وزیر اعظم محمد نواز شریف نے منگل 3دسمبر کو مظفر آباد میں آزاد جموں و کشمیر کونسل کے بجٹ اجلاس میں شرکت کی۔وزیر اعظم پاکستان نے اس موقع پر آزاد کشمیر کے صدر ،وزیر اعظم،مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر اور حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے وفود سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کشمیر کونسل کے رواں مالی سال کے 14ارب98کروڑ روپے کے بجٹ کی منظوری دی گئی۔ اس موقع پر مظفر آباد کے نیو سیکرٹریٹ کا علاقہ سیل رہا اور سیکورٹی نہایت سخت رہی۔حیرت انگیز طور پر یہ پہلا موقع تھا کہ جب مقامی میڈیا کو وزیر اعظم پاکستان کے اس دور ے سے دور رکھا گیا۔اس حوالے سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میڈیا کو دور رکھتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان کے اس نہایت اہم دورے کو غیر اہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔وزیر اعظم پاکستان کا یہ دورہ محض آزاد کشمیر کے امور کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ کشمیر کاز کے حوالے سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔پاکستانی وزیر اعظم کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے دورے کے موقع پران کے کہے الفاظ کو بھارت کتنی حساسیت اور اہمیت سے لیتا ہے اس کی ایک مثال وزیر اعظم محمد نواز شریف کے اس دورے کے موقع پر دیکھنے میں آئی۔
بھارتی میڈیا نے مسئلہ کشمیر پر چوتھی جنگ کرنے کا بیان وزیراعظم نوازشریف سے منسوب کرتے ہوئے بھارت میں ہیجان خیزی پیدا کر دی اور اسی صورتحال میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اوربھارتی آرمی چیف جنرل وکرم سنگھ کے سخت بیانات سامنے آئے ۔وزیر اعظم آفس اسلام آباد سے جاری ایک وضاحتی بیان میں وزیراعظم محمدنوارشریف کے حوالے سے میڈیا میں شائع اس خبر کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا جس میں ان سے منسوب کیا گیا تھاکہ مسئلہ کشمیر پر بھارت سے جنگ چھڑ سکتی ہے۔ وزیراعظم آفس کے ترجمان نے 4 دسمبر کو روزنامہ ڈان میں شائع کی جانے والی خبر کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ وزیراعظم نے ایسے الفاظ نہیں کہے اور یہ خبر بے بنیاد، غلط اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی تنازعہ کو پرامن ذرائع سے حل کیا جانا چاہئے۔
ملک کے موثر انگریزی روزنامہ’’ڈان‘‘میں4دسمبر کو مظفر آباد کے نمائندے کے حوالے سے خبر شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے کشمیر کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ ’’کشمیر فلیش پوائنٹ ہے اور اس سے کسی بھی وقت دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان چوتھی جنگ ہو سکتی ہے‘‘ ۔اگلے روز ’’ڈان ‘‘میں کراچی کے سٹاف رپورٹر کے حوالے سے شائع خبر میں بتایا گیا کہ ’’ ڈان کی رپورٹ کی بنیاد مکمل طور پرآزاد کشمیر کے محکمہ اطلاعات کی طرف سے جاری کردہ خبر تھی ،کہ مظفر آباد کے صحافیوں کو کانفرنس کے مقام کی طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔اسلام آباد میں انفارمیشن منسٹری کے سینئر حکام نے ’’ڈان ‘‘کو بتا یا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ کس طرح مظفر آباد میں انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں وزیر اعظم کے موقف کو غلط طور پر بیان کیا گیا‘‘۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف کے 3دسمبر کو چند گھنٹے کے اس سرکاری دورے کا اصل مقصد کشمیر کونسل کے بجٹ اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے اسلام آباد کے بجائے مظفر آباد میں کشمیر کونسل کا بجٹ اجلاس منعقد کرنے کے فیصلے کو سراہا گیا۔اس اجلاس میں شرکت کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف نے راجہ فاروق حیدر خان کی سربراہی میں مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے وفد اور حریت کانفرنس آزاد کشمیرو پاکستان شاخ کے نمائندوں سے الگ الگ ملاقات کی۔مظفر آباد میں پاکستانی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں، ریاستی اخبارات و جرائد،کشمیری صحافیوں کو وزیر اعظم پاکستان کے اس اہم دورے کے لئے حکومت کی طرف سے مدعو نہیں کیا گیا اور نا ہی انہیں وزیر اعظم پاکستان کی مصروفیات والی جگہ کے ایریا میں داخل ہونے دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس کے کیمرے میں موجود پی ٹی وی کے کیمرہ مین سمیت سب سرکاری صحافیوں کو اجلاس کے کمرے سے باہر جانے کی ہدایت کی تھی۔
یہ خبر 4دسمبر کے سبھی اخبارات میں شائع ہوئی جس میں وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے کشمیر کونسل کے اجلاس میں کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے تک بھارت سے جنگ کا خطرہ قائم ہے۔معلوم ہوا کہ محکمہ اطلاعات کے ایک افسر کی طرف سے یہ خبر اخبارات کو جاری کی گئی تھی۔اس افسر نے پاکستان کے سرکاری میڈیا کے ایک شخص کی بات سن کر خبر میں وزیر اعظم پاکستان کے حوالے سے ’’ مسئلہ کشمیر پر جنگ‘‘ کے بات پریس ریلیز میں شامل کر دی۔یہ کام آزاد کشمیر کے محکمہ اطلاعات کا نہیں تھا کہ وہ وزیر اعظم پاکستان کی خبر جاری کرے،وہ صرف وزیر اعظم آزاد کشمیر کی خبر ہی جاری کرسکتے ہیں۔یہ بات حیرت انگیز ہے کہ وزیراعظم کے اس اہم دورے کی کوریج کے لئے وزیر اعظم پاکستان کے میڈٖیا سٹاف نے قومی و کشمیر کے ریاستی میڈیا کو الگ رکھتے ہوئے سرکاری نیوز ایجنسی’’ اے پی پی ‘‘ اور پی ٹی وی کے صحافیوں پر ہی کیوں انحصار کیا ۔معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے کشمیر کونسل کے بجٹ اجلاس سے خطاب کی خبر وزیر اعظم پاکستان کے پریس ذمہ داران کی طرف سے جاری ہی نہیں کی گئی ،اس بارے میں پی ٹی وی اور اے پی پی کی تیار کردہ خبروں پر ہی انحصار کیا گیا۔اخبارات و نیوز و ایجنسیاں وزیر اعظم پاکستان کی یہ خبر نہ ملنے پر محکمہ اطلاعات آزاد کشمیر سے رابطے کرتے رہے جس پر ان کی طرف سے کشمیر کونسل کے بجٹ اجلاس کی خبر جاری کی گئی۔ ہمارے محکمہ اطلاعات اور پاکستان کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی یہ کار گزاری قابل تحسین ہی رہتی اگر اس خبر پر بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی آرمی چیف کے غیر معقول طور پر سخت بیانات سامنے نہ آتے ۔’’انڈین مائینڈ سیٹ‘‘سے نا آشنا قلم کار کیا جانیں کہ بھارت کشمیر کے معاملے پر خصوصا پاکستان کے ہر ’’قول و فعل ‘‘پر کتنی گہری نظر رکھتا ہے۔شاید اس بارے میں بھارت ہم سے زیادہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی بقاء کے لئے کشمیر کی اہمیت کیا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے پاکستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد بھارت کو پاکستان کے ساتھ کشیدہ صورتحال میں تعطل کے شکار امن مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھی امریکی حکام اور بھارتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل و تنازعات کے حل کے حوالے سے پیش رفت کی خطوط بندی ہوئی۔بھارتی حکومت کی طرف سے کئی ماہ قبل ہی یہ کہا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خفیہ پلان رکھتے ہیں۔زمینی حقائق دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کا کشمیر پلان مسئلہ کشمیر کے پرامن و منصفانہ حل کے لئے مزاکرات میں پیش رفت پر بھارت کو مجبور کرنا ہی ہے۔بھارت میں ان دنوں الیکشن جاری ہیں اوروہاں کی دو بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی حکومت بنانے کے مقصد سے زیادہ ووٹ لینے کے لئے ہر رائج الوقت سکہ چلانے کی کوشش میں ہیں۔یہ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں کہ بھارت میں مسلم اور پاکستان دشمنی اس حوالے سے آزمودہ طور پر نہایت کار آمد ہیں۔اسی صورتحال کے تناظر میں بھارتی میڈیا نے وزیر اعظم پاکستان کے حوالے سے منسوب ایک جملے کو خوب خوب اچھالتے ہوئے بھارت میں ایسی ہیجان خیزی پیدا کر دی کہ بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی آرمی چیف کو پاکستان کے خلاف سخت بیانات دیتے ہوئے بھارتی میڈیا اور بھارتی عوام کے پاکستان مخالف ’’ جنگی جذبات ‘‘ کو تسکین دینا پڑی۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف نے تمام تر نامساعد صورتحال کے باوجود داخلی اور بیرونی محاذوں پر پیش قدمی کی ہے۔ابھی وزیر اعظم نواز شریف تمام حساس ترین قومی امور سے متعلق اپنی پالیسیوں کو شروع کرنے کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔میرے خیال میں وزیر اعظم کو مختلف شعبوں میں حصول معاونت وسیع کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔مظفر آباد میں کشمیر کونسل کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم سے منسوب ایک جملے پر بھارت کا سخت روئیہ،اسلام آباد میں وزیر اعظم آفس سے اس کی تردید پر مبنی بیان،اس تمام صورتحال میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں وفاقی اور آزاد کشمیر حکومت کے متعلقہ محکموں کے ذمہ داران ،متعین افراد وغیرہ کی طرف سے اس طرح کے انتظامات کئے گئے کہ جس سے اس طرح کی صورتحال پیدا ہوئی کہ بھارت کو اس سے ایسے ماحول میں شور مچانے کا موقع مل گیا کہ جب وہ نامعلوم عوامل کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ مذاکراتی عمل بحال کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔جب وزیر اعظم نواز شریف نے کشمیر کونسل کے بجٹ کے اجلاس میں خطاب کیا تھا تو اس بارے میں کسی متعلقہ اعلی عہدیدار کی طرف سے میڈیا کو اس بارے میں باضابطہ طور پر آگاہ کیا جانا چاہئے تھا۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے قومی میڈیا اور کشمیر کے ریاستی میڈیا کو وزیر اعظم پاکستان کے دورہ مظفر آباد سے دور رکھنا بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔حساس اور اہم امور کو پوری قومی ذمہ داری کے تقاضوں کے مطابق پوری صلاحیت،احساس ذمہ داری ،محنت ،وسیع رابطے اور اخلاص سے کیا جانا ہی مناسب ہوتا ہے۔