اقتدار کی بھوک

Published on June 17, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 568)      No Comments

jhang
تحریر ۔۔۔ محمدفیاض قادری
کس کے ہاتھوں میں دیکھوں اپنے ضمیر کا خون
یہاں توسبھی کے ہاتھ رنگے ہیں زمانے کے خون سے۔
اس اقتدار کی بھوک نے انسان کو بد مست ہاتھی بنا دیا ہے۔حتی کہ یہ سیاست بہت پاکیزہ ہے۔اگر سیاست پاکیزہ طریقے سے کی جائے۔تواس سے زیادہ عبادت کوئی نہیں ان سب سے پہلے سچائی اخلاق انسانیت سے پیار جس میں ہر ایک کو برابر دیکھنا ہر انسان کی تکلیف کو دیکھناان کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھنا وہ سیا ست ہونی چاہیے۔جس میں سب سے پہلے اللہ پاک کی رضا کو دیکھا جائے۔ایسا کام کرنا چاہیے۔اللہ پاک خوش ہوں۔اس میں پیارے محبوب خوش ہوتے ہوں۔اس طرح کی سیاست کرنی چاہیے۔لیکن یہاں تو ہر چیز ہی الٹی ہے۔اقتدار کی بھوک ان کو اس قدر انسانیات کی خدمت تو دور کی بات ہے۔یہاں تو ان کے ضمیر کا قتل سرعام کیا جارہا ہے۔اورکوئی پوچھنے والا نہیں۔تو اس کو پیسے دیکر خاموش کروادیا جاتا ہے۔یا مکمل طور پرخاموش کروادیاجاتاہے۔اس لیے ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ لیکن میں اپنے ضمیر کی نشان دہی پہلے ہی کروادی ہے۔اور وہ اس لیے کہ موت توخود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔یہ میرا یقین ہے۔ہم لوگ صرف اللہ پاک کوجانتے ہیں۔اللہ پاک کی شان مانتے نہیں مانتے ہیں۔پاکستان کوخوشحال طاقت وار بنانے کی قسمے تو بہت زیادہ کھاتے ہے۔جس سے پاکستان اور اس کی عوام کمزور ہو۔ان اقتدار کے بھوکھے سیاست دانوں کی بھوک تو قبر تک ختم نہیں ہوگئی۔اور دوسرے اقتدار کے بھوکھے جانشین آجاتے اور بڑی دلیری سے کہتے ہیں۔کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کے لیے بہت کچھ کیا ۔حتی کہ انھوں نے اس پاکستان کو انگریزوں کے آگے غلام بنایا ہے۔صرف یہ کیا ہے۔اپنے بنک بیلنس بنائے ہیں اپنی نسل کے لیے یہ پاکستان ہے۔اور ان کا پاکستان کے ساتھ تعلق کیاہے۔اگر تعلق ہوتا تو پاکستان کا یہ حشر ہوتا ۔اس ملک پاکستان کو بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا ۔اس ملک کی خاطر ماؤں بہنوں نے اپنی عزتوں کو قربان کیا۔اور نام نہاد سیاست دان پاکستان اپنے باپ کی جائیداد سمجھتے ہیں۔وہ اس لیے جس ملک کو کلمے کے نام سے بنایا گیا ہو۔اس کے ہاتھ ان منافق سیاست دانوں نے کیا سلوک کیا ہے۔میں اقتدار کے بھوکھے سیاست دانوں سے ایک سوال کرتا ہوں۔کیااس کا کوئی جواب دے گئے۔اگر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔تو یہ پاکستان ایسی حالت میں کیوں ہے۔اگر کلمہ ہم حق کا پڑھتے ہیں۔اور غلامی ہم غیر مسلم کی کرتے ہیں۔ہم پاکستانی اور مسلمان سچائی پر مر مٹنے والے ہیں۔اس ملک میں قتل وغیرت کیوں کیا میرا دین اسلام کچھ بھی نہیں کیا میں پاکستانی ہوں۔تواپنے پاکستانیوں کے ساتھ جھوٹ کیوں بولتا ہوں۔کیا ہم اکھٹے نہیں ہیں۔کیا ہماراخدا اور ہمارانبیﷺ ایک نہیں ہے کیاہم نے کبھی بھی خداپاک کی نہیں مانی۔جس طرح شیطان نے کیا ۔تیرا حکم نہیں مانونگا۔تو اللہ پاک نے شیطان کو اپنے دربار سے دفعہ دور کردیا۔جب ہم اللہ پاک کے حکم مانے گئے۔اس کی رسی کو قابو کرکے پکڑ یں گئے۔اس کے حکم کو تسلیم کریں گئے۔تو میرا پروردگار عالم ہم کو کبھی بھی رسوانہیں کرئے گئے۔یہ میرا دعوی ہے۔باقی سب ہی جھوٹ کی کہانیاں ہیں۔اگر میں ایسے کرتا تو ایسے ہوجاتا اور میں ویسے کرتا تو ویسا ہو جاتا ہے۔اور بڑے بڑے سٹیج پر چڑھ کرتقریر کردیناآسان سی بات ہے۔کیا ہم نے خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔نہیں ہم نے اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے سنااور تسلیم کرلیا۔کہ اس کائنات کا مالک اللہ پاک کی ذات ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔یہ ہم نے دل وجان سے تسلیم کیا۔لیکن اقتدار کی بھوک رکھنے والوں نے آج تک اس کو تسلیم نہیں کیا جس کا درد ناک پہلوں یہ ہے کہ آج سانحہ ماڈل ٹاؤن کو تقریبا دو سال ہو گئے ہے۔جس کا آج تک کوئی انصاف نہ مل سکا ہے ۔وہ غریب جو اس واقع میں شہید ہوئے یہ جو زخمی ہوئے۔یا جو ہماری ماں بہنں شہید ہوئی کیا وجہ ہے کہ ان سب کو آج تک انصاف کیوں نہیں ملا۔یہ ہے اقتدار کے بھوکھے لوگوں کی چھوٹی سی داستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں تو میں بات کررہاتھا۔کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے جو کہا وہ حق سچ تھا۔تو ان پر ہم کو ایمان لانا ہوگا ۔حق سچ کی بات کرنا ہوگئی اور اس پر عمل بھی کرہوگا۔اور ہاں اگر ہم عمل نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے ۔کہ ایمان نہیں لے آئے یا ایمان سے کمزور ہے یا تو پھر منافق ہو چکے ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا کہ رزق اور موت میرے ہاتھ میں ہیں۔کائنات کی ہر چیز میرے پاس ہے لیکن دوگا ۔اپنے پیار محبوب نبی کریم ﷺ کے وسیلے سے۔کوئی اس بات کو مانے یا نہ مانے۔دینا والا اللہ پاک ہی ہے ۔تو پھر کرپشن کیوں۔آج کے اس دور میں کرپشن ۔لوٹ مار۔چوربازاری۔سودخوری وغیرہ عام ہو چکا ہے۔یہ صوبائی اور وفاقی محکموں میں کیا ہورہا ہے۔تمام محکموں کے عہدئے دار ان کیا صاحب علم نہیں یہ پھر صاحب اسلام نہیں کیا یہ سب حلال وحرام کی تمیز بھو ل چکے ہے۔کیا ان کے ضمیر مردہ ہو چکے ہے۔تو پھر یہ انسان کہلانے کے بھی حق دار نہیں ہے۔اگر جانور کوبھی کوئی سبق دیا جائے تو وہ بھی ساری زندگی نہیں بھولتا۔حرام کھانے والاجانور مرنے سے پہلے اپنے مالک سے سب کچھ کھایا پییا معاف کروائے گا۔تب جا کے اس کی جان نکلے گئی۔یہ ہے مالک اور جانور کی وفاداری ۔لیکن کائنات کے مالک جو سب کامالک ہے۔کبھی اس کو راضی کرنے کی کیسی نے کوشش نہیں کی۔کیا یہ اقتدار کے بھوکھے ایم این اے وایم پی اے وزیر مشیر اپنے رب کی کوئی ایک حکم تسلیم کیا ہے۔اسمبلی میں کھڑے ہو کر جب یہ لوگ حلف اٹھاتے ہے۔میں اللہ پاک کو حاضر ونظر جان کر یہ کہتا ہوکہا میں اللہ پاک کے حکم سے اپنے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وفادار رہوگا۔اور اپنے ملک پاکستان کی عوام کو ہر مکمن خوشحالی دینے کا پابند رہو گا۔لیکن ان منافق سیاست دانوں سے اس ملک پاکستان کی غریب عوام کو وعدے وعید پر ساری زندگی گزارنے پر مجبور کردینا یہ ہمارئے حکمرانوں کا پہلا کارنامہ ہے۔یہاں میں آپ کوصوبہ پنجاب کا سب سے قدیمی ضلع جھنگ جو پنجاب کا سب سے بڑا ضلع ہوا کرتا تھا۔لیکن اس کے جانشین جو ڈویژن کی شکل احتیار کر چکے ہے۔بے چار ضلع جھنگ جو آج تحصیل کی طرف روا دوا ہے۔اس ضلع کے نام نہاد سیاستدان جن کو اقتدار کی بہت زیادہ بھوک ہے۔ان سیاستدانوں کے چید ایک پیادے ۔جو کچھ عرصہ قبل جھنگ کے مشہور بازار ریل بازار میں ہر مال دس روپے کی آواز کو بلند کرکے گاہکوں کے کانوں میں گونجاں کرتی تھی ہر مال دس روپے دس روپے دس روپے میں خریدوں۔جو آج کل لاکھوں نہیں کروڑں کا مالک بن گیا ہے ۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ہر مال دس روپے کا مال کی آواز دینے والے کا بھائی ٹی ایم اے جھنگ میں تنخواہ وصول کرتا ہے۔نہ جانے کون سی مد میں ۔۔۔۔یہاں یہ بھی قابل ذکر داستان ہے۔کہ ٹی ایم اے کے افسران کی ملی بھگت سے افتخار ٹریول اورسابقہ انسپکٹرٹی ایم اے جھنگ حاجی آصف وغیرہ نے جھنگ کی ہر شاہراہ اور بلڈنگوں پرغیرقانونی اور ناقص مٹیریل سے لگائے جانے والے سائن بورڈ جوکہ گورنمنٹ سے غیر منظور شدہ لگوانے کا ٹھیکہ لے لیا۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی بھی وقت جانی نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔میں بس جھنگ کے افسران اور عوام کے منتخب نمائندوں سے بس اتنا کہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیاگیا ۔۔۔۔۔یہی دیے جلیں گے تو روشنی ہوگی

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Theme