ہمارا تعلیمی نظام

Published on July 15, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 638)      No Comments

Bilal
پاکستان میں ہزاروں گورنمنٹ سکول اور کالج قائم ہیں جن میں سے نہ جانے کتنے زمین پر اور کتنے صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔ ہزاروں کالجز اور سکولز کے باوجود ،ناخواندہ لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور لوگ بنیادی شعور سے بھی محروم نظر آتے ہیں۔ تعلیم مہنگی اور ناممکن ہوتی چلی جارہی ہے اور لوگوں میں اس کی اہمیت ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ۔ دنیا کے 26ممالک جو پاکستان سے بھی زیادہ غریب ہیں تعلیم پر پاکستان سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم آج بھی اپنے تعلیمی اداروں میں غیروں کا بنایا گیا نصاب پڑھا رہے ہیں۔ ہم پورے بجٹ کا صرف 2فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیں سکولوں اور کالجوں کی خستہ حالی کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ تعلیم کیلئے مختص کیا گیا صرف2فیصد بجٹ بھی عموماً کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے اس برائے نام بجٹ کے باوجود جو چند لڑکے بڑے کارنامے سر انجام دیتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے ۔ سب سے ذیادہ قابل فکر بات یہ ہے کہ جو لوگ اس نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں وہ تو ایک طرف جو چند لوگ اس نعمت کو حاصل کر لیتے ہیں جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے وہ بھی ٹھیک طرح سے اپنا کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے ۔جو لوگ اس نعمت سے مستفید نہیں ہوپاتے ان کی بات تو بجا کہ وہ کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں مگر جو لوگ اسے حاصل کر تے ہیں وہ کیوں نہیں؟ ۔۔۔۔یہ ہی انتہائی اہم سوال ہے کہ کیوں ۔۔۔؟؟؟ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی طالب علم کی کامیابی میں اس کی اپنی محنت کے ساتھ ساتھ طالب علم کے اساتذہ اور والدین کا بھی ا ہم ہاتھ ہوتا ہے اور پھر یہ تین ستون مل کر یعنی کہ والدین،اساتذہ اور طالب علم خود مل کر اس کی’’ کامیابی کی عمارت‘‘ کھڑی کرتے ہیں جبکہ ایک چوتھا اور سب سے بنیادی ستون بھی ہے ،اور وہ ہے طالب علم کو پرکھنے کا، اس کی نفسیات جاننے کا ،بچے یا بچی کے اندر کون سی صلاحتیں موجود ہیں۔۔۔؟؟ اور وہ کیا کیا کارنامہ سر انجام دے سکتا ہے یا سکتی ہے۔۔۔۔؟؟ اس بارے میں کھوج لگانے کا۔تا کہ ہر طالب علم اس کی مرضی کے سانچھے میں ڈھالا جا سکے۔مگر بد قسمتی سے اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہ یہ والا اہم اور بنیادی ستون ہمارے ہاں نہیں پایا جاتا۔اس لیے عمارت کھڑی ہو ہی نہیں سکتی ۔یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں اسے کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔یا یوں کہ لیجئے کہ۔۔۔ ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ صرف تین ستونوں پر عمارت کھڑی کی جاتی ہے ۔انہیں تین ستونوں پر گزارا کیا جاتا ہے ۔اور اگر یہ ستون ہو بھی تو اس بنیادی ستون کو بغیر نقشے کے لگایا جاتا ہے۔دنیا میں جہاں بھی کوئی عمارت کھڑی کی جاتی ہے تو سب سے پہلے لازمی اس سے پہلے اس کا نقشہ بنایا جاتا ہے۔اس بات کو آپ سب بھی مانتے ہوں گے کہ ایسا ہوتا ہے اور یقیناًہونا چاہئے اور کوئی بے وقوف ہی ہو گا جوبغیر نقشے کے عمارت بنانا شروع کر دے۔ مگر پاکستان میں جہاں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے ،اسی طرع یہ یہ کام بھی ہوتا ہے۔ یعنی پہلا ستون بغیر نقشے کے لگایا جاتا ہے۔بغیر یہ پرکھے کہ طالب علم میں کون سی خوبیاں ہیں۔۔۔۔؟ اس کا ذہن کس طرف ہے۔۔؟۔اس کو پری میڈیکل یا پری انجنئرنگ کی لاین میں لگا دیا جاتا ہے۔ ساتویں جماعت کے معصوم بچوں کے ہاتھ میں فارم پکڑا دیا جاتا ہے کہ بتاو کس طرف جانا ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ معصوم اس وقت وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ پری میڈیکل یا پری انجنئرنگ لکھا کیسے جاتا ہے۔۔ یہ تو رہی بنیادی ستون کی کہانی۔۔ اب باقی تین ستونوں پر آتے ہیں ۔ یہ تین ستون کتنے مظبوط ہوتے ہیں۔ان میں کتنی ریت ،بجری اور مسالہ ہوتا ہے اور کتنا مٹیریل ناقص ہوتا ہے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں ۔ پہلا ستون یعنی کہ خود طا لب علم ہوتا ہے۔اس ستون کا پہلے ستون کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی بچے کو بغیر پرکھے ایسے شعبے میں ڈال دیں گے جس میں اس کی دلچسپی نہیں ہو گی تو یقیناًاس کا کچھ مثبت نتیجہ نہیں ملے گا۔اس میں دلچسپی پیدا نہیں ہو گی ۔وہ صرف وقت گزاری کرے گا۔ یوں اس کی زندگی کے انتہائی قیمتی سال ہیرا پھیری میں گزر جائیں گے۔ ۔اب دوسرے ستون پر آتے ہیں جو والدین کے زمہ ہے۔سوائے چند کے اس ستون کابیڑہ غرق والدین کرتے ہیں۔ وہ والدین جو کہتے ہیں ہمارا بیٹا یا بیٹی ڈاکٹر ، انجنئیر یا پا ہلٹ ہی بنے گا ۔۔۔بس ۔۔۔۔ شاید نعوذبﷲ ان پر کوئی وحی اترتی ہے کہ انہیں پتا چل جاتا ہے۔پھر یہ ھوتا ہے کہ بیٹا انجنیئر ،ڈاکٹر تو بن جاتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔برائے نام۔۔۔۔۔یہاں میں ایک بات واضع کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی والدین کبھی بھی اپنی اولاد کا بڑ’ا نہیں سوچتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ تو ان کی خوشی کے لیے اپنے حصے کا سکون بھی لٹا دیتے ہیں اور اگر وہ اپنی اولاد کو بہت اونچا دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں تو اس میں کوئی بڑائی نہیں ہے مگر انہیں بھی یہ بات تسلیم کرنی چائیے کہ خدا تعالی نے ہر ایک شخص میں انجنئیر یا ڈاکٹر والی خوبیاں نہیں ڈالیں اور نہ ہی اس نے سب انسانوں سے ایک کام لینے کے لیے انہیں پیدا کیا ہے۔اس کے علاوہ انہیں یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ جس سسٹم میں رہ کر ان کے بچے پروان چڑھتے ہیں بد قسمتی سے اس کی بنیادیں بہت کمزور ہیں۔یعنی جو عمارت وہ اپنی اولاد کی بنانا چاہتے ہیں اس کا پہلے ستون بہت کمزور ہوتے ہیں۔اس لیے اگر وہ دوسرا ستون مظبوط بھی لگاہیں گے تو کچھ فاہدہ نہیں۔۔۔۔اگر کسی عمارت کی بنیاد کمزور ہو اور چھت مظبوط ڈال دیا جائے تو وہ کھڑی نہیں رہ سکتی، گر جاتی ہے۔اس لیے یا تو وہ پہلے ستون کو مظبوط بنواہیں یا پھر دوسرا ستون بھی پہلے جیسا لگاہیں تا کہ کم از کم عمارت کھڑی تو رہ سکے۔۔۔۔اس کی مثال کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے آپ کو اپنے ارد گرد کئی ملیں گی۔ماشاﷲ سے جب طالب علم میٹرک پاس کرتا ہے اور تب جا کر اسے علم ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک کیا پڑھتا رہا ہے ۔۔۔۔؟ اور کیوں پرھتا رہا ہے۔۔۔؟ تو پھر ہوتا یوں ہے کہ وہ والدین سے کہتا ہے کہ میں نے تو کچھ اور پڑھنا ہے اور مجھے شوق بھی ہے ۔۔۔تو والدین کا جواب ملتا ہے کہ نہیں تم ڈاکٹر ،انجنئیر ہی بنو گے اور پھر ہوتا یوں ہے کہ وہ زبردستی اور مشقت کے دو سال گزارنے کے بعد آگے داخلہ نہ ملنے کے باعث گھر بیٹھ جاتا ہے اور اس ستون کی کہانی بھی ختم ہو جاتی ہے جس میں پہلے ستون سے ذیادہ دوسرے کا کردار ہوتا ہے۔یہ تو تھے پہلے دو ستون ۔۔۔۔اب رہ گیا تیسرا یعنی ’اساتذہ والا ستون‘ ۔نیک،مخلص اورایماندار اساتذہ موجود ہیں مگر۔۔۔۔۔آٹے میں نمک کے برابر۔۔۔۔جو اساتذہ مخلص ہوتے ہیں وہ طالب علم کی کامیابی کی مضبوط عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس عمارت کو کھڑی کرنے کے واسطے وہ صبح سے شام تک اپنی زمہ داری نیک نیتی سے ادا کرتے ہیں مگر افسوس کہ اس عمارت کو بنانے کے لیے ان کے ساتھ بے شمار ایسے مزدور بھی ہوتے ہیں جو اول تو کام کو ہی نہیں آتے اور آہیں بھی توکم چوری سے کام لیتے ہیں اور یوں تینوں ستون بے جان رہ جاتے ہیں۔
ان ستونوں کوکیسے مظبوط کیسے کیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے میری چند رائے ہیں۔سب سے پہلے بچوں کی ذ ہنی صلاحیتوں کو پرکھا جائے۔اور اس مقصدکے لیے ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کی جائیں۔قابل اور محنتی اساتذہ کی خوصلہ افزائی کی جائے اور اس کے ساتھ ان کی مالی معاونت بھی کی جائے۔نا اہل اساتذہ کو فوری طور پر نکال باہر کیا جائے۔اور ان کی جگہ میرٹ کے اوپر اترنے والے قابل اساتذہ کو لایا جائے۔تعلیمی بجٹ زیادہ کیا جائے۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلی لائی جائے غیروں کے کاپی کیے گیے موجودہ تعلیمی نصاب کو چھوڑ کر اپنا نصاب بنانا یا اس میں وقت اور ضرورت کے مطابق تبد یلیاں کر نا بھی وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

Readers Comments (0)




Weboy

Premium WordPress Themes