امام غزالی رحمۃ اللہ فر ماتے ہیں کہ شیطان ہمارا ایسا دشمن کہ جو کبھی رشوت قبول نہیں کرتا باقی دشمن ایسے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی ہدیے تحفے اور رشوت دے تو وہ نرم پڑ جائیں گے اور مخالفت چھوڑدیں گے اور اگر خوشامد کی جاے تو اسے بھی وہ مان جائیں گے مگر شیطان وہ دشمن ہے جو نہ تو رشوت قبول کرتا ہے نہ خو شامد قبول کرتا ہے یہ کوئی نہیں کہ سکتا کہ ہم ایک دن بیٹھ کے اس کی خوشامد کرلیں گے اور یہ ہماری جان چھوڑ دے گا یہ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ یہ ایمان کا ڈاکو ہے اور اسکی ہر وقت اس بات پر نظر ہے کہ میں کس طرح انسان کو ایمان سے محروم کر دوں،شیطان تو واقعی ایمان کا ڈاکو ہے اور اسکی ہر وقت اس بات پر نظر ہے کہ میں کس طرح حضرت انسان کو ایمان سے محروم کر دوں،سچ پوچھیں تو مجھے شیطان سرکاری دفاتر میں بیٹھے ان لوگوں سے بہتر لگا ہے جو رشوت،بخشیش،ایزی لوڈ کے بدلے بھی کام نہیں کرتے حالانکہ ان کی اور شیطان کی ڈیوٹی میں بہت کم ہی فرق ہے بس شیطان دکھلائے کی نمازیں نہیں پڑھتا اور وہ ایسا کبھی کبھار کر لیتے ہیں،ایک دوست نے بتایا ہے کہ ضلع مانسہرہ میں ایک ایسا پولیس آفیسر بھی گزرا ہے جس نے قسم اٹھا رکھی تھی کہ وہ رشوت نہیں لیتا اور تو اور وہ جائے نماز پر بیٹھے ہوتے تھے تو تب بھی وہ اپنے ماتحت کو کن اکھیوں کے اشاروں سے اپنے جیب کی جانب متوجہ کرواتے اور اشاروں سے بتلاتے کہ اتنے نوٹ ڈال دیے جائیں،اسی محکمہ میں ایک صاحب ایسے بھی بلکہ شاید اب بھی ہیں جو کہ دوران نماز بھی یہی آرزو اور دعا کرتے تھے کہ خدایا کوئی حرام کی کمائی والا نصیب میں ڈال دے جس سے وہ کچھ رج کے مال بٹور سکے اور وہی صاحب کئی بار ایسے مواقعوں پر نماز توڑتے ہوئے بھی دیکھے اور پائے گئے،رشوت کو تو اب رواج بنا دیا گیا کہ کہا جاتا ہے کہ اگر رشوت دیتے ہوئے آپ پکڑے جائیں تو رشوت دے کر اپنی جان چھڑا لیں،،دفاتر میں تو حرام ہے کہ کہیں اخلاقیات کا گزر ہوا ہو،پیسے کے بغیر آپ کا جائز کام بھی کبی بھی نہیں ہو،یا تو کالے بوٹوں کا زور چلتا ہے،کہیں ڈنڈا گھوم جائے تو بات بنتی ہے وگرنہ قائد کی تصویر کو سبھی سلام کرتے ہیں،سابقہ دور میں بھلا ہو ان مولویوں کا جنہوں نے رشوت کو مدارس کے چندوں کا نام دیکر مفہوم بھی بدلا اور ایمان کے کچے پکے لوگوں کو بھی حوصلہ دیا کہ مجبوری کے عالم میں سب جائز ہے جس طرح مولوی مجبور اقتدار کیلئے حلوہ تک قربان کر آئے تھے اور انہوں نے اپنا رشتہ ناطہ بھی نوٹوں سے جوڑ لیا تھا،الغرض اس قوم نے ہر طبقہ کو آزما لیا ہے مگر شاید معاشرتی مسائل کے تدارک کیلئے کسی کے پاس بھی اخلاقی جرات نہیں رہی،جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں اس میں جہاں دیگر متعدد عیوب وقباحتیں صالح اقدار وروایات کو روند کر پروان چڑھ رہی ہیں وہاں یہی رشوت جیسا مہلک اور بدترین کینسر بھی عام ہوگیا ہے،شرعی طور پر اس مرض کو جتنا بڑا گناہ کہاگیا ہے اس کی حیثیت کے علاوہ اس کے نتائج خود دنیا میں بھی نہایت خوف ناک اور تباہ کن صورت میں سامنے آرہے ہیں بلاشبہ رشوت خوری سے مال ودولت اور رزق میں بجائے اضافہ کے جوپستی اورتنزلی اور بے برکتی پیدا ہوتی ہے اس سچائی سے خود رشوت دینے والے اور لینے والے بھی آشنا ہوں گے، مگر طلب زر کی اس ناجائز آمدنی کے اثرات سے آنکھیں بند ہوجاتی ہیں با لآخر اسکے خمیازے میں انسان دنیاو آخرت سے غافل ہوجاتا ہے،قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جو رزق ہم نے تم کو دے رکھا ہے اس میں سے کھاؤ پیو‘‘دوسری جگہ یہ وضاحت بھی کردی کہ اگر تم رزق حلال پر اکتفا نہ کروگے اور حرام کی جانب رجوع کروگے تو شیطان کا اتباع ہوگا،لہٰذا رشوت خوری غضبِ الٰہی کو دعوت دیناہے، او راپنی ذات، اپنی اولاد اور اپنی نسل پر ظلم کرنا ہے، حضور اکرمﷺ نے بھی طلب حلال کی ترغیب دی ہے، ’’حلال کو طلب کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے‘‘۔ مگر آج حالات یہ ہیں کہ طلب حلال کی بجائے عام طورپر لوگ حلال وحرام میں تمیز کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے اور ہر چیز کو حلال سمجھتے ہیں ،اس لیے حکومتی سطح پر ان خرابیوں کے سد باب کے لیے قانون درقانون وضع کئے جارہے ہیں مگر معاشرے کی اصلاح کا کوئی پہلو کہیں سے بھی نہیں نکل سکا اور نہ ہی جرائم کی روک تھام ممکن ہو سکی،اس لیے ضروری ہے کہ اخلاقی سماجی تعلیم وتربیت کا نظام وضع کیاجائے تا کہ معاشرتی اخلاقی خرابیاں جو کہ عروج پر ہیں ان کا تدارک ممکن بنایا جاسکے۔