میرا منافع۔۔۔آف شور کمپنیاں

Published on May 17, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 574)      No Comments

logo final
ایک عام فہم بات ہے کہ کسی شریف ،امانت دار سچے انسان کو سیاست میں آنے کا کہا جائے تو وہ کوسوں دور بھاگتا ہے گویا عام آدمی کی نظر میں سیاست خاص طور پر پاکستان کی ایک گناہ کبیرہ ہے ۔کیونکہ ہمارے ملک میں سیاست دان ہونے کیلئے کچھ خاص خصوصیات ہونی چاہئیں جیسے غنڈہ عناصر کی فوج ،جھوٹ میں اعلیٰ مہارت ،پیسہ کمانے کیلئے ملک تک کو بیچ دینے والی سوچ وغیرہ وغیرہ ضروری ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ عوام کا بھی دوہرا معیار دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہمیشہ ڈیرے داروں اور اجارہ داروں کی پوجا کرتی ہے اس کے کردار میں شفافیت اور دل میں ملکی لگن کا نہ ہونا ان کیلئے کوئی فکر طلب بات نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی اسکے لئے ایسا ہی معیار بنا رکھا ہے کہ ایم این اے کی سیٹ کیلئے خرچ پندرہ لاکھ روپے مقرر کیا ہے کہ اس سے زیادہ ایم این اے کے الیکشن پر خرچ نہیں کر سکتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کا صرف چوتھا حصہ ہی الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے اگر حقیقی طور پر ایم این اے کے الیکشن کا خرچ دیکھیں تو وہ کروڑوں میں ہوتا ہے اس لحاظ سے الیکشن میں حصہ لینے والوں کی تعداد صرف ہزاروں میں رہ جاتی ہے ۔یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیاستدان اپنی جیب سے ایک گلی تو بنوا نہیں سکتے وہ بھی گورنمنٹ کی جیب سے نکالتے ہیں تو الیکشن پر کروڑوں روپے کیوں لگائیں گے؟پانامہ لیکس آج کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ جن صرف اس لئے بے قابو ہے کیونکہ اس کا سایہ ساری دنیا پر کالے بادلوں کی طرح چھا گیا ہے اور انٹرنیشنل لیول پر جرنلسٹس نے آف شور کمپنیوں کے بارے میں بتایاجس کی وجہ سے دو ممالک کے وزراء بھی مستعفی ہو گئے اور کئی ممالک میں تحقیقات بھی نہایت سنجیدگی کے ساتھ جاری ہیں۔جسکی وجہ سے پانامہ کا شور بڑھ چڑھ کر ہے لیکن پاکستان میں ایسے آف شور کمپنیاں ،بیرون ملک اثاثے منی لانڈرنگ پاکستان میں جب جب جمہوری حکومتیں رہیں ہیں یہ دھندہ عروج پر رہا ہے۔جہاں تک پانامالیکس کا تعلق ہے اس میں وزیر اعظم نواز شریف کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا نام ہے اگر ان بیٹوں اور بیٹی کی قابلیت پر غور کیا جائے تو شاید پاکستان میں انہیں دس ہزار کی نوکری بھی نہ ملے ۔لیکن بقول وزیر اعظم ان کے بچے لاکھوں کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں ڈیڑھ ماہ ہونے کو ہے پاناما لیکس کے معاملے کو لیکن حکومت نے سوائے باتوں میں الجھانے کے کوئی واضع مؤقف نہیں دیا! بات تو سادہ سی ہے کہ پیسہ ملک سے باہر کیسے گیا ؟اور کمایا کیسے؟ اتنے سادہ سے سوال کے جواب میں حکومتی وزراء بجائے صاف اور سیدھا جواب دینے کے پہیلیاں بجھا رہے ہیں اور دن رات پوری تند دہی ،لگن ،محنت کے ساتھ وزیر اعظم اور اس کے بچوں کا باتوں سے دفاع کرتے نظر آتے ہیں جبکہ یہی وزیر اعظم اور یہی وزراء کل بھوشن یادیو کی گرفتاری پر ایسے نظر آئے جیسے انکا اپنا کوئی بہت برا نقصان ہو گیا ہو ۔اپوزیشن کے الزامات کا جواب الزامات سے دے کر اپوزیشن کو یہ نصیحت کرنا چاہتے ہیں کہ تم بھی چپ رہو ہم بھی چپ رہیں کمال کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھی کرپشن کے احتساب کی بات کرتی ہے جو کہ اس ملک کی عوام کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق لگتا ہے اس حمام میں سب ننگے ہیں عوام کو جھوٹی تسلیوں وعدوں چکنی چوپڑی باتوں سے سبز باغ دکھا کر یہ سیاستدان اپنی تجوریاں بھرتے ہیں پاکستان میں کتنے سکینڈلز منظر عام پر آئے لیکن ان سب پر ایک کمیشن کا پردہ ڈال کر تمام سکینڈلز کو ان چھوئی دلہن کی طرح ڈھک دیا گیا ۔پاناما لیکس کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہونا اپوزیشن اور حکومت مل کر گڈے گڈی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور عوام روز کی نت نئی باتوں میں ذہنی دباؤ کی وجہ سے نفسیاتی مریض ہوتے جا رہے ہیں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ جو شخص وزیر اعظم بننے کیلئے کروڑوں اربوں خرچ کرتا ہے وہ بھی ایک ایسا کاروباری جو بقول اسکے کئی مرتبہ لٹ چکا ہو اور پھر اپنی محنت سے فیکٹریاں لگا لیتا ہو ایسا کاروباری شخص صرف ملک و عوام کی خدمت کیلئے تو اربوں روپے نہیں خرچ کرے گا!! یہ آف شور کمپنیاں ،بیرون ملک اثاثے ہی تو انکا منافہ ہوتے ہیں! آخر پیسہ کرپشن کے ذریعے لو ٹنے اور ملک سے باہر بھیجنے میں سخت محنت لگتی ہے ااور اسی محنت کے تناظر میں یہ کہتے ہیں کہ یہ ان کی حق حلال کی کمائی ہے !کوئی بھی کاروباری شخص ایک روپے کا گھاٹا برداشت نہیں کرتا ملکی محبت کی مثال یہ بھی لے لیجئے کہ وزیر اعظم ہاؤس کی تزئین و آرائش عوام کے پیسوں سے ہو گی کروڑوں ڈالر کمانے والے جس گھر میں رہیں کیا وہ اسکی تزئین و آرائش بھی اپنی جیب سے نہیں کرا سکتے ؟صاحب حیثیت غیرت مند لوگوں کا شیوہ یہ ہو تا ہے کہ وہ لینے کی بجائے دینے کو اہمیت دیتے ہیں عوام کا پیسہ برباد کرنے کی بجائے اسکو محفوظ اور بڑھانے کی فکر میں رہتے ہیں قومی اسمبلی میں خطاب کے دو ران وزیر اعظم نے کیا خوب صورت بات کہی کہ پچھلے تین سال سے پاکستان بہت ترقی کر رہا ہے اور 2018ء ؁ تک مزید ترقی کرے گا واقعی ترقی تو ہے کہ بیرونی قرضہ کا حجم بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے بے روزگاری دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے تعلیم و صحت کا نظام برباد ہو چکا ہے سکولوں میں کتابیں ہیں نہ ہسپتالوں میں ادویات ،عدل و انصاف کا نظام بھی بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ بڑھتی جا رہی ہے سرکاری اداروں کو حکومت بیچنے کے در پے ہے یہ وہ ترقی ہے جو 2018میں مزید بڑھ جائے گی ۔ایسی ترقی سے اللہ تعالیٰ ہمارے ملک اور ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کاروباری لوگوں سے نجات دلائے ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Premium WordPress Themes