خدمت خلق

Published on March 25, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 461)      No Comments

Rashidڈاکٹر رضا محمدخان صاحب بالاکوٹ شہر کے سپوت ہیں،ممتاز معالج،علمی و ادبی شخصیت کے مالک اور سماجی کاموں میں حصہ لینے والے اپنے لوگوں اور اپنے شہر کیلئے عموماً فکر مند رہنا ان کی طبیعت اور ان کے مزاج کا خاصا ہے،میری کبھی کبھار ان سے ملاقات ہوتی ہے اور جب بھی ملاقات ہو وہ اپنے شہر بالاکوٹ اور اپنے لوگوں کے بارے میں ضرور ذکر کرتے ہیں کہ دس سال ہونے کو ہیں اور زلزلے کے بعد سے اب تک بالاکوٹ شہر کی وہ رونقیں بحال نہیں ہو سکیں جن کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے،بقول ڈاکٹر صاحب کہ دکھ سکھ تو ویسے بھی سانجھے ہی ہیں مگر جو زخم بالاکوٹ کے باسیوں کو8اکتوبر2005کو لگے ہیں انہیں مندمل ہونے میں ابھی کافی وقت درکار ہے،مگر حوصلہ اور ضبط سے کام لینے والے ہی اپنی آنے والی نسلوں پر احسان کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے ہر فرد کی اپنی اپنی ذمہ داری ہے،میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ میری کیا ذمہ داری ہے تو انہوں بلاتامل جواب دیا کہ آپ لوگوں کی جو ڈیوٹی ہے اسے فرض عین سمجھتے ہوئے نبھائیں یہی آپ کیلئے بخشش کا ساماں ،آپ پر عائد ذمہ داری اور آپ پر اپنے شہر بالاکوٹ کے لوگوں اور سرزمین شہداء کا حق ہے،اپنے قلم سے صاٖ ف لکھیں،ستھرا لکھیں اوراپنے لوگوں کا مائنڈ بنائیں کہ ابھی انہیں جینا ہے اور درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے،دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے اور اگر ہم نے ابھی سے مایوسی کی چادر لپیٹ لی تو کل کلاں ہمارے بچے بھی ہماری ہی دیکھا دیکھی مایوس و نالاں رہ جائیں گے،ڈاکٹررضا محمد خان صاحب ایک ذمہ دار حیثیت وشخصیت کے مالک ہیں،ان کے پاس پلان،ترتیب،سوچ،وسعت قلب اور ترکیب پائی جاتی ہیں،ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ہر مسئلے کا حل موجود ہے شاید ہی دنیا میں ایسا کوئی مسئلہ موجود ہو جس کا کوئی حل نہ ہو ،ان کے نزدیک صرف اخلاق،جستجو اور حکمت عملی کو سامنے رکھ کر پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے،میں ڈاکٹر ساحب کی ان ہی باتوں اور ان کی وسعت سوچ کا گرویدہ ہوں،ان سے عموماً کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور شیئر کرتا ہوں،چند ماہ قبل انہوں نے ایک نکتہ اٹھایا کہ دس سالوں سے صاحب استطاعت اور سفید پوش بالاکوٹ کے اپنے لوگ بالاکوٹ شہر سے باہر رہنے پر مجبور ہیں اور دس سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹے،میں نے کہا کہ وہ ساحب استطاعت ہیں اور صاحب حیثیت ہیں تب وہ بیرون شہر گزر بسر کر رہے ہونگے تو انہوں نے میرے اس جواب کی نفی کی اور کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ایک یا دو فیصد ایسے لوگ ہونگے مگر زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کھائی جا رہی ہے اور وہ بیرون شہر صرف اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم ہی کی خاطر وہاں رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ دس سال بیت چکے ہیں اور بالاکوٹ میں کسی نے بھی اس طرح ذمہ داریوں کا احساس نہیں کیا جس طرح کہ کرنا چاہیے تھا،ڈاکٹر صاحب کے نزدیک کھانا پینا اور کمانا کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ باوقار اور مہذب معاشروں کی بنیادی ضرورت تعلیم اور صحت کی سہولیات کا میسر ہونا ضروری ہے اور بدقسمتی سے بالاکوٹ میں یہ دونوں سہولیات ناپید ہیں،صحت کا تو وجود ہی نہیں اور رہا تعلیم کا مسئلہ تو وہ معیاری نہیں اور نہ ہی بامقصد ہے بس رٹا سسٹم کے ساتھ اپنے آپ کو تسلی دی جا رہی ہے،میں ڈاکٹر رضا محمد خان صاحب کی ان باتوں سے متفق تو تھا مگر میری خاموشی اور سوالیہ نظریں ان سے اس کا جواب طلب کر رہی تھیں،میری خاموشی پر وہ مسکرائے اور مجھے بتایا کہ بس دعا کرو اللہ نے چاہا تو ایک کارخیر کی سوچ رکھتا ہوں،،بس اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے ساتھ اگر استقامت رہی تو بالاکوٹ پھر سے ااباد اور اس کی چہل پہل واپس لوٹ آئے گی،،اس وقتڈاکٹر صاحب نے میرے ساتھاپنا جو منصوبہ شیئر کیا تو باخدا میں بھی داد دیے اور دلی سکون سمیٹے بغیر نہ رہ سکا،ان کا وہ منصوبہ دو روز قبل میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا تو میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا کہ واقعی ڈاکٹر رضا محمد خان صاحب میرے اس شہر کے وہ محسن ومسیحا ہیں جنہوں نے اپنے عمل سے سچ کر دکھایا ،ڈاکٹر صاحب نے بالاکوٹ میں دی کیدر ڈل سکول نام کی ایک ایسی تعلیمی درسگاہ کی بنیاد رکھی ہے جو کہ بالاکوٹ شہر تو کیاشاید ہمارے ضلع مانسہرہ میں بھی نہ ہو گی ماسوائے کیڈٹ کالج بٹراسی کے،150کنال اراضی پر بہترین تعلیمی سہولیات،لائبریری،لیب،کھیل کا میدان،دور دراز طلبہ و طالبات کیلئے الگ الگ ہاسٹل اور نرسری و پریپ و پرائمری کلاسز کے بعد الگ مڈل و ہائی گرلز سیکشن اور الگ مڈل و ہائی بوائز سیکشن ایک چھت تلے پانچ سکول،ڈاکٹر صاحب نے مجھے سکول کے متعلق تفصیلی طور پر بتایا اور مستقبل قریب میں منصوبہ کی تکمیل کے عزم کیساتھ بتلایا کہ اب انشاء اللہ وہ لوگ بھی اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئیں گے جنہیں اپنے بچوں کا مستقبل عزیز اور ان کیلئے بامقصد و معیاری تعلیم کی فکر لاحق تھی اب بچوں کے حصول علم کی خاطر بالاکوٹ کے کسی بھی مجبور کو بیرون شہر کی اذیتوں کا سامنا نہیں رہے گا،ڈاکٹر رضا محمد خان کی اخلاص بھری کوششوں پر میں دل ہی دل میں رشک کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ واقعی انہوں نے وہ حق ادا کر دیاجو ان پر بالاکوٹ دھرتی کا قرض تھا اور یوں بھی ہمارے مذہب اسلام میں عبادت کا مفہوم کافی وسیع ہے، صر ف نماز‘ روزہ‘ حج و زکوۃ یا چند رسمی امور کی ادا ئیگی یا شکل و صورت کی درستگی ہی عبادت نہیں بلکہ اسلام میں ہرنیکی اورہرخیرکاکام‘ جواللہ تعالی ٰکوراضی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کیا جائے عبادت ہے۔خلوصِ نیت سے اللہ کی رضاکیلئے دوسروں کے کام آنایعنی اللہ تعالیٰ کی ہرمخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا بڑی نیکی ہے ،حدیث پاک میں ہے ’’میں اِس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تمام انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘یہ اسلام ہی ہے جس میں اتنی وسعتِ قلبی اور فراخ دلی ہے کہ تمام انسانوں کو انسانی اخوت کے رشتے میں ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رہا ہے، یہ اخوتِ انسانی عام اخوت ہے لیکن یہی اخوت دینی رشتے کے بعد ایک خاص اخوت میں بدل جاتی ہے اور وہ اخوتِ ایمانی ہے، اسی لئے اور آپ ﷺ نے فرمایا، ’’مسلمان‘ مسلمان کا بھائی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے یہی انسانی و ایمانی اخوت ہر مسلمان کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کیلئے وقف کر دے اور ہر مخلوق کی مدد و خدمت کرے، رسول اللہ ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے اپنی کیفیت کو اپنی اہلیہ محترمہ ام المو منین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو انہوں نے اپنے شوہر کی پوری زندگی چھ جملوں میں بیان کر دی، یہ چھہ جملے تمام حقوق العباد سے متعلق تھے اور دوسرے کے کام آنے اور دوسروں کے خدمت و مدد سے مربوط تھے، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی کسی ایسی عبادت کا ذکر نہیں فرمایا جو سجدہ و رکوع کی کثرت یا ذکر و عبادت سے متعلق تھی بلکہ دوسرے انسانوں کی خدمت والی عبادت کا ذکرکیا،اب اسلامی تعلیمات و احکام خداوندی سے یہ واضح ہے کہ اگر خدمت خلق کو عبادت الٰہی سے خارج کر دیا جائے تو لازم آتا ہے کہ انسان ہمدردی کے لیے پیدا نہ ہو، حالانکہ اگر انسان کی پیدائش، ہمدردی کے لیے نہ ہوتی تو پھر خدا تعالیٰ انسان کو اس کا حکم کیوں دیتا؟ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خدمت مخلوق بھی عبادت الٰہی میں داخل ہے۔میری دعا کہ کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر رضا محمد خان،ان کے رفقاء اور ان کے ان نیک جذبوں اور اس کارخیر میں ان کے ساتھ شامل تمام احباب کی مدد و نسرت فرمائے اور انہیں استقامت نصیب فرمائے۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Themes