلینکس پر چیک اپ کروانے کا تو اس مرض سے متعلقہ ڈاکٹرز کی فیس اتنی زیادہ اور ادویات اتنی مہنگی ہوتیں ہیں کہ اونچے طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بہت مشکل سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور بنیادی مراکز صحت میں تو ڈاکٹربھی دستیاب نہیں ہوتا بلکہ وہاں ڈسپنسر ز لوگوں کو چیک کر کے ادویات کی پرچی لکھ رہے ہوتے ہیں جنہیں وہی کوالیفائیڈ ڈاکٹر اطائی کا نام دیتے ہیں مطلب اگر سرکاری ہسپتال میں وہی ڈسپنسر کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کی جگہ کام کر کے انکی تکلیف کم کر دے انہیں اپنا نجی کلینک چلانے کی مکمل آزادی دے تو ٹھیک ہے وگرنہ وہ اطائی ڈاکٹر ہے؟ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں ادویات اور دیگر بنیادی سہولیات عام طبقے کی پہنچ سے باہر ہیں اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہزار میں سے تیس لوگ اس شدید عضلاتی ضعف میں مبتلا ہیں اور ان میں سے صرف پانچ لوگ اس قابل ہیں کہ وہ اپنی دوا کا خرچ برداشت کر سکتے ہیں اور باقی پچیس کے قریب لوگ اسی طرح کڑھتے ہوئے مر جاتے ہیں ۔کسی بھی ملک کے آئین و قانون میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ صحت ،خوراک،پانی،تحفظ جیسی دیگر بنیادی سہولیات کی عوام کو فراہمی ریاست کا فریضہ اولین ہے لیکن پاکستان میں اس آئین کی کھلے عام خلاف ورزی کی جارہی ہے شرح آگاہی ،شرح خواندگی سے انتہائی درجے کم ہے یہی وجہ ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ بھی اپنی صحت اور خواراک کے ساتھ وقت پر علاج کروانے سے قاصر رہتا ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے آئین و قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے تما م سطحوں پر پروفیشنل ڈاکٹر وں کے طبقے کی عوام کیلئے فراہمی کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کیلئے آگاہی کو بھی یقینی بنائے اور شدید عضلاتی ضعف جیسی جان لیوا بیماریوں کی روک تھام اور علاج کیلئے اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے بہترین اور مایا ناز ڈاکٹروں کی مدد سے مؤثر حل وضع کرے ،اس مرض کی تشخیص کیلئے سرکاری سطح پر تشخیص سنٹر قائم کریں جس سے ہر طبقہ کے لوگ با آسانی اور بلا متیاز مستفید ہوں تاکہ مزید لوگ اس بیماری سے تڑپ تڑپ کرمایوسی کی زندگی گزارنے کی بجائے زندگی کی روشن نوید کے ساتھ زندگی گزاریں ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Premium WordPress Themes