آف شور کمپنیو ں کی ملکیت 2006ءسے قبل ثابت ہوئی تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہو گا،سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت 6دسمبر تک ملتوی کرد ی

Published on November 30, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 369)      No Comments

pana

اسلام آباد ۔۔۔ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کی 6دسمبر تک ملتوی کر دی ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ پاناما لیکس کیس کی سماعت کی جسے فریقین کے دلائل سننے کے عد الت نے 6دسمبر تک ملتوی کر دیا ۔ آج کیس کی ساتویں سماعت تھی۔
کیس کی سماعت کے موقع پر پاناما لیکس کیس میں درخواست گزار عمران خان ، شیخ رشید احمد ، مولانا سراج الحق اور دیگر درخواست گزاراورانکے وکلاءبھی موجود تھے ۔
سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار طارق اسد ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر حامد خان سے متعلق باتیں آئی ہیں ، تبصروں سے کیس پر اثر پڑیگا تاہم میڈیا کو کیس پر تبصروں سے روکا جائے ۔میڈیاچینلزپرحامدخان کی توہین ہورہی ہے۔یہ صرف حامدخان کی نہیں پوری بارکی توہین ہے۔
جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ حامد خان بہت سینئر اور اہم قانون دان ہیں جو قانون پر کتب بھی لکھ چکے ہیں ،میڈیا پر حامد خان سے متعلق میڈیا پر باتوں سے انکے قد کاٹھ پر کوئی فرق نہیں پڑیگا تاہم میڈیا پاناما کیس پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے ۔
جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت معاملے پر جلد کمیشن تشکیل دے اور فریقین کو حکم دے کہ وہ کیس کو مختصر کریں۔”ساری باتیں عدالت میں ہونگی تو کمیشن کیلئے کیا بچے گا “۔
پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر تلخ کلامی کی معافی چاہتا ہوں ،ہمیں اس عدالت پر مکمل یقین ہے ۔ سپریم کورٹ میں سیاسی گفتگو کرنے نہیں آیا ، اٹارنی جنرل میرے چھوٹے بھائی ہیں ۔ 13اپریل 2016ءکو وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا اور جھوٹ بولا ، وزیر اعظم نے دوسرے خطاب میں بھی سچ نہیں بولا کیونکہ تقریر میں کہا گیا کہ سرمایہ بچوں نے استعمال کیا تاہم وزیر اعظم کی غلط بیانی ریکارڈ سے ثابت کرونگا ۔ وزیر اعظم نے اپنے بیٹے سے رقم لی مگر انکے بیٹے کا این ٹی این نمبر ہی نہیں ہے ۔مریم نواز وزیراعظم کی زیر کفالت ہیں اور لندن فلیٹس کی بینی فیشل اونر ہیں تاہم وزیر اعظم کو یہ بات گوشواروں میں پیش کرنی چاہئیے تھی ۔مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ سے بھی کچھ ثابت نہیں ہوا ۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ” وزیر اعظم ٹیکس چوری کے مرتکب ہہوئے “، قطری شہزادے کا خط وزیر اعظم کے موقف سے مختلف ہے اور دبئی حکومت کے خط پر کوئی دستخط نہیں ہیں ۔1980ءمیں وزیر اعظم نے فیکٹری 33ملین درہم میں فروخت کرنے کا بتایا ۔ نواز شریف کی بتائی رقم کل ملا کر9 ملین ڈالر بنتی ہے جبکہ انہوں نے دبئی کی فیکٹری قائم کرنے کی تاریخ نہیں بتائی ۔شیئرز کی فروخت کا معاہدہ وزیر اعظم کی ذہنی اختراع ہے۔ 1980ءکو دبئی سٹیل مل کا معاہد ہ ہوا ،جدہ فیکٹری 2007 ءمیں خریدی گئی مگر فلیٹس پہلے خریدے گئے ۔ وزیر اعظم نے جدہ فیکٹری کیلئے بینک قرضوں کا ذکر کیا ۔
نعیم بخاری نے عدالت کو بتایاکہ نیب بھی وزیرا عظم کو بچانے میں لگا رہا جس پر نیب چیئرمین کے خلاف آرٹیکل 209کے تحت کارروائی کی جائے کیونکہ نیب اور دیگر ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام رہے ۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کیس میں اعترافی بیان دیا ۔
جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کا فیصلہ آچکا ہے ۔”نعیم بخاری صاحب آپ دوبارہ بھی کوشش کریں “۔ دبئی سٹیل مل کی طرح جدہ سٹیل مل کا سرمایہ کہاں سے آیا یہ نہیں بتایا گیا ۔سرمایہ فلیٹس کیلئے استعمال کیا گیا مگر وہ بھی نہیں بتایا گیا ۔طارق شفیع کی دو دستاویز پر دستخط مختلف ہیں تاہم جدہ فیکٹری کی دستاویز ہمارے پاس نہیں جس پر نعیم بخاری نے جوا ب دیا کہ شہباز شریف نے طارق شفیع بن کر دستخط کیے ۔طارق شفیع نے بیان میں ادھا سچ بولا ۔گلف سٹیل مل کیلئے قرضہ 26ملین ڈالر تھا۔ گلف سٹیل مل 21 ملین درہم میں فروخت ہوئی مگر مل کی فروخت سے طارق شفیع کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا ۔نعیم بخاری نے مزید کہا کہ شہباز شریف نے طارق شفیع بن کر دستخط کیے ۔رقم کی دبئی اور سعودیہ منتقلی کا نہیں بتایا گیا ۔لندن فلیٹس 1993ءاور 1996ءمیں خریدے گئے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ دونوں مواقع پر کی گئی تقریروں میں تضاد ہے ۔ جدہ فیکٹری کتنے میں اور کیس بیچی گئی ،سعودی بینکوں سے قرضہ کیسے لیا گیا ؟ ،عدالت میں پیش کر دہ ضمنی جواب اور تقاریر میں تضاد ہے ۔دستاویز ہر جگہ ہونگی مگر عدالت میں نہیں ۔شریف خاندان 12ملین درہم کی قطر میں سرمایہ کاری کا کہتا ہے ۔معاہدے کے مطابق 75فیصد رقم براہ راست بینک کو دی گئی ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ تقریر میں کہا گیا کہ سرمایہ بچوں نے استعمال لیا۔”لگتا ہے سب کچھ میاں شریف نے کیا “۔دستخطوں میں کوئی یکجہتی نظر نہیں آتی ۔دستاویز سے لگتا ہے طارق شفیع میاں شریف کے لئے کام کرتے رہے۔میاں شریف کے بچوں نے کیا کردار ادا کیا ۔نوازشریف کے بچوں کے بارے میں بتائیں ۔بتایا جائے طارق شفیع نے بارہ ملین درہم کیسے منتقل کیے ؟
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے بچوں کا وکیل ہوں طارق شفیع کی نمائندگی نہیں کر رہا ۔ میں نے جواب وزیر اعظم اور انکے بچوں کے کاروبا ر اور منی ٹریل کا دیا ہے ۔آج نعیم بخاری نے طارق شفیع ، ایک نئی کمپنی غالباُُ انگلش کمپنی کے بارے میں بتایا ہے۔ عدالت نے کہاتھاصرف4فلیٹس اور2کمپنیزکاجائزہ لیں گے مگر اب ایک اورکمپنی بلیک شپ انویسٹمنٹ کابھی ذکرہورہاہے۔عدالت کہے توحسن نوازکی کمپنی کی دستاویزات فراہم کردیتاہوں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکیل نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ وزیرا عظم کے بچوں کی تاریخ پیدائش بتائیں ، جاننا چاہتے ہی ں کس عمر میں بچوں نے اتنا پیسہ کمایا ۔خط میں کیا لکھا ہے خط بھیجنے والا قطری شہزادہ ہے ، آپ نے کیسے مان لیا ہر امیر ادمی شہزادہ ہوتا ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ میں فوج میں ناکام ہوا تو میرانام شہزادہ نعیم بخاری تھا تب پوچھا گیا کہ میں کہاں کا شہزادے ہو تو میں نے جوا ب دیا کہ خوبصورتی کے باعث شہزادہ ہوں ۔ نعیم بخاری کے جواب پر عدالت میں قہقہے لگ گئے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ قطری شہزادے کے خط کے مطابق آف شور کمپنیو ں کے سرٹیفکیٹ قطر سے تھے اور2006ءمیں فلیٹس حسین نوا زکے نام منتقل ہوئے ۔جس پر جسٹس عظمت شیخ نے ریمارکس دیے کہ قطری شہزادے نے خط براہ راست نہیں دیا ۔
قطری خط میں انگلینڈ میں پراپرٹی کاروبار کا نہیں بتایا گیا ۔ قطری شہزادے نے خط میں بڑے بھائی کا ذکر کیامگر نام نہیں بتایا جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ دبئی سے پیسہ منتقل ہونے کا بھی نہیں بتایا گیا ۔قطر سے پیسہ لندن لے جانے کا طریقہ بھی نہیں بتایا گیا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کی 2006ءسے قبل ملکیت ثابت کرنا ہو گی ، آف شور کمپنیو ں کی ملکیت 2006ءسے قبل ثابت ہوئی تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہو گا ۔دیکھنا چاہتے ہیںفلیٹس کتنے میں خریدے گئے جس پر نعیم بخاری نے جوا ب دیا کہ فلیٹس سولہ اور سولہ اے 1995ءاورفلیٹ نمبر سترہ اے 2004ءکو خریدے گئے ۔ حسین نواز 1972ءجبکہ حسن نواز 1976کو پیدا ہوئے جبکہ مریم نواز 1973ءکو پیدا ہوئیں اور 1992میں حسین نواز کی عمر بیس سال بنتی ہے ۔لندن میں جائیداد میاں شریف نے خریدی تو بھی انکی ملکیت ہے ۔ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں قطری شہزادے کی بات کرنا بھول گئے ۔جس پر جسٹس عظمت شیخ نے کہا کہ سرمایہ کاری وزیر اعظم کی ہوتی تو شاید یاد رہتا ۔
جسٹس عظمت سعید نے نعیم بخاری سے کہا کہ اپنے کیس میں اخباری خبروں کو کیوں لاتے ہیں ، آپ کہتے ہیں کہ اخباری باتیں مان لیں ، غیر ملکی اخباروں کی خبروں پر عمران نے بھی تنقید نہیں کی ۔ اخباری خبروں پر فیصلہ دیا تو آپکے موکل کو بھی پریشانی ہو سکتی ہے ۔
نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ خط کے مطابق میاں شریف نے رقم نواز شریف کو دینے کا کہا مگر سوال یہ ہے کہ قطری شہزادے کو سب کس نے بتایا ؟ ثابت کرنا چاہتا ہوں کے بچوں کے کاروبار میںغلط بیانی کی گئی ۔عدالت نے کہا کہ آپ سونے میںکھوٹ کیوں ڈال رہے ہیں یونہی زور نہ لگائیں ۔ اپ کے موکل کے خلاف تیس سال انگریزی اخبار میں چھپتا رہا کیاوہ بھی مان لیں ۔حماد بن جاسم کی تاریخ پیدائش بھی انٹرنیٹ سے ڈھونڈیں جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ نام میںمماثلت کی وجہ سے حما د بن جاسم کی تاریخ پیدائش انٹرنیٹ سے ڈھونڈنا مشکل ہے ۔
عدالت نے کہا کہ کیا قطری خط کی قانونی حیثیت ہے ، لندن فلیٹس حسین نواز کی ملکیت تسلیم کیے گے اور جائیداد کسی دوسرے کے نام پر لی گئی ۔
نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز نے اپنا پتہ جاتی امراءلکھاہے اور بتایاکہ والد کے ساتھ رہتی ہوں ۔ مریم نوا زاپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہتیں جس پر عدالت نے کہا کہ معامہ ذاتی حیثیت کا ہے زیادہ آگے نہ بڑھیں ۔عدالت نے مزید سماعت 6 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Blog