ڈی پی او مانسہرہ احسن سیف اللہ کے نام کھلا خط

Published on June 9, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 708)      No Comments

Rashid awanمحترم احسن سیف اللہ صاحب ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محکمہ پولیس مانسہرہ
اسلام و علیکم
امید ہے کہ ایمان و صحت بہترین حالت میں ہونگے،اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خالق کائنات آپ سے مملکت خداد پاکستان اور ہمارے ضلع مانسہرہ اور اس کی عوام کے بہتر مفاد اور محکمہ پولیس کے مورال کو بلند کرنے میں آپ کو سرخرو فرمائے،آمین ثم آمین،جناب ڈی پی اوصاحب ہوسکتا ہے آپ سے مخاطب ہونے کا یہ انداز اور طریقہ آپ کو عجیب لگے مگر ہم اہل قلم اپنی تحاریر،اپنے کالموں اور اپنی اس طرح کی سطور میں اصلاح معاشرہ کے پہلوؤں کو سامنے رکھ کر وقتاً فوقتاً آپ اور آپ کے افسران کی توجہ مبذول کرواتے رہتے ہیں،مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑا دل گردہ اور جگر عطا کر رکھا ہے،آپ اصولوں کے پکے اور مزاج کے ٹھنڈے ہیں میری آپ سے جتنی بار ملاقاتیں ٹھہریں میں نے آپ کو اپنے ہی کام میں انہماک پایا آپ کو اپنے محکمہ کی خاصی فکر لاحق رہتی ہے اور اور جناب نے اپنی تعیناتی کے دورا ن اپنے سے پہلے کے ڈی پی اوز جناب عبد الغفور آفریدی اور جناب ڈاکٹر خرم رشید کی کوششوں اور ان کے عملی و مؤثر اقدامات کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بیشتر مؤثر اور اہم اقدامات بھی اٹھائے ہیں جن کی تعریف نہ کرنا یقیناً آپ کی صلاحیتوں اور دلچسپی کے امر کیساتھ آپ کی محنتوں اور اخلاص کی نفی ہوگی۔
جناب ڈی پی او صاحب :محکمہ پولیس آپ کا محکمہ ہے آپ اپنے محکمہ کو بہتر اندز میں چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں ،ہمارے پاس جو معلومات پہنچتی ہیں وہ عام آدمی کی آواز اور آپ ہی کے محکمہ میں اخلاص و فرض شناسی رکھنے والوں کی بھی آواز ہو سکتی ہے اس لیے میں اپنے اس خط میں چند اہم باتوں کا ذکر اس لیے ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ کو اپنے محکمہ کے اندرونی حالات سے بھی آگاہی ہو سکے ا کیونکہ اب تک آپ کی سنجیدہ کوششوں کو متاثر کرنے میں کوئی دوسرا عنصر نہیں بلکہ آپ کے اپنے محکمہ کے چند عناصر شامل ہیں جنہیں نہ تو اپنی عزت کا خیال ہے اور نہ ہی وہ محکمہ کو یا افسران کی عزت کو خاطر میں لاتے ہیں،ڈی پی او صاحب آپ کی کوششوں کی بدولت منشیات اور دیگر جرائم کی شرح میں قدرے حال کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس کو آپ کی یا آپ کے محکمے کی سو فیصد کامیابی نہیں قرار دیا جا سکتا،کیونکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ آپ کے محکمہ میں ذمہ داری کا عنصر بہت کم افراد کو چھو کر گزرا ہے مثال کے طور پر ضلع مانسہرہ کے بیشتر تھانوں میں ایک ایس ایچ او ہی ہے جو ماسوائے معذرت کیساتھ،پھر معذرت کیساتھ بعض کہ اگر ایس ایچ او کا بس چلے تو وہ اپنے ماتحت پولیس اہلکاروں کو باتھ روم میں بھی جا کر پاک کرے،کیونکہ ہر کام کی ذمہ داری ایس ایچ او ہی کے کاندھوں پر ہے اور اس ایس ایچ کیساتھ جو معوانین کے طور پر ایڈیشنل،محرر یا ٹیم میں دوسرے افراد ہیں انہیں ذمہ داری کا کوئی احساس نہیں ہوتا،کہیں آگ لگے،جھگڑا ہو،گولی چلے،جلوس نکلے ،فساد کی چنگاری سلگے یا کوئی بھی فتنہ سر اٹھائے سر ایس ایچ او ہی کو رکھنا ہوتا ہے اور باقی چین کی نیند سوتے ہیں،اب کسی تھانے میں کوئی ایس ایچ اور اپنے ماتحت عملہ کو اصول وضوابط سکھائے یا اس کی بلیک میلنگ میں نہ آئے اور اس کی جائز و ناجائز نہ مانے تو جواباً اسے انتقام کا سامنا رہتا ہے اور ان ہی پولیس اہلکاروں کی مدد سے کوئی ایسا فساد ابھر جاتا ہے جسے روکنا محکمہ پولیس میں کسی بھی ذمہ دار کے بس کا روگ نہیں رہتا،اسی طرح جرائم کی متعدد وارداتوں میں ان پولیس اہلکاروں کا ہی نام بولتا ہے جو اپنے محکمہ اور اپنی وردی کے نہیں دولت،ہوس کے پجاری ہوتے ہیں،انہیں کہیں نہ کہیں سے سیاسی اثرورسوخ بھی میسر رہتا ہے اور جب کہیں ان کی پوچھل پر آپ کا یا محکمہ کے کسی بھی افسر کا پاؤں آ جائے تو وہ چیخنے کے بجائے اپنے سیاسی آقاؤں سے مدد کیلئے تیار ہوتے ہیں اور ان کی خاطر انہیں چھوٹ مل جاتی ہے جو کہ یقیناً محکمہ کے اپنے مفاد میں بھی نہیں اور ایسی ہی کالی بھیڑوں کی وجہ سے محکمہ پولیس بدنامی سے دوچار ہو رہا ہے،اسی طرح صرف ضلع مانسہرہ ہی نہیں ہزارہ بھر میں منشیات کے بڑے بیوپاریوں میں یا تو براہ راست چندا پولیس اہلکار ملوث ہیں یا پھر بطور پارٹنر کے وہ اپنا یہ دہندہ چلاتے ہیں،کئی پولیس اہلکاروں نے تو ایک ہی سٹیشن کو اپنی جاگیر تصور کر رکھا ہے حرام ہو کہ انہیں آج تک کوئی ٹرانسفر کر سکا ہے وہ کسی نہ کسی بہانے واپس اپنے اسی پیدا گیری کے اڈے تک پہنچ ہی آتے ہیں،جناب ڈی پی او صاحب میں نے اپنی معلومات کے مطابق جو کچھ آپ کے گوش گزار کیا ہے وہ آپ کے یا آپ کے محکمہ کے مفاد میں ہوا تو اس پر ضرور غور کیجئے گا وگرنہ آپ میری ان باتوں کو نظر انداز کر دیجئے گا،کیونکہ آپ کے محکمہ میں اب بھتہ اور حصہ وغیرہ کی وصولی کا رواج تقریباً ختم ہی ہو گیا ہے البتہ اس کی جگہ اب کاروبار نے لے لی ہے،ایک وقت میں قانون کیساتھ اپنے مفادات کا بھی محافظ ہونا عام سی بات ہے،حرام کی کمائی کے اوپری حصے سے کسی بھی ہوٹل،یا دیگر ایسے کاروبار و دہندے میں شراکت دار کی حیثیت سے شامل ہو جاتے ہیں جہاں وہ ان برائیوں کو بھی اپنے کاروبار کیلئے حلال و جائز سمجھتے ہیں،مثال کے طور پر وادی کاغان ہی کی اگر مثال لیں تو یہ آپ کو وادی کاغان کا بچہ بچہ بتا سکتا ہے کہ وہاں بڑے ہوٹلوں پر شباب و کباب کی سپلائی کون کرتا ہے اور اس میں مددگار کون کون ہیں ؟؟،اسی طرح حال ہی میں آپ نے ضلع مانسہرہ تمام تھانوں کی چھانٹی کر کے غیر مقامی و غیرواقف الحال عملے کی تعیناتی کی ہے جو کہ آپ کی سوچ کے مطابق درست ہے مگر بیک جنبش قلم سارے کے سارے عملے کو تبدیل کرنا بھی کوئی سمجھداری نہیں کیونکہ ناواقف عملہ کو کسی علاقے کا پتہ نہیں،اسے کسی علاقے کے مزاج کا علم نہیں،نئیڈی ایف سیعلاقے میں جانا تو دور انہیں اپنی بیٹ تک کا علم نہیں ہوتا،جب تھانے میں مقامی سطح کی کوئی معزز شخصیت کسی بھی کام کیلئے آئے تو اسے نئے عملہ سے بات کرنے،کام لینے یا تھانے کے اندر داخل ہونے میں بھی سو بار سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں وہ اپنے ہاتھوں ہی اپنی عزت نفس مجروح نہ کروا دے اور ایسا گزشتہ دو ماہ دوران ضلع مانسہرہ کے مختلف تھانوں میں وقوع پذیر بھی ہو چکا ہے،اسی طرح آپ نے تھانہ جات سے ٹاؤٹ گیری کا خاتمہ کروایا مگر نئے عملے کی تعیناتی سے ان ہی ٹاؤٹوں نے جن کی تھانے میں گنجائش نہیں تھی انہوں نے اپنے ڈاکخانے ملا کر اپنی گنجائش پھر سے پیدا کر دی ہے۔ایک پولیس فورس جس سے پولیو مہم،سیاسیوں کے پروٹوکول کی ڈیوٹی،جرائم کی روک تھام سمیت ہر کال لینا ضروری سمجھا جا رہا ہے اس پولیس اہلکار کو اپنے لیے تھانے میں بیٹھے کیلئے کرسی تک میسر نہیں،دس سے بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنے والے اہلکار کو آرام کی چند گھڑیاں بھی نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کے رہنے اور آرام کرنے کیلئے کمرے نہیں۔ صوبائی حکومت کے زبانی جمع خرچ کے دعوے اپنی جگہ محکمہ کی حالت سدھرانے کی ذمہ داری پھر بھی آپ ہی کی ہے ،پولیس کا کردار تو تبدیل کرنے کیلئے حکومت کیساتھ آپ نے بھی ڈنڈا تھامے رکھا ہوتا ہے مگر تھانہ کی بہتری کے لئے کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے جب تک بیٹ افسر، ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کے عہدہ کے افسران کی حالت نہیں بدلی جاتی، پولیس کا نظام کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا ہے، پولیس میں اصلاحات پر کام بہت کم ہو رہا ہے اور اگر ہو رہا ہے تو اوپر کی سطح پر ہو رہا ہے جس کے ثمرات تھانہ تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں،ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر کچھ بھی نہیں ہو پا رہا ہے،جناب ڈی پی او صاحب ! دنیا بھر میں پولیس کی اصلاحات اور مورال پر ہمہ وقت کام کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں سڑکوں کی تعمیر پر سارا فوکس کیا جاتا ہے، ہر واقعہ کے محرکات تلاش کرنے اور اس طرح کے واقعات کے مستقبل میں روک تھام کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا ہے، دنیاکا سب سے بڑا واقعہ نائن الیون کا ہوا۔ سینکڑوں لوگ مارے گئے دنیا کی طاقتور ایٹمی طاقت پٹ کر رہ گئی۔ لیکن اس میں ایک سپاہی بھی معطل نہیں ہوا، طیارے امریکہ کے تمام سیکورٹی حصار توڑتے ہوئے ٹارگٹ تک پہنچ گئے لیکن انتظامیہ پر کریک ڈاون کی بجائے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر کام ہوا، یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا۔؟ مثبت اور منفی پہلووں کو کھنگالا گیا اور اس کے لئے نئے ایس او پیز بنائے گئے اور مستقبل میں اس جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے تھینک ٹینک نے کام کیا اور سسٹم میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کیا گیا۔ لیکن قابل غور امر یہ کہ کیا ہمارے ملک میں بھی کبھی ایسا ہوا؟؟؟جوڈیشل کمیشن، فیکٹ فائیڈنگ رپورٹ، انکوائری کمیٹی بننے سے کیا عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوسکا؟؟ یہی وجہ ہے کہ آج کی پولیس جرائم سے لڑنے کی بجائے میدان سے بھاگ رہی ہے۔ جب بھی کوئی سکیورٹی کابڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے یا کوئی بڑا ایونٹ ہوتا ہے تو ہر برائی کا ذمہ دار پولیس کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے، عدلیہ، حکومت اور ریاست کے تمام ستون ہی پولیس پر دباو ڈالتے ہیں، جس سے پولیس ایک ادارہ کے طور پر کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے، کوئی بھی انتظامی افسر یا پولیس افسر جب ریاست کے تحفظ کے خلاف اقدام اٹھائے گا تو اسے بھی قانون کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یہاں پر سب کچھ الٹ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں ٹریفک پولیس کی وردی کی تبدیلی کی گئی ہے جس کا بلاشبہ ان پولیس جوانوں کے مزاج پر بھی پڑا ہے اور ان کے رویوں میں مثبت تبدیلی بھی دیکھنے کو ملی ہے،اخلاقیات کا بول بالا ہوا ہے اور اسی طرح کے اقدامات سے پولیس کا مورال بھی بلند ہوا ہے،مگر دوسری جانب آپ کے محکمہ میں چھپی وہی کالی بھیڑیں آپ کی سنجیدگی اور عملی کوششوں کو دیمک کی طرح چاٹ کھا رہے ہیں۔اسی طرح ضلع مانسہرہ میں آپ کے زیر سایہ فیلڈ میں جانے کے لئے اچھے افسران کی کمی ہے اور جو اس وقت فیلڈ میں تعینات ہیں وہ فیصلہ کرنے کی قوت سے محروم ہیں۔ میرے ایک دوست پولیس اافیسر کا کہنا ہے کہ آپ کسی پولیس اہلکار کے منہ پر نور نہیں دیکھیں گے، کیونکہ نور ذہنی سکون سے آتا ہے، ور انہیں اذہنی سکون ہی میسر نہیں، وہ موبائل فون بھی تکیے کے نیچے رکھ کر سوتے ہیں کہ کسی وقت بھی آفیسر کا فون آسکتا ہے اور ڈیوٹی پر جانا پڑسکتا ہے اور ان کے بقول پولیس کی ڈیوٹی شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوتی ہے، گرمیوں میں دھوپ میں سڑنا اور سردیوں میں رات کو ٹھٹھرنا پڑتا ہے، سرکاری اداروں میں صرف 8 گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے، جس میں سے بھی صرف 3، 4 گھنٹے ہی کام کیا جاتا ہے جبکہ ان کے دفتر جانے کا وقت مقرر ہوتا ہے گھر واپسی کا نہیں،جناب ڈی پی او صاحب میں نے آپ کے محکمہ پولیس کی اہم باتوں کو اجاگر کیا ہے اور بحثیت قلمکار میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ کرپشن صرف محکمہ پولیس میں ہی نہیں بلکہ ہمارے باقی ادارے اس سے قطعاً پاک نہیں،ان محکموں میں جانے سے بھی بڑے تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے مگر یہاں بطور خاص میں نے پولیس کا اس لیے ذکر کر کے آپ کو مخاطب کیا ہے کہ انہیں بھی اس بارے میں علم ہو سکے کہ جو پولیس کو ہی ہر جانب سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ بھی اس محکمہ کی مجبوریاں جان سکیں اور آپ کو مخاطب کرنے کا مقصد آپ کی جاندار کوششوں کو ثمرآور ثابت کروانا میری دانست کااہم جزو ہے،اس لیے مجھے امید ہے کہ آپ تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اہم فیصلے صادر فرمائیں گے اور سب سے اہم بات کہ اپنے محکمہ کے اہلکاروں کا سابقہ ریکارڈ دیکھتے ہوئے ان کی تعیناتیاں ضرور کریں کیونکہ اکثر و بیشتر چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ہی اپنی کتی چوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے،،آپ کا بہت بہت شکریہ،،،وسلام

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Themes